تحریر : حبیب اللہ سلفی
کشمیر کی تاریخ میں 19جولائی 1947ء کا دن بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب ہندوستان انگریز کی غلامی سے نکل رہا تھا’برصغیر میں بڑی سیاسی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں اور کلمہ طیبہ کی بنیاد پر چلنے والی تحریک کے پیش نظر پاکستان کی آزادی کا وقت قریب تھا ۔مسلم اکثریتی ریاستیں پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر رہی تھیں ۔ ایسی صورتحال میں کہ جب جموں کشمیر کی مکمل آبادی کا83فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل تھا ۔اس کے تمام دریائوں کا رخ پاکستان کی طرف اور جغرافیائی حالات بھی پاکستان کے ساتھ ملتے تھے ‘ مسلمانوں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ ریاست جموں کشمیرکا الحاق پاکستان کے ساتھ ہونا چاہیے۔یوں مسلم کانفرنس جو کہ ایک نظریاتی جماعت تھی’ نے قائد اعظم اور علامہ اقبال کی سوچ و فکر پر عمل پیر اہوتے ہوئے 19جولائی 1947ء کو آبی گذرگاہ سری نگر میں اپنی مجلس عاملہ کا ایک اہم اجلا س بلایا جس میں یوم الحاق پاکستان کی قراردادمنظور کر تے ہوئے ڈوگرہ حکمران ہری سنگھ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فوج کے ذریعہ نہتے اور مظلوم مسلمانوں کا قتل عام بند کرے۔
جموں کشمیر کے عوام کی خودمختاری ، ان کے جذبات، احساسات اور خواہشات کا احترام کر کے ریاست کا الحاق پاکستان کے ساتھ کرے۔اگرچہ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں بھارت سرکار نے مہاراجہ ہری سنگھ اور شیخ عبداللہ کے ساتھ مل کر سازش کی ا ور فریب و مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جموں کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر لیا’ نہتے کشمیری مسلمانوں کے خون سے ہولی کھولی گئی اور جموں میں آبادی کے تناسب کو بدلنے کیلئے لاکھوںمسلمانوں کو بے دردی سے شہید کر کے ظلم و بربریت کی ایک نئی تاریخ رقم کی گئی لیکن کشمیری عوام کے دلوں میں اس تاریخی قرار دادکی بے پناہ قدروقیمت اب بھی موجود ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں بسنے والے کشمیر ی مسلمان 19جولائی کو یوم الحاق پاکستان کے طور پر مناتے ہیں۔اس دن تحریک آزادی میں اپنے خون کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ جلسوں، کانفرنسوں و ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے اورکشمیر کی آزادی،پاکستان کی سلامتی و خوشحالی کیلئے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں۔
ریاست جموں کشمیر کے مسلمانوںنے قیام پاکستان سے قبل ہی اپنے مستقبل کو وطن عزیز پاکستان کے ساتھ وابستہ کر دیا تھا تاہم بھارت سرکار نے69سال سے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور ان کی عزتیں،عصمتیں اور جان و مال سمیت کوئی چیز محفوظ نہیں ہے ۔ امسال کشمیری عوام یوم الحاق پاکستان منارہے ہیں کہ پورے جموں کشمیر میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں کمانڈر برہان مظفر وانی اور اس کے دو دیگر ساتھیوں کی بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت کے بعد سے نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم و ستم کی ایک نئی تاریخ رقم کی جارہی ہے۔60سے زائد نوجوان اب تک شہید ہو چکے اور تین ہزار سے زائد زخمی ہیںجن میں سے ساڑھے تین سو سے زائد کشمیریوں کی حالت انتہائی نازک بیان کی جاتی ہے۔ بھارتی فوج مظاہروں کی شدت روکنے کیلئے بین الاقوامی سطح پر ممنوعہ قرار دیے گئے انتہائی مہلک ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔
