کسی بیماری کو ختم کرنے کے لیئے ضروری ہوتا ہے کہ پہلے اس کی صحیح تشخیص کر لی جائے وجہ معلوم ہو جائے تو علاج سہل ہو جاتا ہے۔ جب مجھ سے یہ کہا جاتا ہے کہ میں خواتین کے مسائل پہ لکھوں۔ تب میں سوچتی ہوں جب تک خواتین ہیں مسائل کیسے ختم ہو سکتے ہیں، حالانکہ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ ،آج کل خواتین اور معصوم بچیوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے گینگ ریپ اور ذیادتی کیس واقعی ایک شرمناک مسلہ ہے لیکن ہر مسلئے کے پیچھے ایک مسلئہ بھی ضرور ہوتا ہے۔ یہ اور بات کہ ازل سے یہ مسائل موجود ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ایک خاتون منہ اندھیرے مسجد میں نماز پڑھنے جا رہی تھی راستہ سنسان تھا اور ہر طرف تاریکی تھی ایک شخص نے خاتون کو اکیلا پایا تو شیطینیت نے اسے گھیرا۔اس نے خاتون کو بے
بس کر کے ہوس پوری کی اور بھاگ نکلا مظلوم خاتون نے چیخنا چلانا شروع کر دیا عورت نے اس شخص کا چہرہ نہیں دیکھا تھا اتفاقاً وہاں سے ایک آدمی گذر رہا تھا عورت نے بدحواسی میں اسے ہی اصل مجرم سمجھ لیا جمع ہونے والے لوگوں سے کہا اسی آدمی نے مجھے بے آبرو کیا ہے ۔لوگوں نے اس کو پکڑ لیا اور گرفتار کر کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے آئے۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاتون سے پھر دریافت کیا، کیا واقعی یہی اصل مجرم ہے ؟…….انہوں نے پھر یہی بات کی تو آپ ۖنے ضروری عدالتی کاروائی کے بعد فوراً اس آدمی کے لیئے سزا کا حکم سنا دیا ۔اس واقعے کی خبر آناً فاناً مدینہ میں پھیل گئی ۔دوسری طرف اصل مجرم کا حال ملاحظہ کیجیئے…….جب اسے خبر ملی کہ اس کے کیئے کی سزا ایک بے قصور کو مل رہی ہے تو اس کے ضمیر نے اسے ملامت کی یہاں تک کہ ضمیر کی خلش اسے بارگاہ رسالت میں لے آئی اس نے حضور ۖ کی خدمت میں حاضر ہو کر اقرار کیا کہ اصل مجرم میں ہی ہوں ۔حضور نبی کریم ۖ نے اس بے قصور شخص کے لیئے کلمات خیر ادا فرمائے اور اصل مجرم کے لیئے سزا سنا دی۔
ہمارے ملک کے قانون کے مطابق عدالت کا فیصلہ ایک سند کی حیثیت رکھتا ہے اور کسی کیس کی پیروی کے دوران ماضی میں اس سے ملتے جلتے کیس کو بطور ثبوت پیش کیا جائے تو اکثر محض یہ ثبوت ہی اس نئے کیس کی کامیابی کی ضمانت بن جاتا ہے یعنی قانون میں گذشتہ فیصلوں کا اتنا احترام موجود ہے کہ ان فیصلوں کو بطور سند پیش کیا جائے تو ان کے مطابق فیصلہ کر دیا جاتا ہے ۔جب ملکی قانون میں عدالتی فیصلے کو اتنا باعزت مقام حاصل ہے حالانکہ یہ قوانین عام انسانوں نے بنائے ہیں تو اللہ کے رسول کے فیصلوں کا کتنا بڑا اور مستند مقام ہونا چاہیئیے جن کی زبان سے نکلا ہر لفظ وحی ہوتا تھا دور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واقعے سے واضح ہوتا ہے کہ ایک خاتون کی حرمت کو پامال کرنے میں صرف اس خاتون کے بیان کو بنیادی اہمیت دی گئی خاتون کے حق میں فوری انصاف کے تحت فیصلہ ہوا اور جلد از جلد سزا پر عملدرامد کیا گیا۔
