تحریر: میر افسر امان، کالمسٹ
ضلع قصور کے گائوں حسین خان والا کا واقعہ بلکہ واقعات نے ہمارے بگڑے ہوئے معاشرے کو دنیا میں آشکار کر دیا ہے۔ ہمارے دشمن پہلے ہی ہمیں زبردستی دہشت گرد ثابت کرنے میں دن رات کی محنت کر رہے ہیں اب انہیں ہمارے بگڑے ہوئے معاشرے نے ایک اور موقعہ فراہم کر دیا ہے۔ عوام، جس میں گائوں کے ظالم زمیندار، پولیس، وکیل، سیاستدان اور حکمران شامل ہیں سب کے سب اسی معاشرے کے افراد ہیں کیا یہ سب لوگ اتنے بگڑ گئے ہیں کہ اتنا بڑا ظلم تسلسل سے ہوتا رہا اور ان میں سے کسی کا بھی پوشیدہ ضمیر نہیں جاگا کہ پہلے ہی قوم لوط فعل کے سر زد ہونے پر اس کو کچل دیا جاتا نہ اتنا ظلم بڑھتا اور نہ دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوتی۔ گائوں کی حویلی جس میں یہ گناہ سرے عام ہوتا رہا، ظاہر ہے وہ کسی گائوں کے زمیندار کی حویلی ہے لہٰذا جیسے گائوں کے زمیندار کاشکاروں پر عام طور پر ظلم ڈھاتے رہتے ہیںاور کوئی ان کوروکنے والا نہیں ہوتا اسی طرح اس ظلم سے بھی چشم پوشی کرتے رہے لہٰذا وہ بھی اس ظلم میں برابر کے شریک ہیں۔ کیا یہ زمیندار ہمارے معاشرے کے افراد نہیں؟ یقیناً ہیں۔
ایس ایچ او جس کے پاس ایک مظلوم خاتون ظلم کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے گئی تھی اس ظالم نے اس کی ایف آئی درج کرنے کے بجائے ، جو اُس کی قانونی آئینی زمہ داری تھی، پوری نہیں کی اور مظلوم خاتون کی ویڈیو بنائی اور ظالموں کو پیش کر دی۔ کہ لو یہ ہے وہ جو تمہارے ظلم کے خلاف شکایت درج کرانے آئی تھی۔پھر اُس عورت کو گھر جانے سے پہلے ہی راستے میں ظالموں نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ کیااس حرکت سے دوسرے مظلوموں کو تنبیی کرنی تھی کہ یاد رکھوں ظلم کے خلاف کسی نے بھی آواز بلند کی تو ان کا حشر بھی اس مظلوم خاتون جیسے ہو گا۔تو کیا یہ ایس ایچ او ہمارے معاشرے کا فرد نہیں ہے؟ یقیناً ہے۔ ایک اور بات اتنی مدت تک ایک چھوٹی سی بستی میںیہ ظلم روا لکھا گیا فعل قوم لوط کی ویڈیو بنا کر چلائی جاتی رہیں اور بقول مقامی نون لیگ کے ممبر صوبائی اسمبلی کہ اس کو ان واقعات کا پہلی دفعہ جون کے مہینے میں پتہ لگا تو کیا اس وقت کہ اس کے اندر کا ضمیر اتنا مردہ ہو گیا تھا کہ اِس ظلم کے خلاف انصاف مہیا کرنے میں اپنے گائوں کے مظلوموں کی مدد کو آگے نہیں آیا۔ کیا مظلوم اس کی مخالف پارٹی کے تھے یا غریب طبقے سے تھے جن پر تو ظلم ہوتا ہی رہتا ہے کوئی بھی ان کی مدد کو نہیں آتا۔
ٹی وی شو میں اینکر کے تیکھے سوالات کے سامنے موصوف بار بار کہہ رہے تھے کہ میں ان مظلوں کے ساتھ ہوں ظالموں کو قرار واقعی سزا دلوا کے رہوں گا۔ ٹی وی اینکر کہتے رہے کہ جناب آپ جون کے مہینے سے کہاں تھے جو اب معاملہ میڈیا کے سامنے آیا تو آپ بڑھ چڑھ کر باتیں کر رہے ہیں جب یہ مظلوم انصاف نہ ملنے پر سڑکوں پر آئے تب بھی آپ نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔پھر صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاج کیا تو ان مظلوموں کے خلاف مقدمات قائم کئے گئے۔ جو اب تک واپس نہیں لیے گئے پنجاب کے وزیر قانون کو جب ٹی وی والوں نے حالات پر تبصرے کے لیے بلایا تو موصوف نے کہا کہ یہ زمین کا جھگڑا ہے فعل قوم لوط کے کوئی بھی واقعات نہیں ہوئے۔ ٹی وی اینکر نے کہا جناب ہم خود گائوں حسین خان والا گئے ہیں۔ حویلی کا بذاتِ خود دورہ کیا ہے لوگوں کی زبان سے ظلم کی داستانیں سنی ہیں۔ مگر صوبائی وزیر قانون اسی بات پر ضد کرتے رہے اور ٹی وی اینکر سے الجھتے رہے اور زمین کا تنازہ بتاتے رہے۔