یہ بھی کہاجارہا ہے کہ پیلٹ گنیں جس کے چھرے لگنے سے نوجوانوں کی آنکھیں ضائع ہو رہی ہیں ان کے ساتھ کیمیائی ہتھیاربھی استعمال کئے جارہے ہیںجن کی وجہ سے کشمیری مختلف قسم کی جلدی اور دیگر بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ بھارتی فورسز کی جانب سے پرامن مظاہرین کے سینوں سے اوپر والے حصوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جس سے ان کے سر، چہرے اور آنکھیں بری طرح زخمی ہوئی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے اور بچیوں پر وحشیانہ انداز میں پیلٹ فائر کئے گئے جن کے زخموں سے چور چہرے اخبارات اور سوشل میڈیا پر دیکھ کر قلیجہ منہ کو آتا ہے۔ بھارتی فوج نے ہسپتالوں کو بھی ٹارچر سیلوں میں تبدیل کر رکھا ہے۔ ڈاکٹروں کو زخمیوں کے علاج سے روکا جارہا ہے اور ہسپتالوں سے زخمی نوجوانوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا جارہا ہے۔پوری حریت قیادت اس وقت گھروںمیں نظر بند یا جیلوںمیں قید ہے۔ پچھلے دس دن سے جاری بدترین کرفیو کے سبب کشمیر میں زبردست غذائی قلت کی صورتحال پیدا ہو چکی۔ لوگوں کوبچوں کیلئے دودھ کا بندوبست کرنا محال ہو چکا ہے لیکن اس سب کے باوجود ان کے حوصلے بلند ہیں اور ہر آنیو الے دن ان کی جدوجہد میں مزید تیزی آرہی ہے۔ سخت ترین کرفیو کے باوجود لاکھوں کشمیری سڑکوں پر نکل کر شہر شہر مظاہرے کررہے ہیں۔
زبردست ہڑتالیں کی جارہی اور کھلے عام پاکستانی پرچم لہرائے جارہے ہیں۔ اکیس سالہ برہان کی شہادت نے تحریک آزادی کشمیر میں ایک نئی روح پھونک دی ہے اور کشمیرکی سبھی سیاسی و مذہبی جماعتیں اور عوام جس طرح آج متحد نظر آتے ہیںاس سے پہلے کبھی ایسی صورتحال پیدا نہیں ہوئی یہی وجہ ہے کہ بھارت سرکار سخت بوکھلاہٹ کا شکار ہے اورہر روز اجلاس بلا کر صورتحال پر قابو پانے کیلئے مشورے کئے جارہے ہیں۔برہان کی نماز جنازہ میں تین لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔ کرفیو کی پابندیاں توڑ تے ہوئے لاکھوں افراد سڑکوں پر آئے تو بھارتی فوج نے اپنے تئیں مظاہروں پر قابو پانے کیلئے جنازہ کے شرکاء پر اندھا دھند گولیاں برسا دیں جس سے مزید کئی کشمیری شہید ہو گئے۔ ہندوستانی فو رسز کی اس درندگی پر پورے کشمیر میں آگ بھڑک اٹھی اور ہر گلی محلہ سے نوجوان سڑکوں پر نکل کر بھارتی فوج کیخلاف غم و غصہ کا اظہا رکرنے لگے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں احتجاج کچلنے کیلئے اسرائیلی طرز کی پالیسیاں اختیارکرتے ہوئے مہلک ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال کر رہی ہے۔
2010ء میں جب مظلوم کشمیریوںنے جموں کشمیر چھوڑ دو تحریک شروع کی تو بھارتی فوج اور سی آر پی ایف کو مہلک اور کیمیائی ہتھیاروں سے لیس کرتے ہوئے انہیں کروڑوں روپے مالیت کے دس ہزار سے زائد مرچی گرنیڈ فراہم کئے گئے ۔ اسی طرح اسرائیل کے تعاون سے فلسطین میں استعمال کئے جانے والے امریکی ساختہ مہلک ہتھیار بھی سیکیورٹی فورسز کو دیے گئے جن میں سب سے خطرناک پمپ ایکشن گن (پی اے جی) تھی جسے اگر نوے فٹ سے کم فاصلے سے فائر کیا جائے تو اس کی زد میں آنے والے شخص کی فوری جان جا سکتی ہے۔پی اے جی کے علاوہ پیپر بال لانچر(پی بی ایل) گنیں اور ٹیزر ایکس 26 پستول بھی تقسیم کئے گئے۔اس طرح یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ جب جموں کشمیر چھوڑ دو تحریک جاری تھی تو امریکی اسلحہ سازوں کے تیار کردہ خطرناک ہتھیاروں کی دو طیاروں پر مشتمل کھیپ سری نگر پہنچائی گئی جس کی تصدیق سرینگر کے حساس ترین شمالی زون( ڈائون ٹائون) کے پولیس سربراہ شوکت حسین شاہ نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بھی کی تھی۔
