تحریر: نعیم الاسلام چودھری
اللہ کے نبی کریم محمد رسول اللہۖ اور صحابہ کرام کی زندگیوں کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ کفرو شرک ختم کر کے اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم کر دیا جائے ، اسی مقصد کیلئے ان کی زندگی وقف تھی اوراسی لئے انہوں نے اپنی جانیں تک قربان کر دیں،صحابہ کرام مکہ سے گھر بار کی قربانیاں دے کر مدینہ پہنچے ہی تھے کہ جہاد کا حکم آ گیا ،تو صحابہ سب کچھ چھوڑ کر جہاد کیلئے نکل کھڑے ہوئے ۔ حضرت جابر کی نو بہنیں تھیںجن کو اللہ کے سہارے پر چھوڑ کر حضرت جابر کے والدجنگ احد میں شہید ہو گئے ، حضرت جلیبیب اور حضرت حنظلہ شادی کی پہلی رات نئی دلہنوں کو چھوڑ کر نکلے اور مردانہ وار لڑتے شہید ہو گئے۔مصعب بن عمیر مکہ کے شہزادے تھے لیکن جب شہید ہوئے تو کفن دینے کیلئے پوری چادر بھی میسر نہ تھی ،حضر ت انس بن نضر بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے کہتے تھے کہ اگر اب جہاد کا موقع ملا دکھا دوں گا کہ میں کیا کرتا ہوں ، احد کے میدان میں بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو ئے اسی سے زیادہ زخم آئے اور ان کے بارے میں یہ آیت اتری فمنھم من قضی نحبہ و منھم من ینتظر۔۔۔
کچھ نے وعدہ پورا کیااور کچھ منتظر ہیں وعدے کے
ان شہدا کا قرض ہے تم پر اترے جو پورے وعدے پہ
وہ شہدا ہمیں خواب غفلت سے بیدار کر رہے ہیں
شہدا نے پکارا ہے تم کو فردوس کے بالا خانوں سے
ہم راہ وفا میں کٹ آئے تمہیں پیار ابھی تک جانوں سے
آج ساری دنیا میں اسلام مظلوم ہے ، مسلمان کٹ رہے ہیں ، مسلمانوں کے خطوں پر کافروں کے قبضے ہیں، مساجد گرائی اور قرآن جلائے جا رہے ہیں ، پیغمبراسلام ۖ کے نعوذ باللہ خاکے بنائے جا رہے ہیں جبکہ ایک وہ وقت تھا کہ ایک یہودی نے مسلمان عورت کی چادر کھینچ کر اسے بے پردہ کرنے کی کوشش کی تو اس عورت کی پکار پر ایک مسلمان نے اپنی تلوار سے اس یہودی کی گردن اڑا دی ،ان کا صرف دین کا رشتہ تھا وہ سب مسلمان عورتوں کی عزتوں کے محافظ تھے، آج دنیا میں مسلمان عورتوں کی عزتیںپامال ہورہی ہیں اور ہم سوچتے ہیں کہ ہماراا ن سے کیا رشتہ ہے؟ اگر صحابہ کی ایسی سوچ ہوتی تو وہ اس عورت کی مدد نہ کرتے ، محمد بن قاسم سمندروں کو چیرتا ہوا جہادی دستے لے کر ایک بہن کی فریاد پر برصغیر نہ پہنچتا۔
صحابہ کرام کے برعکس ہم تو اپنی اس کشمیری بہن آسیہ اندرابی کو بھی بھول گئے ہیں جن کے خاوند 23 سال سے جیل میں قید ہیں مگر اس خاتون آہن کے پایہ استقلال میں لغزش نہیں آئی، وہ کشمیری بہنیں آج بھی اسلام اور پاکستان کے حق میں نعرے لگاتیں جھنڈے لہراتیں اور بار بار گرفتار ہوتیں ہمیں پکار رہی ہیں کہ پاکستان کے نوجوان کب خواب غفلت سے بیدار ہو کر ہماری مدد کیلئے آئیں گے؟آسیہ اندرابی نے پاکستانی قوم کو مدد کیلئے پکارتے ہوئے امت مسلمہ اورپاکستانی نوجوانوں سے کہا ہے کہ بھارت نے جموں کشمیر کو مقتل گاہ بنادیا ہے ایک ہی وقت میں 40 جنازے پڑھائے گئے ، سینکڑوں زخمی ہیں، قحط کا سماں ہے ، خواتین سے زیادتی کی جارہی ہے، لیکن ہم اپنی مصروفیات میں مگن ، ان کے دکھوں سے بے پرواہ ہیں،ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر بحثیت قوم ان کیلئے آواز تک بلند کرنے کیلئے تیار نہیں، جبکہ آج ہم بار بار قرآن میں پڑھتے ہیں تم کیوں ان مظلوم عورتوں بچوں کی مدد کیلئے نہیں نکلتے؟ آج ہم ان مظلوم مسلمانوں کی مدد کریںگے تو اللہ بھی ہماری مدد کرے گالیکن صحابہ کے مقابلے میں ہماری زندگیوں کا مقصد صرف دنیا ہے۔
