تحریر : علی عمران شاہین
آزادی کا خواب لئے کشمیری رہنما میر واعظ محمد یوسف شاہ کی قیادت میں الجزائر گئے تاکہ یہ دیکھیں کہ انہیں فرانسیسی استعمار سے آزادی کیسے ملی تھی؟ کیونکہ کشمیریوں نے سن رکھا تھا کہ جب الجزائر میں فرانسیسی قبضے کے خلاف جنگ آزادی لڑی جا رہی تھی تو اصل کردار وہاں کے عوام نے ادا کیا تھا۔تحریک آزادی کے ایک مظاہرے پر فرانسیسی فورسز نے فائرنگ کر کے ایک بچہ بھی شہید کر دیا تھا جس کے جواب میں الجزائری حریت پسندوں نے کارروائی کرتے ہوئے دو درجن سے زائد فرانسیسی پکڑ کر قیمہ کر کے قصابوں کی دکانوں پر لٹکا دیئے تھے۔ اس خوفناک واقعہ کے صرف تین روز بعد الجزائر آزاد ہو گیا تھا۔ کشمیری رہنما جب الجزائر پہنچے تو آزادی کے ہیرو اور پہلے صدر احمد بن بیلا نے ان کا خیرمقدم کیا اور پھر جب آزادی کے موضوع پر بات ہوئی تو بن بیلا نے اپنے دفتر کی کھڑکی کھولی اور کشمیری قیادت کو باہر کا نظارہ کرواتے ہوئے کہا کہ آپ کے سامنے یہ تاحد نگاہ پھیلی قبریں ان لوگوں کی ہیں جنہوں نے آزادی کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ آپ کو بھی آزادی چاہئے تو پھر ایسی بستیاں آباد کرنا پڑیں گی… کشمیری رہنمائوں نے یہ بات سنی تو وہ خاموش ہو گئے لیکن انہوں نے دل ہی دل میں یہ ایک ارادہ باندھ لیا تھا کہ وہ یہ بھی کر گزریں گے۔ احمد بن بیلا 12جنوری 2012ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ انہوں نے ضرور دیکھا ہو گا کہ کشمیریوں نے الجزائریوں سے بڑھ کر ایسے 700سے زائد قبرستان آباد کر دیئے ہیں۔ آج کشمیر میں10ہزار سے زائد قبریں ایسی ہیں کہ جن کے اندر دفن ہونے والوں کا بھی پتہ نہیں کہ وہ کون کون تھے…؟ شاید یہ وہی لوگ ہیں جن کے پیارے آج بھی سرینگر سمیت سارے مقبوضہ کشمیر کے شہروں میں ٹکریں مارتے نظر آتے ہیں کہ انہیں بھارتی فوج اٹھا کر لے گئی اور پھر ان کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا کہ وہ کہاں ہیں…؟ کبھی وہ دوبارہ اپنے پیاروں سے ملیں گے بھی کہ نہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت سینکڑوں کی تعداد میں ایسی خواتین ہیں کہ جنہیں ”آدھی بیوائیں” کا نام دیا گیا ہے کیونکہ ان کے سروں کے تاج جب اٹھا لئے گئے تو آج تک پھر پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں ہیں…؟ اب یہ خواتین کہیں انتظار کی سولی پر لٹکی ہیں تو کہیں موت سے ہمکنار ہو رہی ہیں۔ دنیا کو سمجھ نہیں آ رہی کہ انہیں اب اپنے مستقبل کے حوالے سے کیا رائے دی جائے…؟
کشمیریوں نے قربانیوں کی انتہا کر دی… بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ ہی پلٹ دی تو بے جا نہ ہو گا۔ آج وہ جس کھلے پنجرے میں قید ہیں، وہ تو واقعی دنیا کی ایک انوکھی ترین تاریخ ہے کہ اتنے محدود علاقے میں اتنی بڑی فوجی تعیناتی اور اتنا طویل عرصہ… وہم و گمان سے باہر ہے… کشمیری تو آزادی کے میرٹ پر پورا اتر رہے ہیں بلکہ پورا اتر چکے ہیں۔ بس معاملہ یہاں آ کر اٹکا ہوا ہے کہ ان کا جو وکیل بنا تھا، وہ اول روز سے یہ طے نہیں کر سکا کہ اس نے اپنے مؤکل کے حوالے سے عدالت میں مؤقف کیا پیش کرنا ہے…؟ جب عدالت میں وکیل ہی بار بار مؤقف بدل رہا ہو تو وہ عدالت جو پہلے ہی بے ایمان و غدار ہو تو انصاف کی توقع کیا رہ جاتی ہے۔ویسے تو کشمیر کے اول معرکے میں بانی پاکستان نے اپنے مؤقف کا فیصلہ اس وقت سنا دیا تھا کہ جب انہوں نے اپنی مسلح افواج کے سربراہ جنرل گریسی کو بھارت کے مقابلے میں کشمیر میں فوج داخل کرنے کا حکم جاری کیا تھا جسے جنرل گریسی نے تو ماننے سے انکار کر دیا تھا لیکن بانی پاکستان محمد علی جناح کی دلی و ذاتی رائے تو کھل کر سامنے آ گئی تھی کہ کشمیر پر پاکستان کا مؤقف کیا ہے۔ اس کے بعد نہرو پاکستان کے رضاکار مجاہدین اور قبائلی لشکروں کی فتوحات کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جا پہنچا تھا کہ پاکستان کو کشمیر پر قبضے سے روکا جائے۔ اقوام متحدہ پہنچ کر یہ مسئلہ بین الاقوامی سطح کا بن چکا تھا۔ 1949ء میں باقاعدہ جنگ بندی ہوئی اور پھر اس علاقے میں پاکستان و بھارت کے مابین سیز فائر لائن تشکیل پائی۔ 1949ء سے 1956ء تک سلامتی کونسل اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کے لئے طریقہ کار تلاش کرتی رہی۔ اس مقصد کیلئے اقوام متحدہ کے وفود کشمیر کے دونوں حصوں کا دورہ بھی کرتے رہے۔ اس عرصے میں سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر 133مرتبہ زیر بحث آیا۔ قراردادیں پاس، مسودوں میں ترامیم و اضافہ ہوتا ، کمیشن بنتے اور ٹوٹتے رہے۔ پاکستان ہر تجویز اور رپورٹ تسلیم کرتا رہا لیکن بھارت ہر اس تجویز کو رد کرتا رہا، جس سے جنگ بندی سے پیدا ہونے والی خاموشی ٹوٹنے اور کوئی اگلا قدم اٹھنے کا خطرہ پیدا ہوتا۔ برطانیہ نے تو تقسیم ہند کے وقت سارا خزانہ، ساری صنعت و حرفت، سارا اسلحہ اور ایمونیشن بھارت کو دے دیا تھا اور ان کا گمان یہی تھا کہ پاکستان کو جس طرح بھارت کے ساتھ تنازعات اور مسائلستان کی دلدل میں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ان حالات میں وہ چند سال نہیں نکال سکے گا اور ایک بار پھر متحدہ ہندوستان خود بخود تشکیل پا جائے گا لیکن ایسا نہ ہوا اور مجبور و مقہور پاکستان ایسا تناور درخت بن رہا تھا کہ جو سب کیلئے حیران و پریشان کن تھا۔ 1965ء میں پاکستان نے ناکام آپریشن جبرالٹر شروع کیا۔ یہ آپریشن شروع کرانے میں ذوالفقار علی بھٹو کا بنیادی کردار تھا کیونکہ بھٹو ایوب کو اقتدار سے الگ کر کے خود حکومت سنبھالنے کے خواہش مند تھے۔ اس کا اظہار انہوں نے لندن میں ایک نامور سوشلسٹ پاکستانی شخصیت طارق علی کے اس سوال کہ ”آپ نے ایوب خان کو 1965ء کی جنگ میں کیوں دھکیلا تھا؟” کے جواب میں یوں کہا تھا کہ ”مجھے بتائو، اس بڈھے سے جان چھڑانے کا اور کیا طریقہ تھا…؟” بھٹو کا مقصد تو یہ تھا کہ اب پاکستانی فوج جیت کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ چین سے جنگ کے بعد ساری دنیا نے بھارتی فوج کو اس قدر مضبوط کیا کہ اب مقابلہ نہیں ہو گا بلکہ پاکستانی فوج کومار پڑے گی اور فوجی حکومت سے جان چھوٹے گی اور اقتدار میرے قبضے میں ہو گا۔ بہرحال جنگ ہوئی اور پھر معاہدہ تاشقند… جس میں ضامن روس بنا اور یوں مسئلہ کشمیر عالمی فورم سے اتر کر دو ملکوں کا باہمی مسئلہ قرار پایا اور روس اس کا ضامن… لیکن کمال دیکھئے کہ 1971ء کے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو 1974ء کے شملہ معاہدہ میں کشمیر کی سیزفائر لائن کو کنٹرول لائن سے بدل کر اسے بین الاقوامی سرحد سے محض ایک قدم کے فاصلے پر کر دیا گیا اور شملہ معاہدہ میں روس بھی نکل گیا۔ یوں یہ مسئلہ محض دو ملکوں کا باہمی سرحدی تنازعہ قرار پایا۔ عینی گواہ کہتے ہیں کہ بھٹو نے شملہ معاہدہ کے وقت اندرا گاندھی سے کہا تھا کہ کنٹرول لائن اصل میں بین الاقوامی سرحد ہی ہے لیکن یہ لکھ کر نہیں دے سکتا کیونکہ اس طرح تو میری عوام میرا ”جنازہ” نکال دے گی۔ اس کا عملی اظہار انہوں نے 1974ء کے دورئہ مظفر آباد میں اپنے خطاب میں یوں کیا تھا کہ ”کشمیریو! کب تک دو پہاڑیوں کے درمیان لٹکے رہوں گے، مجھے یہاں گورنر ہائوس کی جگہ دو” یوں بھٹو نے آزاد کشمیر کو پانچواں صوبہ بنانے کی بھرپور کوشش کی جو بالآخر ناکام ہوئی۔
روس شکست کے بعد جنرل ضیاء الحق نے تحریک آزادی شروع کروائی، معاملہ آگے چلا لیکن ہمیشہ کی طرح بعد کی کوئی حکومت یہ طے نہ کر سکی کہ اب کشمیر پر بھارت کے یک نکاتی مؤقف کہ ”کشمیر پر ہر صورت قابض رہنا ہے” کے مقابلے میں ان کا مؤقف کیا ہو گا؟ 1998ء میں ایٹمی دھماکے ہوئے اور پھر اٹل بہاری واجپائی کی پاکستان آمد اور معاہدہ لاہور… معاہدہ لاہور میں بھی سب سے زیادہ زور ”شملہ معاہدہ پر اس کی روح کے مطابق عمل” پر دیا گیا لیکن اتنا ہوا کہ بھارت نے کشمیر کو متنازعہ اور حل طلب مسئلہ تسلیم کر لیا لیکن جب معرکہ کارگل پیش آیا اور پھر نوازشریف پرویز مشرف کا شکار بنے تو پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال کر کشمیر پر رہی سہی کسر نکالتے ہوئے مؤقف بدل بدل کر نت نئے فارمولے پیش کرنا شروع کر دیئے بلکہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے باہر نکل کر باہم حل کرنے کی بھی پیشکش کر ڈالی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر اپنے فورم سے اٹھا کر باہر پھینک دیا جسے دوبارہ بڑی مشکل سے اقوام متحدہ کے کباڑ خانے میں داخل کرایا گیا۔ کمال دیکھئے کہ آج پاکستان سکیورٹی کونسل کا رکن ہے اور اس کا صدر بھی لیکن وہ مسئلہ کشمیر تو پیش نہیں کرتا البتہ امریکہ کے ڈرون حملوں کو قانونی حیثیت دینے کی عالمی قرارداد کی منظوری پاکستانی صدر مسعود خان کے دستخط سے ہوتی ہے۔ اگرچہ ابھی یہ محدود منظوری ہے لیکن بنیاد تو رکھ دی گئی ہے اور وہ بھی پاکستان کے ہاتھوں سے… یعنی یہ ہے کشمیریوں کے وکیل کا حال اور تاریخ… بھارت کی تہاڑ جیل میں پھانسی چڑھ کر مقبول بٹ نے جس کشمیری قوم کو آزادی کے راستے پر چلایا تھا اس نے بھارت سے ٹکر میں قربانیوں کی حدیں عبور کر کے رکھ دیں۔ کشمیریو ںنے بہادری و اولولعزمی کی وہ داستانیں رقم کیں کہ دنیا عش عش کر اٹھی… گوریلا جنگ کے وہ دائو پیچ کھیلے کہ ایک عالم میں مثال بن گئے۔ ہزارہا کشمیری بیٹے 14ہزار سے 16ہزار فٹ بلند برفانی چوٹیوں اور خونخوار جانوروں سے بھرے جنگلات میں سالہا سال جڑی بوٹیاں کھا کر ویرانوں میں اپنے لاشے پھنکوا کر ایک مشعل روشن کر گئے۔ اس مزاحمت کاری میں عورتیں، بچے اور بوڑھے بھی پیچھے نہ رہے… لیکن لکیر کے دوسری طرف کیا حالات رہے…؟ آج بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
5فروری آیا تو مجھے کئی روز سے 11اگست 2008ء کا وہ دن یاد آ رہا ہے کہ جب مسلسل بھارتی محاصرے سے ستائے لاکھوں کشمیری اپنی ہزاروں گاڑیوں پر پھل اور سبزیاں لادے ”تیری منڈی میری منڈی… راولپنڈی، راولپنڈی” کے نعرے لگاتے آزاد کشمیر کی طرف بڑھ رہے تھے تو ان پر بھارتی فورسز نے بے پناہ فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں موقع پر60کشمیری شہید، سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ شہداء میں ممتاز رہنما شیخ عبدالعزیز بھی شامل تھے لیکن لکیر کے دوسری جانب سوائے جماعة الدعوة و جماعت اسلامی کے چند سو کارکنان اور تھوڑے کشمیری لوگوں کے اور کوئی ان کے درد پر مرہم رکھنے کے لئے کھڑا نہ تھا…راولپنڈی بھی خاموش تھا اور اسلام آباد بھی… بلکہ سارا پاکستان بھی… آخر کیوں؟یہ سوال آج بھی جواب چاہتا ہے۔ آزادی کا خواب لئے کشمیری رہنما میر واعظ محمد یوسف شاہ کی قیادت میں الجزائر گئے تاکہ یہ دیکھیں کہ انہیں فرانسیسی استعمار سے آزادی کیسے ملی تھی؟ کیونکہ کشمیریوں نے سن رکھا تھا کہ جب الجزائر میں فرانسیسی قبضے کے خلاف جنگ آزادی لڑی جا رہی تھی تو اصل کردار وہاں کے عوام نے ادا کیا تھا۔تحریک آزادی کے ایک مظاہرے پر فرانسیسی فورسز نے فائرنگ کر کے ایک بچہ بھی شہید کر دیا تھا جس کے جواب میں الجزائری حریت پسندوں نے کارروائی کرتے ہوئے دو درجن سے زائد فرانسیسی پکڑ کر قیمہ کر کے قصابوں کی دکانوں پر لٹکا دیئے تھے۔ اس خوفناک واقعہ کے صرف تین روز بعد الجزائر آزاد ہو گیا تھا۔ کشمیری رہنما جب الجزائر پہنچے تو آزادی کے ہیرو اور پہلے صدر احمد بن بیلا نے ان کا خیرمقدم کیا اور پھر جب آزادی کے موضوع پر بات ہوئی تو بن بیلا نے اپنے دفتر کی کھڑکی کھولی اور کشمیری قیادت کو باہر کا نظارہ کرواتے ہوئے کہا کہ آپ کے سامنے یہ تاحد نگاہ پھیلی قبریں ان لوگوں کی ہیں جنہوں نے آزادی کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ آپ کو بھی آزادی چاہئے تو پھر ایسی بستیاں آباد کرنا پڑیں گی… کشمیری رہنمائوں نے یہ بات سنی تو وہ خاموش ہو گئے لیکن انہوں نے دل ہی دل میں یہ ایک ارادہ باندھ لیا تھا کہ وہ یہ بھی کر گزریں گے۔
