گزشتہ تین چار سالوں سے ہمارا ملک مسلسل سیاسی بحران کا شکار ہے۔ اس کی وجہ ہمارے سیاسی قائدین کی غلط ترجیحات ہیں یا ان کی انفرادی و ذاتی کوتاہیاں، یہ تو معلوم نہیں مگر ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اس ساری کشمکش میں ملک کا قومی مفاد بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ کیونکہ بدقسمتی سے ہماری حکومت اپنی پوری مدت کے دوران سنبھل نہیں پائی اور ان چار سالوں میں انہیں اپنی حکومت اور کرسی بچانے کی ہی فکر لاحق رہی۔ کبھی دھاندلی کا شور تھا تو کبھی پانامہ کا، کبھی بے معنی اور غیر ضروری آئینی ترامیم کا مسئلہ، کبھی جلسے، جلوس اور احتجاج کا شور۔
یہاں یہ بات نہایت قابل ذکر ہے کہ ان میں سے زیادہ تر مسائل حکومت نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار کر پیدا کیے تھے۔ ہمیں اس جمہوری دور میں کہیں بھی کسی بھی ایوانِ اقتدار میں ملکی بہتری اور عوام کی خوشحالی کے لئے مباحثے اور منصوبہ سازی تو درکنار،اس پر بات کرتا بھی کوئی دکھائی نہیں دیا۔ اور نہ ہی ملک میں موجود انسداد دہشت گردی کے سول اداروں کو فعال کرنے اور ان کی استعدادِ کار کو بڑھانے کی غرض سے کبھی بھی کوئی حکمت عملی ترتیب دینے کی کوشش کی گئی۔ بلکہ وہاں بھی دقیانوسی پرچی سسٹم اور سیاسی اقربہ پروری کی روش نے ان قومی اداروں کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا۔
علاوہ ازیں، نازک صورتحال سے نمٹنے کی حکومتی صلاحیتوں کی قلعی تو آئے روز کھل کر ہمارے سامنے آتی ہی رہتی ہے مگر یہ بات سب کے لئے باعثِ تشویش ہے کہ نجانے کیوں جب ہماری سول قیادت کو ہوش کے ناخن لینے کی اشد ضرورت ہوتی ہے تو وہ سلگتی چنگاری کو اپنے کسی نہ کسی ایسے اقدام سے اور ہوا دے دیتی ہےجس کے شعلوں کی لپیٹ میں آکر پورا ریاستی نظام جھلس جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ایسے مواقعوں پر بڑی بڑی بڑکیں مارنے والے ہمارے سیایسی قائدین کی وہ سیاسی بصیرت بھی غائب ہو جاتی ہے جن کا مظاہرہ وہ اپنا گیان بانٹنے کے لئے ہر رات مختلف ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں کرتے ہیں۔ سب کو اس بات کا ادراک ہے کہ ہم ابھی بھی حالتِ جنگ میں ہیں اور ہماری ملک کی فوج متعدد محاذوں پر پاکستان کو بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنے کے لئے محوِ جنگ ہے۔ اوروہ آج بھی اس ہولناک جنگ میں اپنے سپاہیوں اور ہم وطنوں کے جنازے اٹھا رہی ہے جس کی مثال کل پشاور میں زرعی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کے ہاسٹل میں ہونے والا دہشتگردوں کا حملہ ہے جس میں چھ افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔ پھر بھلا ایسی نازک صورتحال میں ہمارا ملک کسی اندرونی خلفشار کو فروغ دینے کی حماقت کا کیسے متحمل ہو سکتا ہے؟
حال ہی میں حکومت نے جس بری طرح اسلام آباد دھرنے کے نازک معاملے سے نمٹنے اور اپنے شہریوں کےخلاف طاقت کا استعمال کرنے کی ناکام کوشش کی اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اور جس کے نتیجے میں صرف چند گھنٹوں کے دوران پورا ملک بند ہو گیا اور تمام صوبوں کا ملک کے دالحکومت سے فضائی اور زمینی رابطہ منقطع ہو گیا۔ اور سونے پر سہاگہ حکومتی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے ملک بھر کے تمام چینلز اور سوشل میڈیا پر بھی قدغن لگا دی گئی۔ ایسی صورتحال تو لال مسجد آپریشن کے دوران بھی درپیش نہیں آئی تھی۔ تب بھی تمام چینلز لمحہ با لمحہ ملکی تاریخ کے اس نازک ترین ملٹری آپریشن کی کوریج کرتے رہے تھے۔ پھربھی ایک فوجی آمر کی حکومت نے کسی کو بند نہیں کیا تھا۔
بلاشبہ حکومت کے اس اقدام سے جہاں ملک میں غیر یقینی کی فضا کو تقویت ملی وہیں بین الاقوامی سطح پر پاکستان پر لوگوں کو ہنسنے کا موقع بھی خود پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا گیا۔ حکومت کو شاید ابھی تک اپنی اس حالیہ کوتاہی اور نالائقی کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے قومی بیانیے کو پہنچنے والی زک کا صحیح اندازہ نہیں ہے، جس کے اثرات تجزیہ نگاروں کے مطابق آئیندہ آنے والے چند روز میں وضع ہونا شروع ہونگے۔
