لاہور (ویب ڈیسک) ہم سب بزدار صاحب کی طرف متوجہ تھے کہ وہ اب کیا کہانی سناتے ہیں کہ انہیں کیسے، کس نے اور کیوں وزیر اعلیٰ بنایا تھا؟ وہ کون سی خوبی تھی جو عمران خان صاحب کو ان میں نظر آ گئی‘ لیکن ابھی تک پوری قوم وہ دیکھنے سے قاصر تھی؟
نامور کالم نگار رؤف کلاسرا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔حامد میر، مہر بخاری، فریحہ ادریس، صابر شاکر، ضمیر حیدر، خاور گھمن، سمیع ابراہیم اور دیگر سب وزیر اعلیٰ کی طرف دیکھ رہے تھے اور کمرے میں پِن ڈراپ خاموشی تھی۔ وزیر اعلیٰ کے مشیر شہباز گل کے چہرے پر بہرحال مسکراہٹ تھی جیسے وہ سب جانتے ہوں۔ عثمان بزدار بولے کہ انہوں نے واقعی کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا وہ وزیر اعلیٰ بن جائیں گے۔ وہ تو پہلی دفعہ الیکشن جیت کر اسمبلی پہنچے تھے‘ اور انہیں یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ لاہور میں واقع اسمبلی پہنچ کر انہوں نے کہاں جانا ہے۔ حلف اٹھانے کے لیے وہ اسمبلی پہنچے تو ہال میں جانے کی بجائے کسی اور طرف جا نکلے۔ وہاں سے اسمبلی ہال کی تلاش شروع کی کسی اور جگہ جا نکلے۔ آخر فون نکال کر اپنے ایم پی اے دوست کو فون کیا: یار یہ تو بتائو اسمبلی کا ہال کدھر ہے۔ دوست نے بتایا: اسمبلی ہال اوپر ہے۔ جب وہ اسمبلی ہال پہنچے اور وہاں شور شرابا دیکھا تو وہ پریشان ہوئے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ بزدار نے اپنے ساتھی ایم پی ایز سے پوچھا: یار وزیر اعلیٰ کون ہو گا؟ وہ ایک دوسرے سے یہ سب کچھ پوچھتے رہے لیکن کسی کو علم نہ تھا کہ وزیر اعلیٰ کون ہو گا۔
بزدار اسمبلی ہال سے نکلے تو فون پر مس کالیں آئی ہوئی تھیں۔ بات ہوئی تو انہیں کہا گیا: آپ اسلام آباد آ جائیں۔ بزدار نے کالر کو جواب دیا کہ وہ کیسے آ جائیں؟ انہوں نے سپیکر کا ووٹ ڈالنا ہے اور پھر وزیر اعلیٰ کا انتخاب بھی ہونا ہے۔بزدار صاحب کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ کالر نے انہیں یہ نہیں بتایا تھا کہ عمران خان ان سے ملنا چاہتے ہیں‘ اس لیے وہ بضد رہے وہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا ووٹ ڈال کر ہی اسلام آباد آ سکتے ہیں۔ بزدار کو بتایا گیا: اہم اور حساس معاملہ ہے لہٰذا فوراً اسلام آباد تشریف لائیں۔ خیر ووٹ ڈالنے کے بعد اگلے دن وہ روانہ ہو گئے۔ اسلام آباد پہنچے تو گاڑی شہر میں رکنے کی بجائے مری کی طرف جا رہی تھی۔ انہوں نے اس نامعلوم ساتھی سے پوچھا: ہم کدھر جا رہے ہیں۔ اس پر ان کے ساتھی نے انہیں بتایا کہ وہ بنی گالہ جا رہے ہیں۔ بزدار کے لیے یہ حیران کن بات تھی کہ وہ عمران خان سے ملنے جا رہے تھے۔ بنی گالہ پہنچے تو عمران خان نے خوش خبری سنائی کہ انہیں وزیر اعلیٰ بنایا جا رہا ہے۔ اس پر بزدار کے بقول انہوں نے عمران خان سے کہا کہ وہ پہلی دفعہ الیکشن جیت کر اسمبلی پہنچے ہیں‘ انہیں کوئی تجربہ بھی نہیں ہے‘