احمد بن بیلا 12جنوری 2012ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ انہوں نے ضرور دیکھا ہو گا کہ کشمیریوں نے الجزائریوں سے بڑھ کر ایسے 700سے زائد قبرستان آباد کر دیئے ہیں۔ آج کشمیر میں10ہزار سے زائد قبریں ایسی ہیں کہ جن کے اندر دفن ہونے والوں کا بھی پتہ نہیں کہ وہ کون کون تھے…؟ شاید یہ وہی لوگ ہیں جن کے پیارے آج بھی سرینگر سمیت سارے مقبوضہ کشمیر کے شہروں میں ٹکریں مارتے نظر آتے ہیں کہ انہیں بھارتی فوج اٹھا کر لے گئی اور پھر ان کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا کہ وہ کہاں ہیں…؟ کبھی وہ دوبارہ اپنے پیاروں سے ملیں گے بھی کہ نہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت سینکڑوں کی تعداد میں ایسی خواتین ہیں کہ جنہیں ”آدھی بیوائیں” کا نام دیا گیا ہے کیونکہ ان کے سروں کے تاج جب اٹھا لئے گئے تو آج تک پھر پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں ہیں…؟ اب یہ خواتین کہیں انتظار کی سولی پر لٹکی ہیں تو کہیں موت سے ہمکنار ہو رہی ہیں۔ دنیا کو سمجھ نہیں آ رہی کہ انہیں اب اپنے مستقبل کے حوالے سے کیا رائے دی جائے…؟ کشمیریوں نے قربانیوں کی انتہا کر دی… بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ ہی پلٹ دی تو بے جا نہ ہو گا۔ آج وہ جس کھلے پنجرے میں قید ہیں، وہ تو واقعی دنیا کی ایک انوکھی ترین تاریخ ہے کہ اتنے محدود علاقے میں اتنی بڑی فوجی تعیناتی اور اتنا طویل عرصہ… وہم و گمان سے باہر ہے… کشمیری تو آزادی کے میرٹ پر پورا اتر رہے ہیں بلکہ پورا اتر چکے ہیں۔ بس معاملہ یہاں آ کر اٹکا ہوا ہے کہ ان کا جو وکیل بنا تھا، وہ اول روز سے یہ طے نہیں کر سکا کہ اس نے اپنے مؤکل کے حوالے سے عدالت میں مؤقف کیا پیش کرنا ہے…؟ جب عدالت میں وکیل ہی بار بار مؤقف بدل رہا ہو تو وہ عدالت جو پہلے ہی بے ایمان و غدار ہو تو انصاف کی توقع کیا رہ جاتی ہے۔ویسے تو کشمیر کے اول معرکے میں بانی پاکستان نے اپنے مؤقف کا فیصلہ اس وقت سنا دیا تھا کہ جب انہوں نے اپنی مسلح افواج کے سربراہ جنرل گریسی کو بھارت کے مقابلے میں کشمیر میں فوج داخل کرنے کا حکم جاری کیا تھا جسے جنرل گریسی نے تو ماننے سے انکار کر دیا تھا لیکن بانی پاکستان محمد علی جناح کی دلی و ذاتی رائے تو کھل کر سامنے آ گئی تھی کہ کشمیر پر پاکستان کا مؤقف کیا ہے۔ اس کے بعد نہرو پاکستان کے رضاکار مجاہدین اور قبائلی لشکروں کی فتوحات کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جا پہنچا تھا کہ پاکستان کو کشمیر پر قبضے سے روکا جائے۔ اقوام متحدہ پہنچ کر یہ مسئلہ بین الاقوامی سطح کا بن چکا تھا۔ 1949ء میں باقاعدہ جنگ بندی ہوئی اور پھر اس علاقے میں پاکستان و بھارت کے مابین سیز فائر لائن تشکیل پائی۔ 1949ء سے 1956ء تک سلامتی کونسل اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کے لئے طریقہ کار تلاش کرتی رہی۔ اس مقصد کیلئے اقوام متحدہ کے وفود کشمیر کے دونوں حصوں کا دورہ بھی کرتے رہے۔ اس عرصے میں سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر 133مرتبہ زیر بحث آیا۔ قراردادیں پاس، مسودوں میں ترامیم و اضافہ ہوتا ، کمیشن بنتے اور ٹوٹتے رہے۔ پاکستان ہر تجویز اور رپورٹ تسلیم کرتا رہا لیکن بھارت ہر اس تجویز کو رد کرتا رہا، جس سے جنگ بندی سے پیدا ہونے والی خاموشی ٹوٹنے اور کوئی اگلا قدم اٹھنے کا خطرہ پیدا ہوتا۔ برطانیہ نے تو تقسیم ہند کے وقت سارا خزانہ، ساری صنعت و حرفت، سارا اسلحہ اور ایمونیشن بھارت کو دے دیا تھا اور ان کا گمان یہی تھا کہ پاکستان کو جس طرح بھارت کے ساتھ تنازعات اور مسائلستان کی دلدل میں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ان حالات میں وہ چند سال نہیں نکال سکے گا اور ایک بار پھر متحدہ ہندوستان خود بخود تشکیل پا جائے گا لیکن ایسا نہ ہوا اور مجبور و مقہور پاکستان ایسا تناور درخت بن رہا تھا کہ جو سب کیلئے حیران و پریشان کن تھا۔ 1965ء میں پاکستان نے ناکام آپریشن جبرالٹر شروع کیا۔ یہ آپریشن شروع کرانے میں ذوالفقار علی بھٹو کا بنیادی کردار تھا کیونکہ بھٹو ایوب کو اقتدار سے الگ کر کے خود حکومت سنبھالنے کے خواہش مند تھے۔ اس کا اظہار انہوں نے لندن میں ایک نامور سوشلسٹ پاکستانی شخصیت طارق علی کے اس سوال کہ ”آپ نے ایوب خان کو 1965ء کی جنگ میں کیوں دھکیلا تھا؟” کے جواب میں یوں کہا تھا کہ ”مجھے بتائو، اس بڈھے سے جان چھڑانے کا اور کیا طریقہ تھا…؟” بھٹو کا مقصد تو یہ تھا کہ اب پاکستانی فوج جیت کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ چین سے جنگ کے بعد ساری دنیا نے بھارتی فوج کو اس قدر مضبوط کیا کہ اب مقابلہ نہیں ہو گا بلکہ پاکستانی فوج کومار پڑے گی اور فوجی حکومت سے جان چھوٹے گی اور اقتدار میرے قبضے میں ہو گا۔ بہرحال جنگ ہوئی اور پھر معاہدہ تاشقند… جس میں ضامن روس بنا اور یوں مسئلہ کشمیر عالمی فورم سے اتر کر دو ملکوں کا باہمی مسئلہ قرار پایا اور روس اس کا ضامن… لیکن کمال دیکھئے کہ 1971ء کے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو 1974ء کے شملہ معاہدہ میں کشمیر کی سیزفائر لائن کو کنٹرول لائن سے بدل کر اسے بین الاقوامی سرحد سے محض ایک قدم کے فاصلے پر کر دیا گیا اور شملہ معاہدہ میں روس بھی نکل گیا۔ یوں یہ مسئلہ محض دو ملکوں کا باہمی سرحدی تنازعہ قرار پایا۔ عینی گواہ کہتے ہیں کہ بھٹو نے شملہ معاہدہ کے وقت اندرا گاندھی سے کہا تھا کہ کنٹرول لائن اصل میں بین الاقوامی سرحد ہی ہے لیکن یہ لکھ کر نہیں دے سکتا کیونکہ اس طرح تو میری عوام میرا ”جنازہ” نکال دے گی۔ اس کا عملی اظہار انہوں نے 1974ء کے دورئہ مظفر آباد میں اپنے خطاب میں یوں کیا تھا کہ ”کشمیریو! کب تک دو پہاڑیوں کے درمیان لٹکے رہوں گے، مجھے یہاں گورنر ہائوس کی جگہ دو” یوں بھٹو نے آزاد کشمیر کو پانچواں صوبہ بنانے کی بھرپور کوشش کی جو بالآخر ناکام ہوئی۔