ملک کو بدامنی اور فرقہ ورانہ انتہا پسندی کی طرف دھکیلنے کے بعد جب ہماری سول قیادت نے ہار مان لی تب اسی ادارے نے پاکستان کو اِس بحران سے نکالا جو سیلاب ہو یا زلزلہ، بھل صفائی ہو یا خشک سالی، الیکشن کا انعقاد ہو یا بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی بات، ملک سے مجرمانہ سرگرمیوں کے خاتمے کے لئے چھو ٹو گینگ کے خلاف آپریشن ہو یا کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی، غرض ہر مشکل، ہر آفت، ہر مصیبت، میں اپنے ہم وطنوں کی دادرسی کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔
اس بار بھی اس ادارے نے ملک کو خانہ جنگی کی جانب دھکیلنے والی ملک دشمن قوتوں کی سازش کو بر وقت بھانپتے ہوئے، معاملہ فہمی کا ثبوت دیا اور حکومت اور دھرنے والوں کے مابین صلح و صفائی کی راہ اختیار کرتے ہوئے معاملہ رفع دفع کرادیا۔ مگر اس تمام صورتحال کے (پاکستان دشمن) ماسٹر مائنڈز کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی کیونکہ ان کے پاکستان میں فرقہ ورانہ بنیادوں پرانارکی کی فضاء پیدا کرنے کے خوابوں کی راہ میں ایک بار پھر پاک فوج حائل ہو گئی ۔ اس لئے دھرنا ختم ہونے کے فوراً بعد انہی قوتوں کی جانب سے پاک فوج کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ طول پکڑنا شروع ہو گیا۔ حتیٰ کہ ایک خاتون رکن قومی اسمبلی کی صاحبزادی کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری کی جانے والی ویڈیو میں پاک فوج کے خلاف نہایت نازیبا اورغیر شائستہ زبان استعمال کی گئی۔ علاوہ ازیں، فرقہ ورانہ انتہا پسندی کی لہر بھی سوشل میڈیا پرزور پکڑ گئی اور الیکڑانک میڈیا پر بھی مختلف لیڈران کی جانب سے مسلکی بیان بازی کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔
پاکستان میں جنم لینے والے اس حالیہ منظرنامے میں جو بات نہایت پریشان کن ہے وہ ہے ہمارے معاشرے میں تیزی سے فروغ پانے والا ‘فرقہ ورانہ’ ماحول۔ تاریخ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جب ہلاکو خان بغداد پر حملہ آور ہوا تو اس سے ایک رات پہلے بھی فرقہ ورانہ بنیادوں پر مسلمانوں کے مابین مناظروں کا سلسلہ جاری تھا۔ ہر کوئی دوسرے کو کافر قرار دینے پر تلا ہوا تھا۔ مگر جب صبح منگول بغداد میں داخل ہوئے تو انہوں نے ہر ایک کو بلا تفریق اور بے دریغ قتل کیا۔ انہوں نے شیعہ، دیوبندی، حنفی، اہل حدیث کسی کو نہیں بخشا۔ اُنہیں ہر کوئی صرف مسلمان نظر آیا۔ مگر تاریخ بھی سکھاتی ہے صرف ان کو جو سیکھنا چاہیں۔
اس لئے یہ وہ نازک معاملہ ہے جس سے دشمنانِ اسلام اور پاکستان اچھی طرح واقف ہیں کہ وہ اپنے مزموم مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے، اس فیکٹر(فرقہ واریت) کا استعمال کب،کیسے اور کن کن مواقعوں پر کر سکتے ہیں۔ اس حالیہ صورتحال میں بھی پاکستان کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر منقسم کر کے خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی سازش کی گئی۔ اس میں بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کے شبے کو ہرگز رد نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے دشمنوں کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کی بچھائی گئی بساط کو تو پاک فوج نے الٹ دیا ہے، اس لئے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے اب ہمارے دشمنان یقینی طور پر ‘فرقہ ورانہ انتہا پسندی’ کے ہتھیار کو ہمارے خلاف بروئے کار لا رہے ہیں۔
دنیا بھر میں ‘دہشت گردی’ کو اب جنگ کی ایک بنیادی حکمت عملی کے طور پر شناخت مل چکی ہے جس میں روائتی جنگ کی نسبت اس قسم کے حربوں سے اپنے مقاصد کا حصول یقینی بنایا جاتا ہے لہٰذا یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اس کے تداراک کے لئے ضروری ہے کہ ہم معاشرے میں برداشت، رواداری اور مسالکی احترام کو فروغ دیں۔ اور حکومتی وزراء مسلکی اور فرقہ ورانہ بیان بازی سے حتی الامکان گریز کریں جو کہ اس وقت جلتی پر تیل ڈالنے کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ نیکٹا کو بھی فی الفور حرکت میں آنا ہو گا اور اسے ترجیح بنیادوں پرسوشل میڈیا پر فرقہ ورانہ انتہا پسندی کی ترویج کرنے والی قوتوں کی نشاندہی کر کے انہیں قانون کی گرفت میں لانا پڑے گا۔ نیز تمام مکاتبِ فکر کے علماء و مشائخ کے علاوہ میڈیا کو بھی اعتماد میں لینا چاہئیے تاکہ وہ اس کڑے وقت میں مذہبی روادای کے فروغ اور مختلف مسالکِ دین کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کے حوالے سے اپنا اپنا کردار ادا کر کے ریاست کا ساتھ دے سکیں۔