اسلام آباد(ویب ڈیسک )معروف صحافی مظہربرلاس اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ تین روز پہلے ایک معاشی ہچکولے نے پاکستانیوں کو بہت پریشان کیا، بیرون ملک پاکستانی بھی بہت پریشان تھے، مجھے واشنگٹن ڈی سی سے لبنیٰ چودھری ایڈووکیٹ نے انتہائی پریشانی کے عالم میں فون کیا کہ’’خان کیا کررہا ہے، اس نے ایسے شخص کو کیوں وزیر خزانہ بنادیا ہے جسے فنانس کا پتہ ہی نہیں،جس کی تعلیم میں اقتصادیات کبھی شامل ہی نہیں رہی‘‘۔ میں نے لبنیٰ چودھری ایڈووکیٹ کو بتایا کہمجھے موجودہ وزیر خزانہ کے بارے میں اسی دن احساس ہوگیا تھا جب الیکشن سے کئی روز قبل تحریک انصاف نے سو روزہ ایجنڈا پیش کیا تھا۔ اس تقریب میں ماہرین اور صحافیوں کے علاوہ دانشور بلائے گئے تھے، جب اقتصادی امور سے متعلق سوال ہوا تو اسد عمر اس کا جواب نہیں دے پائے تھے بلکہ وہ جواب عمران خان کو دینا پڑا تھا اور انہوں نے جواب درست دیا تھا۔ تحریک انصاف نے حکومت قائم ہونے پر اسی شخص کو وزیر خزانہ بنادیا جو چند ماہ پیشتر جواب نہیں دے سکا تھا۔ اب جب تحریک انصاف کی حکومت نے منی بجٹ پیش کیا تو پہلے نان فائلرز کو چھوٹ دی، جسے بہت سراہا گیا مگر پھر وزیر خزانہ اسد عمر، میاں شہباز شریف کی تقریر کے سحر کا شکار ہوگئے اور انہوں نے نان فائلرکو دی گئی چھوٹ واپس لے لی۔ کالے دھن کا کھیل ایسا ہے کہ یہ کھیل امریکہ، روس اور چین میں بھی ہوتا ہے مگر ان مافیاز کو کنٹرول کہیں اور سے کیا جاتا ہے، جس شہباز شریف کے کہنے پر نان فائلر کو دی گئی چھوٹ واپس لی گئی اسی شہباز شریف کو چند روز بعد نیب نے گرفتار کرلیا۔ بس یہیں سے مافیا کا کھیل شروع ہوا، انہوں نے اقتصادیات میں طوفان برپا کردیا، اسٹاک مارکیٹ کریش کرگئی، ڈالر کہیں اوپر چلا گیا، پرائیویٹ مارکیٹ میں ڈالر کا اوپر چلا جانا کوئی بات نہیں تھیاصل پریشانی یہ ہے کہ ڈالر سرکاری طور پر اوپر کیسے گیا، ایسا کیوں ہوا؟ اس سوال کا جواب حکومت کو وزیر خزانہ سے لینا چاہئے۔ ڈالر کا ریٹ جب انٹر بینک میں اوپر جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت کا اسٹیٹ بینک پر کنٹرول نہیں، حکومت کو چاہئے کہ وہ اسٹیٹ بینک میں بیٹھے ہوئے ان افراد کو بھی تلاش کرےجو معاشی مافیا کے کھیل کا حصہ بنے۔یہ بات درست ہے کہ پاکستانمقروض ملک ہے، یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ پاکستان اقتصادی مسائل سے دو چار ہے، مگر یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہےکہ پاکستان مقروض کیسے ہوا؟ پاکستان پر اس وقت 94ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ ہے، سولہ ارب ڈالر کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہے، ستائیس سو ارب روپے کا بجٹ خسارہ ہے، بارہ سو ارب روپیہ گردشی قرضہ ہے، سوئی گیس کا خسارہ 157ارب روپے کا ہے، اسٹیل مل کاخسارہ 187ارب روپے ہے، ریلوے کا خسارہ 37ارب روپے ہے، پی آئی اے کا خسارہ 360ارب روپے ہے، یوٹیلٹی اسٹورز چودہ ارب روپے کے خسارے میں ہیں جبکہ میٹرو کا خسارہ آٹھ ارب روپے ہے، اہم ترین سوال یہ ہے کہ یہ تمام قرضہ کس کے دور حکومت میں لیا گیا، یہ سارا خسارہ کن لوگوں کے ادوار میں ہوا، یہ سرکاری ادارے خسارے کا شکار کس عہد میں ہوئے،کون منی لانڈرنگ کرتا رہا، کون کون لوٹ مار میں شامل رہا، نفع دینے والے ادارے نقصان دینا کیسے شروع ہوئے؟ ان تمام امور پر بھی غور ہونا چاہئے۔دنیا کے کئی ملکوں میں اقتصادی صورتحال خراب ہوئی اور پھر سنبھل گئی، مثال کے طور پر ترکی ہی لے لیجئے، طیب اردوان کی آمد پر ترکی نوے ارب ڈالر کا مقروض تھا، ایک ڈالر حاصل کرنے کے لئے کئی لاکھ ترک لیرے دینا پڑتے تھے،مقروض ترکی کے پاس صرف پانچ ارب ڈالرز کے ریزروتھے،سرمایہ کار ترکی سے بھاگ رہے تھے، مہنگائی بہت تھی، آلو، پیاز کی قیمت ان کے وزن سے بھی زیادہ تھی مگر پھر درست معاشی پالیسیوں کے باعث ترکی سنبھل گیا، 2011میں ترکی نے آئی ایم ایف کی آخری قسط واپس کی، 2012میں ترکی کے پاس 26ارب ڈالر کے ریزرو تھے، ا ٓج ترکی کے پاس182ارب ڈالر کے ریزرو ہیں،آج ترکی کا شمار امیر ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔انڈیا نے اپنی معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے اقتصادی ماہرین سے کام لیا، منموہن سنگھ اور راگھورام راجن سے کون واقف نہیں، وزیر اعظم عمران خان کو بھی چاہئے کہ وہ اقتصادیات کے ماہرین سے کام لیں، اس سلسلے میں انہیں تجربہ کار اور نوجوان نسل کا امتزاج پیدا کرنا چاہئے۔ مثلاً وہ کراچی سے قیصر بنگالی اور لاہور سےسید عمار گیلانی کو اپنی ٹیم کا حصہ بناسکتے ہیں، یہ دونوں ماہرین ایسے ہیں جو اقتصادی امور پر دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ عوامی مسائل کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے سامنے یہی مسائل ہیں، لوٹ مار کا پیسہ واپس لانا، خراب معاشی صورتحال میں سے نکلنا اور اس بری اقتصادی صورتحال میں لوگوں کو مہنگائی سے بچا کر ان کی زندگیوں میں خوشیاں لانا۔ان مسائل کے حل کے لئے انہیں اصلاحات کی طرف جانا ہوگا، انہیں ملک میں فوری طور پر چار بڑی اصلاحات کی طرف جانا چاہئے۔ معاشی اصلاحات، تجارتی اصلاحات، صنعتی اصلاحات اور زرعی اصلاحات۔ دولت سے جڑے ہوئے یہی وہ چار شعبے ہیں جہاں کی بربادیوں نے اپنا پھیلائو دوسرے شعبوں تک بڑھایا ہے، اگر ہم یہ کر گئے تو پھر پاکستان جلد ہی ایک ترقی کرتا ہوا، مضبوط معیشت کا حامل ملک بن جائے گا