شری کٹاس راج مندر پاکستان میں ہندوُوں کے لئے سب سے متبرک مقام اور پورے ہندو دھرم میں ہردوار سے باہر جوالا مکھی واقع ہماچل پردیش کے بعد دوسرا متبرک ترین مقام ہے۔ یہ تاریخی مقام ضلع چکوال میں کلر کہار سے چواسیدن شاہ جانے والی سڑک پر کلر کہار موٹروے انٹر چینج سے صرف اٹھائیس کلومیٹر پر برلب سڑک واقع ہے۔
یہاں پر سات ہندو مندر تھے جن کی وجہ سے اسے ست گڑھ بھی کہا گیا۔ ان کے علاوہ اشوک کے دور کے ایک بدھ اسٹوپا کے آثار بھی یہاں موجود ہیں۔ چینی سیاح ہیونگ سانگ کے مطابق اس اسٹوپا کی بلندی دو سو فٹ کے قریب تھی۔
ان ہندو مندروں میں سے کچھ تو مہا بھارت کے زمانے کے ہیں۔ ہندو روایات کے مطابق جب پانڈوُوں کو کوروُں کے ہاتھوں شکست ہوئی تو انہوں نے اپنے بن باس (جلاوطنی) کے گیارہ سال یہاں گزارے اور یہاں سات مندر تعمیر کیے۔ ان سے منسوب ایک کنواں بھی یہاں موجود ہے۔ تاہم یہاں پر اب موجود زیادہ تر مندر کشمیری طرز پر ساتویں تا نویں صدی عیسوی میں تعمیر کیے گئے۔
یہاں موجود شیو مندر کچھ بہتر حالت میں موجود ہے۔ کچھ روایات کے مطابق یہاں رکھا گیا شیو لنگ اولین اور قدیم ترین ہاتھوں سے بنایا گیا شیو لنگ ہے جسے وشنو جی نے اپنے ہاتھوں سے یہاں ایستادہ کیا تھا۔
اس جگہ پر اب شیو مندر رام مندر اور ہنومان مندر کے علاوہ بھی کم از کم تین مندر ابھی تک کسی حد تک سالم حالت میں موجود ہیں۔
سکھ مذہب کے بانی گرو نانک جی نے یہاں کی یاترا کی کچھ عرصہ قیام پذیر بھی رہے. بعد میں مہاراجہ رنجیت سنگھ بیساکھی کے موقع پر متعدد بار یہاں آئے اور ان کے جرنیل ہری سنگھ نلوہ نے یہاں پر ایک قلعہ نما حویلی بھی تعمیر کروائی۔ اس لہاظ سے یہ جگہ بدھ مت، ہندو مت اور سکھوں کے لئے یکساں مقدس اور متبرک ہے۔
ست گڑھ کا نام کٹاس راج کیسے پڑا اس جگہ کی طرح یہ کہانی بھی بہت خوبصورت ہے۔ اس نام کی وجہ ان مندروں کے سامنے واقع نیلگوں شفاف پانی کا خوبصورت تالاب تھا۔ ہندو روایات کے مطابق جب بھگوان شیو جی کی بیوی ستی کی وفات ہوئی تو شیو اپنی محبوب بیوی کے غم میں اتنا روئے کہ ان کی آنکھوں سے آنسووُں کی لڑی جاری ہو گئی، جس سے دو تالاب بن گئے، ایک کٹکشا (سنسکرت میں اس کے معنی آنسوُوں کی لڑی ) اور دوسرا پشکر اجمیر شریف کے پاس بھارتی ریاست راجھستان میں۔ یہی لفظ کٹشکا بعد میں کثرت استعمال سے کٹاس بن گیا۔ اس تالاب کو کٹکشا ‘وسکنڈ(زہریلا چشمہ) چشمہ کنڈ اور امر کنڈ بھی کہا گیا۔ فارسی اور اردو میں کچھ لوگوں نے چشم الم بھی کہا۔ اب بھی یہاں سیاحوں کے لئے جو تعارفی بورڈ لگایا گیا ہے، اس پر امر کنڈ ہی لکھا گیا ہے۔ ہندو دھرم میں اس مقدس تالاب کے پانی سے نہانا گناہوں سے پاک ہونے کا ذریعہ مانا جاتا ہے۔
