تحریر: مولانا احمد مدنی
مسئلہ کشمیر آج سے 69 سال قبل برطانوی سامراج کا پیدا کیا ہوا ہے،اسکی داستان کچھ یوں ہے جب ہندوستان میں برطانوی سامراج کا سورج غروب ہونے کو تھا تو ایک پلان کے تحت 22 مارچ1947 کوبرطانوی سامراج نے لارڈمائونٹ بیٹن کو ہندوستان کا وائسرائے بناکربھیجاجس نے 3جون 1947 کو تقسیم ہندکے فارمولے کا اعلان کیا کہ برصغیرکے مسلم اکثریتی علاقے پاکستان اور غیر مسلم اکثریتی علاقے ہندوسان کے نام سے دو خودمختار ریاستیںوجود پذیر ہوں گی
برصغیر میں جو 560 نیم خود مختار اور خود مختار ریاستیں بشمول ریاست جموں و کشمیر اپنی جغرافیائی اور اکثریتی فرقہ وارانہ وابستگی کی بنیاد پر پاکستان یا بھارت میں سے کسی سے اتحاد کرسکتیں ہیں اس نے اس فارمولے کی 18 جولائی 1947 کوبر طانوی پارلیمنٹ سے منظوری لی اور 14 اگست1947 کو پاکستان کی آزادی کا اعلان ہوااور15اگست کو ہندوستان کی ،اور جو خود مختار اور نیم خود مختار ریاستیں تھیں انہوں نے 15 اگست 1947 تک طے شدہ اصولوں کے مطابق بھارت یاپاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کر لیا تھا سوائے، جونا گڑھ ،حیدر آباد دکن اور ریاست کشمیر کے ،اب ان کو فیصلہ کرنا تھا
برطانوی سامراج کی دوغلی پالیسی جونا گڑھ جسکی 80 فیصد آبادی ہندئوں پر مشتمل تھی مگر اس کا فرمانروا مسلمان تھااس نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کردیامگر وہی لارڈ مائونٹ بیٹن جو22 مارچ1947 کو ہندوستان کے وائسرائے بنائے گئے تھے وہ اب ہندوسان کے گورنر جنرل بن چکے تھے انہوں نے پاکستان کوخبر دارکیا اور اور کہا کہ جونا گڑھ جغرافیائی اعتبار سے بھارت کے ساٹھ منسلک ہے اور اکثریت ہندور مذہب سے تعلق رکھتی ہے لہذا اس ریاست کے الحاق کا فیصلہ استصوابِ رائے سے ہوگامگر بعد میں بھارتی فوج ریاست کے اندر امن کے نام پر داخل ہوئی اور بزور قبضہ کرلیا اور اسی طرح حیدر آباد کن جس کی 85فیصدآبادی ہندو تھی مگر فرمانروامسلمان تھا وہ بھی چاہتے تھے کہ ریاست پاکستان کا حصہ بنے یہاں بھی لارڈ مائونٹ بیٹن آڑے آئے اور فرقہ وارانہ فسادات پھیلنے کا بہانہ بنا کر ریاست پر چڑھائی کردی
اس پر بھی بزور قبضہ کر لیا،اب تیسری ریاست جس نے کسی کے ساتھ الحاق نہیں کیا تھا اس کے حالات بالکل مختلف تھے وہ یہ کہ ریاست جمو ں وکشمیر میں مسلم اکثریت کا تناسب 78 فیصد تھا،جغرافیائی اعتبار سے بھی وہ پاکستان کے ساتھ تھی اور سٹرک ،ریل اور ٹیلی گراف رابطے بھی پاکستان کے ذریعہ ہوتے تھے حتٰی کہ تما م اشیاء ضرورتات بھی پاکستان کے راستے ہی کشمیر تک پہنچتی تھیںمگر بدقسمتی سے یہاں کا فرمانروا غیر مسلم تھایہاں کے راجہ نے 27اکتوبر 1947کو اسی لارڈ مائونٹ بیٹن کو بھارت سے الحاق کی درخواست دی جسے اس نے 2 جون 1947 کے تقسیم ہند کے فارمولے کے بالکل برعکس منظور کرلیا اور مسلم اکثریتی علاقہ جو ہر اعتبار سے پاکستان کا حصہ بنناچاہیے تھا اسکابھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیااور ساتھ ہی بھارتی فوج کشمیر میں اتار دی گئی جو اب تک لاکھوںبے گناہ مسلمانوں کا نہ صر ف بہیمانہ قتل عام کرچکی ہے بلکہ لوٹ مار،خواتین کی اجتماعی عصمت دری اور جلائوگھیرائوکی بد ترین وارداتیں کر چکی ہے،
عالمی طاقتوں کا دوہرا معیار عالمی طاقتیں کشمیر یوںکو انکا حق خود ارادیت دلانے میں دوہرے معیار سے کام لے رہی ہیں ،اقوام متحدہ نے 1975 میں انڈونیشیا کے قبضہ میں آنے والی عیسائی ریاست مشرقی تیمور کو انکا حق خواردیت دلایا،اور حالیہ سکاٹ لینڈبرطانیہ میں لوگوں نے علیحدگی کا سوچا تو ان کو فوراً رائے شماری کا حق دے دیا گیامگر کشمیر میں رائے شماری کیوں نہیں ہوسکتی جبکہ اس کے لئے اقوام متحدہ کی 18 قرارداد یں موجود ہیں کشمیری اسی اقوام متحدہ کے چارٹرکے مطابق ہی رائے شماری مانگ رہے ہیںمگر بھارتی حکومت طرح طرح کی قانون سازی کرکے کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہے ، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری کوکشمیرکے معاملہ پراپنی دوغلی پالیسی ترک کرنی ہوگی اگر اقوام متحدہ اپنی دیگرقراردادوںپر عمل کراسکتی ہے تومسئلہ کشمیرکے حل کے لئے اپنی ہی منظور کردہ قرارداد پر عمل درآمدکیوں نہیں کرا سکتی ہے۔
تحریر: مولانا احمد مدنی