روس شکست کے بعد جنرل ضیاء الحق نے تحریک آزادی شروع کروائی، معاملہ آگے چلا لیکن ہمیشہ کی طرح بعد کی کوئی حکومت یہ طے نہ کر سکی کہ اب کشمیر پر بھارت کے یک نکاتی مؤقف کہ ”کشمیر پر ہر صورت قابض رہنا ہے” کے مقابلے میں ان کا مؤقف کیا ہو گا؟ 1998ء میں ایٹمی دھماکے ہوئے اور پھر اٹل بہاری واجپائی کی پاکستان آمد اور معاہدہ لاہور… معاہدہ لاہور میں بھی سب سے زیادہ زور ”شملہ معاہدہ پر اس کی روح کے مطابق عمل” پر دیا گیا لیکن اتنا ہوا کہ بھارت نے کشمیر کو متنازعہ اور حل طلب مسئلہ تسلیم کر لیا لیکن جب معرکہ کارگل پیش آیا اور پھر نوازشریف پرویز مشرف کا شکار بنے تو پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال کر کشمیر پر رہی سہی کسر نکالتے ہوئے مؤقف بدل بدل کر نت نئے فارمولے پیش کرنا شروع کر دیئے بلکہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے باہر نکل کر باہم حل کرنے کی بھی پیشکش کر ڈالی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر اپنے فورم سے اٹھا کر باہر پھینک دیا جسے دوبارہ بڑی مشکل سے اقوام متحدہ کے کباڑ خانے میں داخل کرایا گیا۔ کمال دیکھئے کہ آج پاکستان سکیورٹی کونسل کا رکن ہے اور اس کا صدر بھی لیکن وہ مسئلہ کشمیر تو پیش نہیں کرتا البتہ امریکہ کے ڈرون حملوں کو قانونی حیثیت دینے کی عالمی قرارداد کی منظوری پاکستانی صدر مسعود خان کے دستخط سے ہوتی ہے۔ اگرچہ ابھی یہ محدود منظوری ہے لیکن بنیاد تو رکھ دی گئی ہے اور وہ بھی پاکستان کے ہاتھوں سے… یعنی یہ ہے کشمیریوں کے وکیل کا حال اور تاریخ… بھارت کی تہاڑ جیل میں پھانسی چڑھ کر مقبول بٹ نے جس کشمیری قوم کو آزادی کے راستے پر چلایا تھا اس نے بھارت سے ٹکر میں قربانیوں کی حدیں عبور کر کے رکھ دیں۔ کشمیریو ںنے بہادری و اولولعزمی کی وہ داستانیں رقم کیں کہ دنیا عش عش کر اٹھی… گوریلا جنگ کے وہ دائو پیچ کھیلے کہ ایک عالم میں مثال بن گئے۔ ہزارہا کشمیری بیٹے 14ہزار سے 16ہزار فٹ بلند برفانی چوٹیوں اور خونخوار جانوروں سے بھرے جنگلات میں سالہا سال جڑی بوٹیاں کھا کر ویرانوں میں اپنے لاشے پھنکوا کر ایک مشعل روشن کر گئے۔ اس مزاحمت کاری میں عورتیں، بچے اور بوڑھے بھی پیچھے نہ رہے… لیکن لکیر کے دوسری طرف کیا حالات رہے…؟ آج بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ 5فروری آیا تو مجھے کئی روز سے 11اگست 2008ء کا وہ دن یاد آ رہا ہے کہ جب مسلسل بھارتی محاصرے سے ستائے لاکھوں کشمیری اپنی ہزاروں گاڑیوں پر پھل اور سبزیاں لادے ”تیری منڈی میری منڈی… راولپنڈی، راولپنڈی” کے نعرے لگاتے آزاد کشمیر کی طرف بڑھ رہے تھے تو ان پر بھارتی فورسز نے بے پناہ فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں موقع پر60کشمیری شہید، سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ شہداء میں ممتاز رہنما شیخ عبدالعزیز بھی شامل تھے لیکن لکیر کے دوسری جانب سوائے جماعة الدعوة و جماعت اسلامی کے چند سو کارکنان اور تھوڑے کشمیری لوگوں کے اور کوئی ان کے درد پر مرہم رکھنے کے لئے کھڑا نہ تھا…راولپنڈی بھی خاموش تھا اور اسلام آباد بھی… بلکہ سارا پاکستان بھی…
آخر کیوں؟یہ سوال آج بھی جواب چاہتا ہے۔
تحریر : علی عمران شاہین