تحریر : سید عارف سعید بخاری
ہمیشہ کی طرح امسال بھی پانچ فروری کو پاکستان اور دنیا بھر میں کشمیر اور کشمیری مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن منایا جاتا ہے ۔اس دن دنیا بھر میں بڑے بڑے جلسے جلوسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے،ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔سمینارز ، مذاکروں و دیگر تقریبات میںسیاسی و سماجی قائدین بڑے پُرجوش انداز میں تقاریرکریں گے۔کشمیری مظلوم و محکوم عوام کے خیرخواہ اور ہمدرد مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں پر ڈھائے جانے والے مظالم بیان کرتے ہوئے محض ایک دن کے لیے پریشان اور مضطرب نظر آئیں گے جبکہ سارا سال انتہائی بے حسی میںگذار دیں گے۔
بشک! آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے اور اس حق کیلئے دنیا بھر کی اقوام کو اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنا پڑتے ہیں ، آزادی اگر تقاریر اور بُرجوش نعروں سے ملتی تو شاہد آج کشمیر میں بھی آزادی کا سورج طلوع ہو چکا ہوتا اور کشمیر کی جنت بے نظیر میں امن و خوشحالی کے پھول کھل رہے ہوتے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ مظاہروں ، جلوسوں اور نعروں سے کم از کم کشمیر کبھی آزادہو گا اور نہ ہی ہمارا یہ طرز عمل بھارتی حکمرانوں کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق خود ارادیت دے۔
27 اکتوبر1947 ء کو بھارتی حکمرانوں نے کشمیر پراپنا غاصبانہ قبضہ جمایا جو آج تک جاری ہے۔اور اس وقت سے لے کر اب تک لاکھوں کشمیری بھارتی ڈوگرہ فوج کے ہاتھوں جام شہادت نوش کر سکے ہیں ۔لیکن معاملہ جوں کا توں لٹکا ہواہے ۔بھارت کا کشمیر میں داخل ہونے کا کوئی جواز نہ تھا ۔ لیکن پھر بھی وہ کشمیر میں جا گھسا اور کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیلنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔ گذشتہ 30سالوں میں تحریک آزادی میں بہت تیزی آئی لیکن اس کے باوجود مظلوم کشمیریوں کو آزادی نصیب نہ ہو سکی۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کوپاکستان ”شہ ر گ” قرار دیا تھا لیکن اُن کی وفات کے بعد یہشہ رگ غیر کے پنجہ استبداد میں جکڑی ہے ۔ آج عالمی قوتوں کے سامنے بھارت طاقت کے زور پر کشمیر پر اپنا غاصبانہ تسلط قائم رکھے ہوئے ہے اور کشمیری عوام بے بسی کی تصویربنے ہوئے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق 8 لاکھ سے زائدبھارتی وحشی فوجی درندوں کی طرح مسلمانوں کا خون چوس رہے ہیں ۔ ظلم و بربریت کا جو بازار بھارتی افواج نے وہاں گرم کر رکھا ہے اس الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے ۔ کشمیری نہتے مسلمانوں کوبھی جن کا ”جہاد کشمیر ” سے کوئی براہ ء راست واسطہ نہیں ،اُن کو قتل کرنا وہاں معمولی بات ہے۔
المیہ ہی ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے وقت انگریزسامراج نے ہندؤوں کی ملی بھگت سے مسلم اکثریتی علاقے بھی ہندوستان میں شامل کر دئیے تھے۔جو انگریزسامراج کی سراسر بد دیانتی کا شاہکار تھی۔یوں انہوں نے اس خطے سے جاتے جاتے بھی دونوں ممالک پاکستان اور بھارت کے لییایک نہ ختم ہونے والی دشمنی کی بنیاد ڈال دی ۔اسی تنازعے کی بنیاد پر پاکستان اور بھارت 1947 ء سے آج تک4 بڑی بڑی جنگیں ہو چکی ہیں اور دونوں ممالک ہر سال اربوں روپے کا فنڈ جنگ و جدال پر خرچ کرنے پر مجبور ہے۔