وزارت اعلیٰ تو بہت بڑی بات ہے۔ اس پر عمران خان نے حوصلہ بڑھایا اور کہا: مجھے علم ہے‘ تم اچھے وزیر اعلیٰ بنو گے۔ بزدار نے بنی گالہ سے باہر نکل کا پہلا فون اس ایم پی اے دوست کو کیا‘ جس سے راستہ پوچھ کر وہ اسمبلی ہال پہنچے تھے۔ اسے کہا: پتہ ہے وزیر اعلیٰ کون بن رہا ہے؟ اس نے وہی بات دہرائی کہ کوئی بن جائے ہم میں سے تو کسی نے نہیں بننا۔ اس پر بزدار نے اپنے اس دوست سے کہا: تو پھر سن لو میں ہی وزیر اعلیٰ پنجاب بن رہا ہوں۔ اس پر دوست نے قہقہہ مارا اور کہا: بزدار تم تو رہنے دو‘ اب اتنا بھی نہیں ہے تم وزیر اعلیٰ بن جائو۔ بزدار نے کہا: چلیں پھر کل دیکھ لینا۔بزدار نے اپنی کہانی ختم کی اور ہم سب کے چہروں کی طرف دیکھا‘ جہاں صاف لکھا ہوا تھا کہ کسی کو اس کہانی پر یقین نہیں آ رہا۔ لیکن احتراماً کسی نے ان کی کہانی کو جھٹلانے یا اس میں کیڑے نکالنے کی کوشش نہ کی۔ اچھا نہیں لگتا تھا‘ لہٰذا مروتاً سب چپ رہے‘ لیکن سب کو علم تھا کہ بات اتنی سادہ نہیں ہے‘ جتنی آسانی سے چند منٹوں میں بزدار نے ختم کر دی‘ اور فلمی کہانی کا ہیپی اینڈ بھی کر دیا تھا کہ ‘وہ پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے‘۔
اس کہانی میں بہت سارے جھول تھے۔ سب سے بڑا یہ کہ جس بندے نے بزدار کو کال کی تھی‘ کیا اس نے نہیں بتایا تھا کہ عمران خان ان سے ملنا چاہتے ہیں؟ اگر انہیں عمران خان کا بتایا گیا تو بھی انہوں نے اسلام آباد جانے سے انکار کیا؟ اسلام آباد پہنچنے تک بھی انہیں پتہ نہیں تھا کہ عمران خان صاحب سے ملنا ہے؟ تو وہ کون بندہ اتنا قابل اعتبار تھا جس کے فون کال پر بغیر پوچھ گچھ کیے وہ اسلام آباد روانہ ہو گئے اور بنی گالہ کے قریب پہنچ کر انہیں بتایا گیا کہ انہیں عمران خان سے ملاقات کرنی ہے؟ جب انہیں کہا گیا کہ بہت حساس اور اہم معاملہ ہے تو بھی انہوں نے کچھ سن گن لینے کی کوشش نہیں کی کہ ڈیرہ غازی خان کے دور دراز پہاڑوں میں رہنے والے ایک عام ایم پی اے سے کسی کو کیا خاص اور اہم بات کسی حساس معاملے پر کرنی تھی‘ لہٰذا وہ کچھ پوچھے بغیر گاڑی پر اسلام آباد کی طرف نکل پڑے؟ یقینا بزدار صاحب پوری بات نہیں بتا رہے تھے اور یہ ان کا حق بھی تھا کہ وہ ان لوگوں کے نام خفیہ رکھیں جو اس پورے سیاسی کھیل میں شامل تھے کہ