اسلام عورت کو وہ تمام حقوق دیتا ہے جن سے کسی معاشرے میں بہتری لائی جا سکتی ہے لیکن صد افسوس کہ مردوں نے وہ تمام حقوق صرف اپنے حق میں استعمال کے لیئے رکھ چھوڑے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ عورت گھر کے کام بھی کرے ان کے بچے بھی پالے بلکہ انکی کفالت بھی کرے ۔یہ ایک عجیب رحجان چل پڑا ہے کہ عورت اگر سودہ گھرانے سے ہے تو اپنے والدین سے لے کر شوہر کو پالے ورنہ جس طرح کمائے بس لے کے ضرور آئے ۔اور یہ رحجان نچلے طبقے میں بہت پایا جاتا ہے ۔میرا اپنا ذاتی تجربہ ہے کہ میرے گھر کام کرنے والی ایک جوان عورت جس کے تین بچے بھی تھے دو گھنٹے میں کام ختم کر کے چلی جاتی لیکن گھر وہ شام کو پہنچتی۔میں سمجھتی شائد کسی اور گھر میں بھی کام کرتی ہوگی۔ایک بار اس کے ساتھ کام کرنے والی عورت اس کا پوچھنے آئی تو میں نے کہا دو تین بار اس کا شوہر بھی پوچھنے آیا تھا یہاں سے تو وہ چلی جاتی ہے
پھر شام تک کہاں ہوتی ہے کسی اور گھر میں کام کرتی ہے کیا؟وہ بولی کام نہیں کرتی ۔اسٹیشن پر جاتی ہے وہاں اسے گاہک مل جاتا ہے کیا مطلب؟ اگر ایسی ہوتی تو میرے گھر جھاڑو برتن کیوں کرتی ؟ وہ بولی بی بی تم مہینے کے مہینے تنخواہ دیتی ہو وہ تو اس کے شوہر کا نشہ پانی ہو جاتا ہے ۔باقی گھر کے اخراجات کیسے پورے ہوں ایک بجلی کا بل ہی پورا نہیں پڑتا بچوں کی دوا دارو،دودھ کتنے خرچے ہیں ۔مہنگائی نے کیا حال کر دیا ہے اب یہ دھندہ نہ کریں تو کیا کریں،دنیا دکھاوے کو کسی گھر کا جھاڑو برتن بھی کرنا پڑتا ہے ورنہ محلے والے کرائے کے گھر سے جوتے مار کے نکال دیتے ہیں ۔تو شوہر کیا کرتا ہے؟ وہ ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کے ٹی وی دیکھتا ہے اور بچے سنبھالتا ہے
جب بیوی گھر پہنچتی ہے بچے اسے سونپ کر سیر سپاٹے اور جوا کھیلنے نکل جاتا ہے ۔ساری غریبوں کی بستی میں اب ایسے ہی گذارہ ہوتا ہے ۔آج ہی انجم نیاز نے اپنے کالم میں لکھا ہے ۔کرنال سے آگے دہلی کی طرف بڑھیں تو ایک چھوٹا سا گائوں آتا ہے جہاں ٹرک ڈرئیور قیام کرتے ہیں اس گائوں کا نام poonj pura ہے۔رفعت حسین آجکل بھارت کے دورے پر ہیں انہوں نے نوٹ کیا کہ اس گائوں کے مرد کوئی کام نہیں کرتے بس گھر میں بیٹھ کر بچوں کی دیکھ بھال کر لیتے ہیں ان کی عورتیں ہی کفالت کرتی ہیں کیسے ؟اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔
چنانچہ اس قصبے میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد خطرناک حد سے زیادہ ہو چکی ہے۔
غربت نے اس خطے کو دھرم، ایمان سے دور کر دیا ہے ۔لیکن ہم تو مسلم ہیں ہم سے حیا کا دامن کیوں چھُوٹا ؟اس لیئے کہ ہم نے دوسرے کا منہ لال دیکھ کر اپنا منہ تھپڑوں سے لال کر لیا ،میڈیا کے تھرو ملنے والی نت نئی ترغیبات نے ہم سے صبر و قناعت چھین لی ،رہی سہی کسر حکمرانوں نے نکال دی ہر شئے کو غریب کی پہنچ سے اتنا دور کر دیا کہ اب جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیئے غریب کو جسم بیچنا پڑتا ہے چاہے وہ خون کی صورت میں ہو ،گردوں کی صورت میں یا آبرو کی صورت ۔۔۔لاہور کے ایک صاحب کا کہنا ہے پاکستان جسم فروشی کے حوالے سے بھارت بنتا جا رہا ہے ۔جانے کہاں گئی وہ مائیں جو باوضو ہو کر اپنے بچوں کو دودھ پلایا کرتی تھیں کہاں گئے وہ باپ جو اپنے بچوں کے منہ میں حرام کا ایک نوالہ نہیں جانے دیتے تھے۔