تقسیم سے پہلے یہ مقام ہندو یاتریوں سے آباد رہتا تھا۔ نوُراتری کے تہوار پر یہاں سارے ہندوستان سے ہزاروں یاتری آتے تھے۔ 1947 میں یہاں کی مقامی آبادی جو زیادہ تر قریبی قصبے چواء سیدن شاہ میں آباد تھی، ترک وطن کر کے بھارت چلی گئی لیکن کم تعداد میں یاتریوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ 1965 کی جنگ کے بعد بھارت سے آنے والے ہندو یاتریوں کی آمد پر پابندی عائد کردی گئی جو 1984 تک جاری رہی۔ اس دوران پاکستان سے اور زیادہ تر سندھ اور کراچی سے ہندو یاتری نوُراتری کے موقع پر یاترا پر آتے رہے۔ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کا مقدس تالاب گندگی سے اٹ گیا اور عمارتوں کی حالت بالکل مخدوش ہو گئی۔ 2005 میں اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ اور بعدازاں ڈپٹی وزیراعظم لال کرشن ایڈوانی نے یہاں کا دورہ کیا اور مندروں کی مخدوش صورتحال پر افسوس کا اظہار کیا تب جا کر 2006 میں مشرف عہد حکومت میں ان مندروں کی بحالی اور تزئین وآرائش کا کام شروع ہوا۔ ان کوششوں سے یہ تاریخی عمارات عارضی طور پر منہدم ہونے سے بچ گئیں۔
سال 2006 میں بھارت سے تین سو کے قریب ہندو یاتری نوُراتری کے تہوار پر یہاں آئے۔ قریب تھا کہ یہ سلسلہ سالانہ تہوار کی شکل اختیار کرتا کہ 2008 میں ممبئی حملوں کے بعد بھارت سے یاتریوں کی آمد کا یہ سلسلہ بھی موقوف ہوا جبکہ دوہزار کے قریب مقامی پاکستانی ہندو بھی شریک ہوئے جو بعد میں بھی آتے رہے۔ اب جا کر یہ پتا چلا کہ مندروں میں پوجا کے لئے مورتیاں ہی موجود نہیں تو اس وقت کے محکمہ اوقاف کے افسروں نے حکومت کے سامنے مورتیوں کی خریداری کے لِے پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ روپے کی لاگت کا ایک منصوبہ رکھا۔ اس کے تحت آثار قدیمہ کے ماہرین کو ہندوستان سری لنکا اورنیپال کے دورے بھی کروائے گئے تاکہ ہر ایک مندر کی ضرورت کے مطابق مورتیاں خریدی جائیں۔ خدا جانے مورتیاں کبھی خریدی گئیں یا نہیں۔ اب جا کر سپریم کورٹ میں یہ عقدہ کھلا کہ اس وقت کے آثارقدیمہ کے محکمے کے سربراہ یہ سارا پیسہ کھا کر بیرون ملک فرار ہو گئے تھے۔
اس دوران علاقے میں اندھا دھند سیمنٹ فیکٹریوں کے قیام اور یوکلپٹس کے پودے کی کثرت سے کاشت کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح کم ہوتی گئی اور مقدس تالاب سوکھنا شروع ہو گیا۔ 2012 میں ایک سیمنٹ فیکٹری کو عارضی طور پر بند کیا گیا مگر تین سال بعد دوبارہ کھول دیا گیا۔ اب دوبارہ ان مندروں اور تالاب کی حالت زار کے بارے میں کیس سپریم کورٹ میں ہے۔
2012 میں بھارتی ریاست بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار یہاں آئے اور ایک پودا بھی لگایا۔ یہاں لگے ہوئے ایک بورڈ کے مطابق سال 2017 میں حکومت پنجاب نے گیارہ کروڑ نوے لاکھ روپے کی رقم سے یہاں ترقیاتی کام مکمل کئے۔ ہمیں تو یہاں پر اس طرح کا کوئی ترقیاتی کام بظاہر نظر نہی آیا۔ شائد حسب دستور ان مندروں کی بحالی کے نام پر یہ پیسا بھی ہڑپ کر لیا گیا ہو۔