کیا ہم وہ عراق کا زخمی بچہ بھی بھول گئے ہیں جو امریکہ کی بمباری سے دونوں بازوئوں اور ٹانگوں سے محروم ہو گیا تھا؟ کیا ہم عراق کی ابو غریب جیل میں بند نور فاطمہ کو بھول گئے ؟جس نے امت مسلمہ کے نوجوانوں کو خط لکھا کہ امریکی درندے دن رات ہماری عزتیں نوچتے ہیں اگر تم ہماری مدد کیلئے نہیں آسکتے تو ہمیں زہر ہی دے دو تاکہ ہماری عزتیں تو بچ سکیں۔ابھی تو ہم نے مشرقی پاکستان کا انتقام ہندو بنئے سے لینا ہے، ابھی تو ہم نے 1947ء کے بھارتی مظالم کا بدلہ بھی نہیں چکایا ، 90ہزار سے زائد کشمیری شہدا کے ساتھ ساتھ ہمیں اس کشمیری بہن کا بدلہ بھی لینا ہے جس کو بھارتی فوجیوں نے زیادتی اورقتل کر کے بانس کے ساتھ الٹا لٹکا دیا تھا۔ فلسطین کے غزہ میں پچھلے سال اسرائیلی بمباری سے شہید بچوں کو بھی کیا ہم بھول گئے ؟ گجرات کی روتی تڑپتی ماں کی فریاد کیا ہمارے کانوں تک نہیں پہنچی ؟ وہ مظلوم عافیہ صدیقی جانے کب سے ہماری راہ تک رہی ہے کشمیر ،فلسطین، برما، افغانستان ،شام ،عراق اور ساری دنیا کے مظلوم مسلمان مدد کیلئے پکار رہے ہیں۔
اگر ہم ان مظلوم مسلمانوں کی مدد نہیں کر سکتے، اگردل بہت کمزور ہے، تو کبھی اپنے مہنگے موبائل اور لیپ ٹاپ کو سائیڈ پر رکھ کر، رات کی کسی گھڑی میں اٹھ کر، اللہ کے سامنے ہاتھ اٹھا کر، آنسو بہا کر، ہمیں کبھی یہ دعا ہی کر دینی چاہئیے کہ اللہ تو ان مسلمانوں کی مدد کر جو بے سروسامانی کے عالم میں ان مظلوم بہنوں کی مدد کیلئے گھر بار چھوڑ کر نکل گئے ہیں ۔
تھے ان کے بیوی بچے بھی ، ماں باپ کے بہت پیارے تھے
نہیں دیکھا انہوں نے دنیا کو راہ وفا میں کٹ آئے
آج امت مسلمہ کے نوجوانوں کو صلاح الدین ایوبی ، محمد بن قاسم ، طارق بن زیاد اور امام ابن تیمیہ کا کردار بھی ادا کرنا ہے ، ان شاہیں نوجوانوں سے اللہ نے امت مسلمہ کی قیادت کا بہت بڑا کام لینا ہے ، آج کی نوجوان نسل کو چاہئے کہ وہ ایوبی کی یلغار بن کر قبلہ اول کو یہودیوں کے قبضے سے بھی آزاد کرائیں۔
نکل کے صحرا سے جس نے روماکی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
امت مسلمہ کے نوجوانوں کو اما م ابن تیمیہ کا کردار ادا کرتے ہوئے عالم بھی بننا ہے اورسپہ سالار بھی بننا ہے ، سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم بھی حاصل کرنا ہے ، تحریرو تقریر کا معاملہ ہوتو علامہ احسان الہی شہیداورآغا شورش کاشمیری جیسی خطابت ہو، آج کے نوجوان جابر سلطان کے سامنے اما م ابن حنبل بنیں۔نوجوان نسل کو ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ جیسا کردار بھی ادا کرنا ہے جو غیرمسلموں کی صفوں کے اندر جا کر ببانگ دہل دین کی دعوت پیش کرتے ہیں۔اللہ کی راہ میں گھر بار سب کچھ قربان ہو جائے پرواہ نہیں کرنی چاہئیے، حضر ت ابو سلمہ کی طرح بیوی ،بچے اور مکان چھین لیا جائے ، سب آذر اور فرعون کی طرح خون کے پیاسے بن جائیں ،دوست رشتہ دار دشمن بن جائیں ،قید کر دیا جائے سب کچھ ختم ہو جائے صرف ایمان بچ جائے تو کچھ غم نہیں کرنا چاہئیے کیونکہ سب کچھ بچ گیا ہے اگر اللہ راضی ہے دل میں اللہ کی محبت ہے تو سب کچھ ہے ، صرف تب افسو س کرنا چاہئے کہ اگرہماری زندگی میںکوئی آسیہ اندرابی، نو رفاطمہ، عافیہ صدیقی جیسی بہنیں کافروں کے پنجے میں ہوں جسے ہم چھڑا نہ سکے کہ اللہ کو قیامت والے دن کیا حساب دیں گے۔ اور آخر میں مظلوم بہنوں کیلئے اگرصحابہ کی طرح جان بھی قربان کرنی پڑ جائے تو دریغ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ
جاں دی،جاں دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
تحریر: نعیم الاسلام چودھری
NaeemChaudhry@Hotmail.Com