آج تک جتنی رقم دونوں ممالک جنگ و فساد پر ضائع کر چکے ہیں یہی رقم اگر کشمیریوں کی فلاح وبہبود پر خرچ کی جاتی تو یہ خوبصورت وادی دنیا کا ایک بہترین علاقہ بن چکا ہوتا اور یہاں کو عوام ایک خوشحال زندگی بسر کر رہے ہوتے ۔مگر اس کے برعکس دونوں ممالک اپنی توانائی مظلوموں کو اپنا دست نگر بنانے پر صرف کر رہے ہیں ۔ اس لحاظ سے دکھا جائے تو پاکستان کے مقابلے میں بھارت مقبوضہ کشمیر میں محض انسانی قتل عام پر اربوں روپے خرچ کر رہا ہے ۔اس کے باوجود وہ کشمیریوں کے دلوں میں اپنا مقام پیدا نہیں کر سکا ۔۔کشمیری تو آج بھی پاکستان اور پاکستان کے عوام کو ہی اپنا ہمدرد اور خیر خواہ سمجھتے ہیں ۔ اس معاملے میں کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتیں۔
بھارتی افواج کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں مسلسل کشمیریوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے ۔ کوئی دن ایسا نہیں گذرتا کہ جب بھارتی فوجی کسی نہ کسی کشمیری کو شہید نہ کر دیں۔ دنیا بھر میں محکوم اقوام پر ڈھائے جانے والے مظالم پر صدائے احتجاج بلند کرنے والی عالمی امن کی ٹھیکیدار سُپر طاقتیں بھی کشمیر کے معاملے میں مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی غیر موثر ہو چکی ہے۔
بھارت نے کشمیر میں لا تعداد ایسے قوانین نافذکر رکھے ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف کشمیریوں کی جد وجہدِ آزادی کو دبانا ہے ۔ ان میں ٹاڈا، پوٹا، نیشنل سکیورٹی آرڈیننس، سیکرٹ ایکٹ کرمنل پروسیجر کوڈ، انڈین ٹیلی گراف جیسے لا تعداد کالے قوانین شامل ہیں۔بھارت کشمیر پر قبضہ کے حق میں جو دلائل پیش کرتا ہے ان کی کوئی حیثیت نہیں،اقوامِ متحدہ دنیا بھر میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتا آرہا ہے ۔ایسا نظر آتا ہے کہ یہ صرف اور صرف یہود ونصاری کے حقوق کا محافظ ہے کیونکہ کشمیر اور فلسطین کے معاملے میں اس کا کو ئی کردار سامنے نہیں آیا۔ یہ بات بھی بالکل سچ ہے اقوامِ متحدہ سے کشمیر کی آزادی کی امید رکھنا عبث ایک خواب ہے جو ہمارے حکمرانگذشتہ68 سالوں سے دن کے اجالے میں دیکھ رہے ہیں اور شاہد دیکھتے رہیں گے۔
کشمیری آزادی کی خاطر روزانہ کی بنیاد پر اپنی جانوں کونذرانہ پیش کر رہے ہیںکیونکہ وہ ہر قیمت پر بھارتی سامراج سے نجات چاہتے ہیں۔ آج تمام عالم اسلام کشمیرکاز کی اخلاقی،سفارتی اورسیاسی مدد جاری رکھنے کا عزم دہرا کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ا پنا حق ادا کر دیا ہے ۔لیکن اس پالیسی سے کشمیر کاز کو کوئی سپورٹ نہیں مل سکی۔
تحریک آزادی ء کشمیر کاحقیقی آغاز تو 12 مئی 1990 ء کوہوا تھا جب حریت رہنماء مولوی محمد فاروق کو شہید کر دیا گیاتھا اور ان کی جگہ ان کے بیٹے میرو اعظ عمر فاروق ایک بہادر رہنما ء کے طور پر سامنے آئے تھے۔یہ وہ وقت تھا جب کشمیریوں نے علم جہاد بلند کیا اور دنیا کوباور کرانا کی جدوجہد کا آغاز کیا کہ اب کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ امریکہ اور اقوامِ متحدہ کے ایواانوں میں نہیں بلکہ کشمیر کے میدانوں میں ہوگا۔ یہی وجہ ہے آج کشمیریوں کی ”آوازِ حق خود ارادیت” دنیا کے کونے کونے میں گونج رہی ہے۔ آج کشمیر میں ہرگھرمیں آزادی کے نعرے گونج رہے ہیں جن کی وجہ سے بھارت کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔
پاکستان کی جانب سے موجودہ دور حکومت میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔اس لئے مسئلہ کشمیر حل ہونے کے دور دور تک آثار نظر نہیں آتے، کیونکہ پوری دنیا میں حقوق انسانی کے تحفظ کا علمبردار کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو اس تنازعہ کو سلجھانے میں سنجیدہ ہو ۔یہی وجہ ہے کہ کشمیری تنہاء اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اتنی مشکلات اور صعبتوں کے باوجود کشمیری ثابت قدمی سے اپنی جدوجہد آگے بڑھا رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے ۔ربّ کائنات ظالموں کو ڈھیل ضرور دینا ہے لیکن ظالموں کو کہیں فلاح نہیں ۔کشمیر کے مظلوم و محکوم عوام پر امید ہیں کہ ایک دن کشمیر کی آزادی کا سورج ضرور طلوع ہوگا کیونکہ وہ حق پر ہیں۔اور ان کا حق آزادی دنیاکی کوئی طاقت زیادہ دیر تک دبا کر نہیں رکھ سکتی۔
اس حوالے سے عالم اسلام اور خود پاکستانی قیادت کی خاموشی بھی سوالیہ نشان ہے ۔ آزادی کشمیر کے حوالے سے خود کشمیری قیادت بھی کوئی خاطر خواہ کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتی ہے ۔ کشمیر ایشو پر سب سے بڑا فریق خود پاکستان ہے ۔ کشمیری عوام کو پاکستان سے بہت توقعات وابستہ ہیں ۔ اپنا کی نظریں بلاشبہ سال ہا سال سے پاکستانی قیادت پر مرکوز ہیں ۔گو کہ سابقہ ادوار میں سابق صدر جنرل ضیاء الحق،سابق صدر جنرل پرویز مشرف سمیت دیگر عسکری و سیاسی قیادت نے اس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھانے کی سعی کی مگر عملاً اُن کی کاوشیں بھی کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ لا سکیں۔ موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کشمیر بارے جو پالیسی اختیار کی ہے اس سے کشمیریوں کو بہت حوصلہ ملا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عالم اسلام اس نازل مسئلے پر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں، پاکستان کوبھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگااور ہمیں مل کرعالمی قوتوں اور اقوام متحدہ پر زور دینا ہوگا کہ وہ اس مسئلے کا حل کشمیری عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق کرانے کی راہ نکالیں۔کیونکہ اس تنازعے کو حل کئے بغیر خطے میں امن قائم کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ موجودہ بے حسی ختم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو بھارتی فوجی درندے بے گناہ اور نہتے کشمیریوں کا خون بہاتے رہیں گے۔
بھارت کو ایک بات ذہن نشین کر لیناچاہئے کہ کشمیرک کٹ تو کستے ہیں مگر اپنے آزادی کے حق سے کبھی دستبردار نہیں ہو سکتے۔ وقت کے ساتھ ساتھ تحریک آزادی میں تیزی آ رہی ہے اور جوں جوں بھارتی مظالم بڑھتے ہیں توں توں کشمیریوں کا جذبہ حریت بھی اور مضبوط ہوتا ۔مایوسی گناہ عظیم ہے ۔کشمیری اپنے ربّ کی رحمت سے نااُمید نہیں ہیں بلکہ اس اُمید کے ساتھ مسلسل اپنی جدوجہد آزادی کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔کہ انشااللہ! کشمیر میں آزادی کا سورج ایک دن ضرور طلوع ہوگا اور بھارت کو اس جنت بے نظیروادی سے جانا ہوگا۔
میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن
تحریر : سید عارف سعید بخاری