کس کی سفارش پر انہیں وزیر اعلیٰ بنایا گیا‘ خصوصاً جب انہوں نے عمر بھر سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ ایک دن بارہ کروڑ آبادی والے صوبے کے وزیر اعلیٰ بن جائیں گے۔ ہم سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تو یہ لگا کہ سب یہی سوچ رہے تھے۔ ایسا کسی فلمی کہانی میں تو ہو سکتا ہے لیکن حقیقی زندگی میں اتنے اتفاقات ایک ساتھ نہیں ہو سکتے جتنے بزدار صاحب نے ہمیں سنا دیے تھے۔ خیر ان سے اگلا سوال علیحدہ سرائیکی صوبہ پر ہوا تو وہ کہنے لگے: بہت جلد وہ ملتان جا کر بیٹھا کریں گے اور ڈیرہ بھی چکر لگائیں گے۔ اس حوالے سے تیاری ہو رہی ہے جو بہت جلد سامنے آئے گی۔ میں نے کہا: بزدار صاحب! ملتان میں آموں کے باغوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ اسی ملتان یونیورسٹی روڈ پر روز ٹرالیاں کٹے آموں کی لکڑیاں لے کر جا رہی ہیں جہاں آپ پڑھتے تھے، ملتان میں ہر طرف زرعی زمین تباہ ہو گئی ہے۔ ہر طرف ہائوسنگ سوسائٹیز نے بربادی کر دی ہے۔ لاہور سے اسلام آباد موٹر وے پر بھی اب ہزاروں ایکڑ زرعی زمین پر ہائوسنگ سوسائٹیز بن رہی ہیں۔ جی ٹی روڑ پر لاہور سے گوجرانوالہ تک دونوں اطراف آپ کو سریا سیمنٹ سے بنی دکانیں، سوسائٹیز نظر آتی ہیں، کھیت غائب ہو گئے ہیں، آپ کوئی اور کام کریں یا نہ کریں، فوری طور پر زرعی زمینوں پر ہائوسنگ سوسائٹیز پر پابندی لگائیں، کچھ عرصے بعد آپ کے پاس زراعت کے لیے زمین نہیں بچے گی۔
بزدار صاحب نے کہا: درست کہہ رہے ہیں لیکن آپ بتائیں اگر صوبہ بنتا ہے تو پھر زمین کہاں سے آئے گی‘ جہاں سیکرٹریٹ اور دیگر دفاتر اور بلڈنگیں بنیں گی؟ میں نے کہا: آپ واٹر لیول چیک کرا کے مظفر گڑھ سے شروع ہونے والے تھل میں سروے کرائیں اور سیکرٹریٹ شہر اور آباد زرعی زمینوں سے دور بنائیں یا پھر ملتان لودھراں کے درمیان جگہ تلاش کریں جو ابھی آباد نہ ہوئی ہو تاکہ زرعی زمین مزید برباد نہ ہو‘ نہ ہی آم کے باغ یا ہزاروں درخت کٹیں۔ اتنی دیر میں کچھ دوستوں نے بزدار صاحب سے سرائیکی علاقوں میں منصوبوں کے بارے میں پوچھنا شروع کیا تو ان کے مشیر شہباز گل مجھے دیکھ کر مسکرائے اور بولے: جناب مظفر گڑھ میانوالی روڈ کی تعمیر ہماری ترجیح ہے۔ شہباز گل کا مطلب تھا: آپ تسلی رکھیں کہ ایم ایم روڈ بنے گی۔ میرے بولنے سے پہلے ہی عثمان بزدار بولے: ایم ایم روڈ کی بہت بری حالت ہے۔ ہم تو اسے خونیں روڈ کہتے ہیں جہاں روزانہ انسان حادثوں میں مر رہے ہیں۔ مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ بزدار صاحب خود اس پر سفر کرتے رہے ہیں‘ لہٰذا انہیں علم ہے کہ اس روڈ کو خونیں روڈ کیوں کہتے ہیں۔ میں نے کہا: شکریہ‘ ورنہ تو میرا پوری قوم نے مذاق بنا لیا تھا کہ چار سو کلومیٹر سڑک کا ذکر عمران خان صاحب سے کیوں کیا تھا۔ کافی وقت گزر چکا تھا اور میں ایک سوال کرنا چاہتا تھا۔ آخر میں نے وہ سوال بزدار صاحب سے پوچھ ہی لیا۔ میرا سخت سوال سن کر ان کے چہرے کا رنگ بدلا۔ عثمان بزدار نے بے ساختہ میری طرف دیکھا۔ ہم سب انتظار کرنے لگے کہ وہ اس ترش اور مشکل سوال کے جواب میں کیا کہتے ہیں۔ بزدار صاحب ایک روایتی بلوچ کے غصہ کا اظہار کرتے ہیں یا پھر مناسب جواب دیتے ہیں؟