اب ان مندروں کو کھنڈر کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ یہاں آکر دل دکھ سے بھر گیا۔ اتنے عظیم الشان تاریخی ورثے کا ہم نے یہ حال کر دیا۔ یہاں موجود ذیادہ تر عمارتیں منہدم ہونے کے قریب ہیں۔ دیواروں میں دراڑیں بہت کثرت سے ہیں۔ کمروں کے فرش ٹوٹے پھوٹے اور شکستہ ہیں۔ اندر داخل ہوئے تو اس کثرت سے دیواروں پر لکھائی کی گئی ہے کہ لگتا ہے یہاں آنے والے ہمارے بھائی اس طرح کی حرکتیں کرنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ اندر موجود ہندو دیوی دیوتاوُں کی شبیہیں جگہ جگہ سے کھرچنے اور مٹانے کی کوششیں بھی کی گئی ہیں۔ اندر بھی پلستر اکھڑا ہوا نظر آیا۔ گھور اندھیرے کمرے اور مورتیوں کی خالی جگہ آپ کا منہ چڑاتی ہے۔
امر کنڈ اب سوکھ چکا۔ جو نیلگوں پانی تصاویر میں دیکھ کر آئے تھے اس کی جگہ سوکھی مٹی اور تھوڑا سا کیچڑ موجود ہے۔ شائد شیو کے آنسو اب تھم گئے ہوں۔ تالاب کی حفاظت کے لئے کبھی لگایا گیا گیٹ اب غائب ہوچکا۔ احاطے کی حفاظت کے لئے لگایا گیا جنگلہ جگہ جگہ سے ٹوٹ چکا ہے۔ مندر کے احاطے میں مقامی لوگوں کے مویشی چر رہے تھے۔ جابجا ان کا سوکھا ہوا گوبر سگریٹ اور نمکو کے خالی پیکٹ اور اڑتے ہوئے شاپر بیگ نظر آتے ہیں۔ کبھی کسی دور میں زائرین کے لئے بنائے گئے ٹوائلٹ اب مکمل طور پر غیر فعال اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔
مندر میں کام کرنے والے نگرانوں سے پوچھا یہاں دیکھ بھال کے لئےکوئی ہندو یا پنڈت بھی ہے؟ جواب ملا، جی ہاں، یہاں ایک پنڈت ہیں۔ پوچھا، کہاں ہیں؟ تو جواب میں وہ صاحب اوپر آسمان کو تکنے لگے انہوں نے ہمارے سر پر بندھا رومال دیکھ کر پوچھا آپ یاتری ہیں؟ ہم نے کہا، نہیں، ادھر کے ہی ہیں۔ اول تو یہاں کوئی پنڈت یا پروہت صاحب ہیں ہی نہیں۔ اگر ہیں بھی تو سرکاری کاغذات میں ہونگے اور کیونکہ ان کی حفاظت کا یہاں کوئی بندوبست بھی نظر نہی آیا تو گمان غالب ہے کہ اہل ایمان کے ڈر سے کہیں منہ سر لپیٹ کر کسی کونے کھدرے میں پڑے ہونگے۔
دنیا بھر میں مذہبی سیاحت نہ صرف ایک منافع بخش کاروبار ہے بلکہ کسی بھی ملک کا اچھا اور مثبت تاُثر بھی اجاگر ہوتا ہے۔ اگر دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کی اچھے طریقے سے دیکھ بھال کی گئی ہو تو وہ لوگ آپ کے شکر گزار بھی ہوتے ہیں۔ سکھوں کے مذہبی مقامات اور وہاں آنے والے زائرین اس کی ایک مثال ہیں۔ ہندو مت کے ماننے والے تو دنیا بھر میں بہت ذیادہ تعداد میں ہیں۔ صرف تھوڑی سی توجہ سے ٹلہ جوگیاں، کافر کوٹ اور کٹاس راج جیسے مقامات کی مناسب دیکھ بھال سے اور زائرین کے لئے مناسب سفری حفاظتی اور رہائشی سہولیات کو بہتر کر کے ہزاروں بلکہ لاکھوں غیر ملکیوں کو یہاں آنے پر مائل کیا جا سکتا ہے۔
کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہاں پر ملک کے دوسرے حصوں سے آٹھ دس ہندو گھرانوں کو یہاں بسا دیا جاتا۔ ان کو مناسب رہائش اور سیکیورٹی دے دی جائے تاکہ اپنے مذہبی مقامات کی نہ صرف وہ خود دیکھ بھال کر سکیں بلکہ اپنے ہم مذہبوں کو خود ہی خوش آمدید کہہ سکیں۔ ورنہ اگر یہی لاپرواہی اور نظر انداز کرنے والا رویہ رہا تو ذیادہ دور نہیں کہ یہ عظیم الشان تاریخی ورثہ قصہ پارینہ بن جائے۔