کہتے رہے آپ اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے خواہ مخواہ ان واقعات کو بڑھا چڑھا کر قوم کے سامنے پیش کر رہے ہو جبکہ ٢٤ مقدمات قائم ہو چکے ہیں اور ١٥ افراد گرفتار گئے جا چکے ہیں کچھ مفرور جن کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ اس موقعہ پر لوگ کہتے ہیںوزیر موصوف کاتویہ ٹریک ریکارڈ ہے کہ لاہورپولیس والوں نے منہاج القرآن والوں کے درجنوں کارکن شہید کردیے گئے مگر موصوف شہید ہونے والوں کو ہی قصور وار بتاتے رہے۔ آج تک انہیں انصاف نہیں ملا جو تحقیق کی گئی اُس کو چھپا لیا گیا اور سچ قوم کے سامنے نہیں آنے دیا نون لیگ کے شیر علی صاحب نے فیصل آبادمیںاُن پر ان شہیدوں کا الزام لگایا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا کہ اُن کے صاحبزادے عابد کو بھی وہ مروا دیں گے۔ جہاں تک ان واقعات کا تعلق ہے تو ٹی وی والوں نے وہاں جا کر خود حویلی کے اندر وہ کنواں دیکھا ہے جس میں سرکشی کرنے والے لڑکوں کو الٹا لٹکایا جاتا تھا۔وہ کمرہ دیکھا جس میں فعل قوم لوط ہوتا تھا اور ویڈیو فلمیں بنائی جاتی تھیں۔
ان مظلوموں کے بیانات رپورٹ کئے جن کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ ان والدین کے انٹرویو نشر کئے جن کے بچوں کے ساتھ اتنی مدت تک ظلم ہوتا رہا پورے گائوں میں گلی گلی پھر کر اور ٹی وی شو میں سارے لوگوں کوبھلا کر معلوم کیا کہ اگر گائوں کاکوئی ایک فرد بھی ان واقعات کو غلط سمجھتا ہے تو وہ سامنے آکر بیان دے سکتا ہے مگر سب نے یک زبان ہو کر اس ظلم کے ہونے کی تاہید کی۔ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ حسین خان والا گائوں میںمعاشرے کے تمام کے تمام لوگوں نے اتنی مدت تک چھپ سادھی رہی اور ظلم کیخلا ف آواز نہیں اُٹھائی۔کیا یہ معاشرے کے سب لوگ کسی عذاب کے منتظر تھے؟کیا ان کے گائوں کی اب بُری طرح جو مشہوری ہو رہی ہے اس کا ان کو پہلے سے ادراک نہیں تھا؟ اب وہ اللہ سے معافی مانگیں!اب معاملہ انصاف کے کٹہرے میں ہے۔ ٢٠ سے
زائدمتاثرین کے بیانات ریکارڈ کئے جا چکے ہیں۔ لیکن مظلوموں اور ان کے وکلا نے جی آئی ٹی پر عدم اطمینان کر دیا ہے۔ اس لیے عوام کی سپریم کورٹ کے معزز چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ وہ اس مشہور زمانہ کیس کااز خود نوٹس لیں اور جرم کی تفتیش کر واکے جس جس پر بھی جرم ثابت ہو تا ہے اسے قرار واقعی سزا دیں تا کہ آئندہ پاکستان کے معاشرے میں ایسے واقعات کا سد باب ہو سکے۔ اس سے قبل جاوید نامی شخص نے لاہور میں ١٠٠ بچوں کے ساتھ ایسی ہی ہرکت کی تھی اور انہیں قتل بھی کر دیا تھا۔
اُس سفاک مجرم کو اگر ١٠٠ لڑکوں کے قصاص کے بدلے لوگوں کے سامنے لاہور شہر کے لکشمی چوک میں اگر سولی پر چڑھا کر اگر سر قلم کیا جاتا تو مجرم لوگ عبرت پکڑتے اور شاید ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات روح پذیر نہ ہوتے۔ مگر نہ جانے ہمارے حکمرانوں کی مت ماری گئی اللہ تعالیٰ قرآن میں کہتا ہے کہ قصاص میں زندگی ہے مگر ہمارے حکمران یہود ونصارا کے انسانیت دشمن قوانین پر عمل کر کے اپنا اقتدار بچاتے رہتے ہیں۔ ہم علماء اور دینی جماعتوں کے لیڈروں سے بھی گذارش کرتے ہیں کی معاشرے کی اصلاح پر زیادہ دھیان دیں لوگوں کو آخرت کے عذاب سے ڈرائیں۔ جنت کے حصول کی کوشش میں گناہوں سے بچنے کی ترکیب دیں۔
حکومت سے بھی کہتے ہیں اشاعتِ فاحشہ پر کنٹرول کریں اور فحش واقعات کو ٹی وی پر ضرورت سے زیادہ نہ پیش کریں اس سے معاشرے کے زیادہ خراب ہونے کے امکان ہیں۔ ٹی وی پروگراموں میں خواتین ایسے عوام کے سامنے آتیں ہیں جیسے مغرب کے کسی فیشن شو میں پیش ہو رہی ہیں۔ یہ سب بگڑے ہوئے معاشرے کے شاخسانے ہیںہم مسلمان ہیں ہمارے اپنے معاشرتی اقدار ہیں ہمیں اُن پر عمل کرنا چاہیے۔کیا پاکستان کے عوام توقع کریں کہ ہماری خواتین ٹی وی پر پروقار طریقے سے آیا کریں گی اور کم از کم اسکارف تو پہنیں گی۔ اللہ ہماری خواتین کو مغرب کی نکالی سے محفوظ رکھے۔ ہمارے معاشرے کو بھی برائیوں سے محفوظ رکھے آمین۔
تحریر: میر افسر امان، کالمسٹ
کنوینر کالمسٹ کونسل آ ف پاکستان اسلام آباد(سی سی پی)