مقبوضہ کشمیر میں سکیورٹی فورسز میں تقسیم کئے گئے ہتھیار پی اے جی کی بناوٹ عام شکاری بندوق کی طرح ہے اس میں استعمال ہونے والے ہر کارتوس میں سخت ترین پلاسٹک کی تیس گوٹیاں ہوتی ہیں جو فائر کرنے پر نشانہ کے تقریبا بیس فٹ کے دائرے میں بکھر جاتی ہیں۔ یہ بندوق تین سو فٹ تک نشانہ باندھ سکتی ہے۔ محکمہ صحت سے متعلقہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی انسان کے جسم پر لگنے والی گولی کو آپریشن کے ذریعہ نکالا جا سکتا ہے مگر پی اے جی کے ریزے پورے جسم میں پھیل جاتے ہیں جس کے لئے درجنوں آپریشن کرنا پڑ سکتے ہیں اس لئے یہ ہتھیار انتہائی مہلک تصور کیا جاتا ہے۔ پی اے جی کی طرح پی بی ایل میں مرچ اور دوسرے اجزا سے بنی گوٹیاں استعمال ہوتی ہیں۔ یہ بندوق ان گوٹیوں کو گیس کی مدد سے پھوڑتی ہے جس سے گھنے دھوئیں کے بادل پیدا ہوتے ہیں اور ہجوم میں شامل لوگوں کا دم گھٹنے لگتا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کو فراہم کئے گئے تیسرے خطرناک ہتھیار ٹیزر ایکس 26پستول میں تانبے کی تار کے چھلے استعمال ہوتے ہیں۔ انگریزی کے حرف ڈبلیو کی بناوٹ کے یہ چھلے گولی کی رفتار سے چلتے ہیں گیس کے دبائو سے فائر ہونے والے ان چھلوں میں برقی رو پیدا ہوتی ہے جس کی زد میں آنے والے کو بجلی کا شدید جھٹکا لگتا ہے اور وہ بے ہوش ہو جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق 21فٹ سے کم فاصلے سے اگر اسے فائر کیا جائے تو ان چھلوں کے لگنے سے انسان کی موت واقع ہونے کے چانسز بہت زیادہ ہوتے ہیں۔باخبر حلقوں کے مطابق بھارتی فورسز جموں کشمیر چھوڑ دو تحریک کی طرح برہان وانی کی شہادت کے بعد مظاہروں کو کچلنے کیلئے بھی یہ تمام ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔پیپر گیس جیسی مہلک آنسو گیس کے استعمال سے سینہ کے امراض میں بہت زیادہ شدت پیدا ہوئی ہے اور عمر رسیدہ افراد کے پھیپھڑے کام کرنا چھوڑ رہے ہیں ۔
ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے چند برسوں میں اب تک پیلٹ گنوں کا شکار ہونے والے ہزاروں افراد بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ پیلٹ گولیاں اصل میں آہنی بال بیئرنگ جیسی ہوتی ہیں جنہیں ہائی ولاسٹی سے فائر کیا جاتا ہے۔ نزدیک سے فائر کرنے پر یہ ٹارگٹ کو چھلنی کر دیتی ہیں۔ چہرے پر ایک ساتھ 400گولیاں لگیں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی تباہی کس قدرمہلک ہوگی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بھارتی فوج مودی سرکار کی سرپرستی میںمہلک ہتھیار استعمال کرتے ہوئے کشمیریوں کی نئی نسل کو اپاہج بنا رہی ہے لیکن اقوام متحدہ اورسلامتی کونسل جیسے اداروںنے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ کشمیری عوام پاکستان کو اپنا اصل وکیل سمجھتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کامقدمہ دنیا کے سامنے صحیح انداز میں پیش اور ہندوستان کی ریاستی دہشت گردی کو عالمی سطح پر بے نقاب کرے گا۔ ماضی میں ہندوستان کی جارحانہ پالیسیوں کے مقابلہ میں موجود ہ حکومت کی طرف سے فدویانہ رویہ اختیا رکیا گیا اور کلبھوشن یادو جیسے راکے ایجنٹوں کی گرفتاری جیسے مسائل پربھی خاموشی اختیا رکی جاتی رہی جس کے بہت زیادہ نقصانات ہوئے اور کشمیریوں کا اعتمادمجروح ہوا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وقت کشمیرکے تازہ ترین حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف سمیت تمام سیاستدان و حکومتی ذمہ داران کشمیری و پاکستانی قوم کے جذبات کی صحیح معنوں میں ترجمانی کریں۔