افسوس ہم نے بھارت کی ہمعصری بھی کی تو کس معاملے میں ؟غربت تیزی سے روایات کو نگل رہی ہے ۔دولت صرف چند ہاتھوں میں ہے ۔جب مائیں بھی کمانے نکل پڑتی ہیں تو بچوں کی تربیت کون کرے؟نانیاں دادیاں متروک ہو چکیں،کسی کو معلوم نہیں ہوتا بچے کدھر ہیں کیا کر رہے ہیں ؟بس دھڑا دھڑ بچوں کی خواہشات پوری کرنے میں لگے ہیں ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی میں سب اندھے راستوں پر بھاگے جا رہے ہیں ۔نہ کوئی دعا کرنے والا رہا ہے نہ اب دعائیں قبول ہوتی ہیں ماتھوں پہ سجدوں کے نشاں ہیں پر نیتوں میں کھوٹ دل کالے ہو چکے ہیں ۔
غریب قرض پہ قرض لیتے جاتے ہیں پھر وہ قرض جان یا جسم دے کر اتارنا پڑتا ہے ،درجنوں گھروں میں میں نے قرض کے عوض گروی رکھی لڑکیاں اور عورتیں دیکھی ہیں ۔نہ کبھی قرض اترتا ہے نہ جان چھٹتی ہے یہ جو ابھی مسیحی میاں بیوی زندہ جلائے گئے ہیں یہ بھی تو قرض کا شاخسانہ تھا جس کو مذہبی انتہاپسندی کا رنگ دے کر دنیا بھر میں جگ ہنسائی کرائی گئی ۔
فیس بک پہ ایک پیج دیکھا یقین نہیں آتا تھا کہ انسان اتنا بھی گر سکتا ہے ،گھروں میں سوئی ہوئی عمر رسیدہ خواتین کی تصاویر جن بے چاریوں کو علم ہی نہیں ہوگا کہ وہ جگ میں تماشہ بن چکی ہیں ۔موبائل کیمروں سے کھینچی گئی یہ تصاویر آخر گھر کے ہی کسی فرد نے کھینچی ہونگی ۔اور یہ سب کام صرف پیسہ کمانے کے لیئے کیئے جا رہے ہیں ۔نوعمر لڑکوں کو آلہ کار بنایا جاتا ہے کہ وہ قسم قسم کی وڈیو بنا لائیں جن سے جتنی زیادہ سنسنی اور دہشت پھیلے اتنی اس کی مانگ ہوتی ہے ۔جہالت انہیں عقل سے شعور سے عاری کر دیتی ہے ،زیادتی کے واقعات کیوں نہ معمول بنیں اس میں نہ تفتیش ہوتی ہے نہ سخت سزا ۔زیادتی کے شکاری اور شکار حکومت سے ملنے والا پیسہ مل بانٹ کر کھاتے ہیں ،معمولی سزا کے بعد سودا برا نہیں ۔جب سے پیسے ملنے لگے ہیں عزت اور جان اور بھی سستی ہو گئی ہے یقین نہ ہو تو اعدادوشمار اٹھا کے دیکھ لیں ۔یہی وجہ ہے کہ جس کاروبار میں قانون کے رکھوالے بھی شامل ہو جائیں وہاں انصاف کیسے ملے ؟اور جہاں انصاف نہ ہو وہ معاشرہ قائم کیسے رہے ؟
کتنی ہی قومیں برباد کی گئیں ،انہی جرائم کے طفیل ،قوم لوط کا جرم کیا تھا ؟ عاد اور ثمود کی قومیں ،لیکن ہم تو ہر وہ جرم کر رہے ہیں جو ان سب قوموں کی بربادی کا سبب بنا ،پھر بھی اللہ سے جزا کے طلبگار ہیں۔غالباً 1834میں بھی ایسا ہی دور تھا کوئی تہذیب باقی نہیں رہی تھی کائو بوائے کلچر عروج پہ تھا بات بات پہ گولی مار دینا ،گالی کے بغیر بات نہ کرنا عدم تحفظ ، عدم برداشت کے ایسے ہی مظاہرے دیکھنے کو ملتے تھے ،بہت قتل و غارت کے بعد آخر ایک فوج کے ریٹائر میجر کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ جیسے چاہے لیکن اس معاشرے کو سدھارے ۔تب اس نے یورپ کو سدھارا جو آج مہذب معاشرے کہلاتے ہیں۔میں نے بہت عرصہ پہلے یہ پڑھا تھا تفصیلات مجھے یاد نہیں ،لیکن یہ کہیں نہ کہیں سے مل سکتی ہیں ۔ہمیں تو سدھرنے کے لیئے کسی غیر کی ضرورت نہیں ہمارے نبی ۖ کی تعلیمات اور اور قران مجید ہی ہمارے لیئے کافی ہے لیکن کوئی سدھرنا چاہے بھی تو……….!
تحریر:مسز جمشید خاکوانی