اگرچہ حکومت کی جانب سے کشمیریوں سے اظہاریکجہتی کرتے ہوئے 19جولائی کو یوم الحاق کشمیر اور 20جولائی کو یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن میں سمجھتاہوں کہ کشمیری پاکستان کو اپنا اصل وکیل سمجھتے ہیں ان کی طرف سے محض ایک دو بیانات اور رسمی احتجاج کافی نہیں ہے۔ ہندوستان سے ہر قسم کی سفارتی و تجارتی تعلقات ختم کرنے چاہئیں اوراسے واضح پیغام دینا چاہیے کہ وہ مقبوضہ کشمیر سے اپنی آٹھ لاکھ فوج نکالے اور کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دے وگرنہ اگر وہ ظلم و ستم سے باز نہیں آتا تو پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کو غاصب بھارتی فوج کے پنجہ استبداد سے نجات دلانے کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار ہے۔
کشمیریوں کی قربانیاں انتہا کو پہنچی ہوئی ہیں اس لئے ہمیں بھی ہر قسم کی مصلحت پسندی کو ترک کر دینا چاہیے اوردنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں کو متحرک کرکے ہندوستان کی ریاستی دہشت گردی کو بین الاقوامی سطح پر بے نقاب کرنا چاہیے۔ اسی طرح فی الفوراو آئی سی اور سلامتی کونسل کا اجلاس بلا کر بھی اس مسئلہ کو پوری قوت سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوںنے صدام حسین پر کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا الزام عائد کیا اور عراق پر حملہ کر لاکھوں انسانوں کے خون کی ندیاں بہا دی گئیں لیکن مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کی سرپرستی میں نہتے کشمیریوں کی نسل کشی کیلئے کیمیائی مواد استعمال کیا جارہا ہے مگر دنیا کے نام نہاد امن کے ٹھیکیداروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی اور کوئی دہشت گرد بھارت کا ہاتھ روکنے کیلئے تیا رنہیں ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ ذمہ داری پاکستان کی ہے کہ وہ سعودی عرب اور ترکی جیسے اسلامی ممالک سمیت چین کو ساتھ ملا کرکشمیریوں پر ظلم و ستم کے خاتمہ کیلئے مضبوط کردار ادا کرے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ ہماری کشمیر کمیٹی بھی ابھی تک متحرک نہیں ہو سکی۔
حریت قائدین اور سرگرم کشمیری لیڈروںنے خاص طورپراس پر بہت زیادہ ناراضگی کا اظہا رکیا اور سوال کیا ہے کہ آخر کشمیر کمیٹی کا مقصد کیا ہے؟ اور اگر اب بھی اس نے مظلوم کشمیریوں کیلئے کلمہ خیر نہیں کہنا اور ان کیلئے آواز بلند نہیں کرنی تو اس کا کروڑوں کا بجٹ آخر کس مقصد کیلئے ہے؟ یہ رویہ درست نہیں ہے اور مولانا فضل الرحمن کو ضرور اس پر غور کرنا چاہیے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے قومی سطح پر ابھی تک وہ جرأتمندانہ کردار ادا نہیں کیا گیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ پاکستان میں بھی وہی کیفیت اور ماحول نظر آتا جو کشمیر میں ہے لیکن صورتحال ایسی نہیں ہے۔ صرف چند ایک جماعتوں نے ملک گیر سطح پر پروگراموں کا انعقاد کیا اور برہان وانی و دیگر شہداء کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔جماعةالدعوة کے سربراہ پروفیسر حافظ محمد سعید نے ایک پریس کانفرنس کے دوران ملک گیر تحریک کے پہلے مرحلہ میں آج کے دن 19جولائی کویوم الحاق پاکستان کے موقع پر مسجد شہداء مال روڈ لاہور سے اسلام آباد تک کشمیر کارواں کا اعلان کیا گیا ہے جس میں ملک بھر کی سیاسی، مذہبی و کشمیری قیادت اور دیگر اہم شخصیات خطاب کریں گے۔
اس کارواں کا اختتام 20جولائی کو ہو گا جس کے اختتام پر ڈی چوک اسلام آبادمیں ایک بہت بڑے جلسہ عام کا انعقادکیا جائے گا۔ جس انداز میں تحریک آزادی جموں کشمیر کے زیر انتظام اس کشمیر کارواں کی تیاریاں و انتظامات کئے گئے ہیں اس صاف نظر آتا ہے کہ بلا شبہ اس کارواںمیں لاکھوں افراد شریک ہوں گے اور یہ دفاع پاکستان کے نیٹو سپلائی بحالی کیخلاف لانگ مارچ کی طرح ایک بہت بڑا پروگرام ہو گا جس سے یقینی طور پر کشمیری عوام کو حوصلہ ملے گا اور پوری دنیا پر یہ پیغام جائے گا کہ پاکستانی قوم کشمیریوں کے ساتھ ہے۔حافظ محمد سعید نے مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والی غذائی قلت کا مسئلہ بھی بھرپور انداز میں اٹھایا اور واضح طو رپر کہاہے کہ فلاح انسانیت فائونڈیشن کے تحت مظلوم کشمیریوں کو راشن، ادویات اور ڈاکٹرز کی ٹیمیں بھجوانے کی ہر ممکن کوششیں کی جائیں گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے اس کی جانب پوری قوم کو توجہ کرنی چاہیے اور فلاح انسانیت فائونڈیشن، جماعةالدعوة کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرنا چاہیے تاکہ کشمیریوں کے دکھ درد بانٹے جاسکیں۔
اگر بالفرض کشمیر میں ڈاکٹر ز بھجوانے کی اجازت نہیں ملتی تو بہرحال مظلوم بھائیوں کیلئے نقد رقوم کی صورت میں امداد پہنچانا جماعةالدعوة جیسی تنظیموں کیلئے کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔کشمیر کی تحریک اس وقت زبردست عوامی رخ اختیارکر چکی ہے۔بھارتی فورسز نے انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند کر رکھی ہے۔ پاکستانی چینلز کی نشریات بند کر دی گئی ہیں اور کئی علاقوں میں تو پانی و بجلی تک بند کر دیا گیا ہے اور کشمیریوں کو ہر طرح سے ہراساں اور خوف و ہراس میں مبتلا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں لیکن اس سب کے باوجود جو لوگ پہلے کبھی میدان میں نہیں نکلے تھے وہ بھی آج پتھر اٹھا کر بھارتی فورسز کا مقابلہ کر رہے ہیں اور کشمیر کے گلی کوچوںمیں کرفیوکی پابندیوں کو پائوں تلے روندتے ہوئے پاکستانی پرچم لہرائے جارہے ہیں۔ یہ صورتحال بہت زیادہ حوصلہ افزا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی سیاستدان آپس کی لڑائیاں اور فضول بحثیں ختم کر کے مسئلہ کشمیرکو ترجیح دیں۔ کشمیریوں کے حقوق کیلئے پوری دنیا پر آواز بلند کریں۔ پاکستان میں انڈین فلمیں اور ان کے چینلز فوری طور پر بند ہونے چاہئیں۔ اسی طرح کشمیریوں کے خون پر آلو پیاز کی تجارت کے سلسلے بھی ختم ہونے چاہئیں۔ ان چیزوں سے کشمیریوں کا اعتماد مجروح ہوتا ہے اور تحریک آزادی کو نقصان پہنچتا ہے۔ کشمیری قوم ہندوستان کی غلامی میں رہنے کیلئے تیار نہیں ہے۔
سیدہ آسیہ اندرابی کی دس منٹ کی وہ گفتگو سننے کے لائق ہیں جس میں انہوں نے سات منٹ تک رو رو کر کشمیرکی حالت زار بیان کی اور پاکستانیوں کو اپنی مدد کیلئے پکارا ہے۔ ان کی ایک ایک بات دلوں کو چیرنے والی ہے۔ آج کشمیر کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں پکا ر پکار کر کہہ رہی ہیں کہ آخر کب ان کی عزتیں و عصمتیں محفوظ ہوں گے اور کون بھارتی دہشت گردوں کو اس درندگی سے روکے گا۔ ہمیں ان کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ان کی ہر ممکن مدد کرنا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے امریکہ ، برطانیہ و یورپ کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے اور نہ ہی ان سے کسی قسم کی امیدیں وابستہ کرنی چاہئیں۔ یہ مسلمانوں کے خیر خواہ نہیں ہیں بلکہ یہی تو ان مسائل کو پیدا کرنے والے ہیں۔ ہمیں خود اپنے قدموں پر کھڑے ہونا اور دل و جان سے اپنا فرض ادا کر کے اللہ تعالیٰ کی مدد پر بھروسہ کرنا ہے۔ اسی سے ان شاء اللہ آسمانوں سے رحمتیں و برکتیں نازل ہوں گے اور کشمیر، فلسطین سمیت مسلمانوں کے دیگر مسائل حل ہوں گے۔
ٍٍٍٍتحریر : حبیب اللہ سلفی