لاہور(ویب ڈیسک)عمران خان نے افتتاحی تقریر بہت اچھی کی۔ یہ پُرخلوص، دل سے نکلی آواز تھی جب انسان کاغذ یا پرچیوں سے تقریر کرے تو وہ دھوکہ دینے کی کوششں کرسکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی ٹیم میں چند اچھے لوگ ہیں جوپڑھے لکھے اور تجربہ کار بھی ہیں اور اُمید ہے کہ وہ اپنی تعلیم
نامور کالم نگار ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔اور تجربے کی بنیاد پر اچھی کارکردگی دکھائیں گے اور عوام کو مایوس نہیں کریں گے۔ ہم تو اچھی اُمید ہی کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم کی خدمت میں چند مشورےپیش کررہا ہوں۔ (1) میں نے ایک پچھلے کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ اس وقت ملکی ترجیحات وہ نہیں ہیں جن کے بارے میں بار بار کہا جارہا ہے۔ یہ بہت چھوٹی اور معمولی سی چیزیں ہیں۔ مثلاً ابھی اعلان کیا گیا کہ وزیر اعظم اور وزراء بزنس کلاس میں عام جہاز میں سفر کریں گے۔ غیرملکی دورے عموماً طویل الوقت ہوتے ہیں اس دوران وزیراعظم یا وزرا اپنے مشیروں،ساتھیوں سے بات چیت اور مشورے کرتے جاتے ہیں۔ بھٹو صاحب نے چھوٹا جہاز فالکن لیا تھا ،اس میں دس بارہ ساتھیوں کے ساتھ سفر کرتے تھے، ڈیڑھ سو، دو سو لوگوں کو ایئر بس اور سیون سیون سیون میں لیجانے کا رواج مرحوم جنرل ضیاالحق نے شروع کیا تھا اور پھر اس میں مزید عیاشی کرنے کا روج نواز شریف نے ڈالا۔ جن لوگوں کا ان معاملات سے قطعی تعلق نہ تھا وہ خوشامدی بھی شامل کرلئے جاتے تھے۔ پی پی پی والے بھی کچھ کم نہ تھے۔وزیر اعظم عمران خان صاحب کو یہ یاد رکھنا
چاہئے کہ اگر انھوں نے عام جہاز استعمال کیا تو عوام کی زندگی جہنم بن جائے گی۔ اس جہاز سے سفر کرنے والے ذلیل و خوار ہونگے۔ اور شاہوں سے بڑھ کر شاہوں کے وفادار سفر کرنے والوں کی زندگی اجیرن کردینگے۔ خود وزیر اعظم آرام سے اپنے مشیروں اور ساتھیوں کیساتھ بات چیت نہ کرسکیں گے۔ سرکاری کاغذات، سرکاری وخفیہ گفتگو نہ خفیہ رہے گی اور نہ ہی سنجیدگی سے ساتھیوں اور مشیروں سے بات چیت، تبادلہ خیال کا موقع ملے گا۔ کئی کئی گھنٹے پہلے جہاز کے دوسرے مسافروں کی جانچ پڑتال، آبائو اجداد کے حسب نسب معلوم کئے جائینگے۔ اگر جہاز کی روانگی میں تاخیر ہوگی، راستہ بند کردیا جائیگا۔ اس سے عوام میں مقبولیت نہیں بلکہ مخالفت بڑھے گی۔ اور جس مقصد یا نیت کیلئے یہ کام کیا جائے گا اس کا اُلٹا اثر پڑے گا۔ (2) کچھ اسی قسم کی کیفیت کہیں دوسری جگہ رہائش اختیار کرنے سے ہوگی۔ آپ وزیر اعظم ہائوس بند نہیں کرسکتے ورنہ اسکا ایئرکنڈیشنگ سسٹم خراب ہوجائیگا اور عمارت اور فرنیچر کو بہت نقصان پہنچے گا۔ اب لاتعداد سرکاری مہمان آتے رہیں گے اور وہاں ان کو لنچ یا ڈنر دیئے جائینگے۔ میں نے پچھلے کالم میں چین کی مثال دی تھی وہاں کے سرکاری مہمان
خانے قابل دید ہیں۔ (3) وزیر اعظم ہائوس، گورنر ہائوس، وزرا اعلیٰ کی رہائش گاہیں سرکاری املاک ہیں آپ عارضی طور پر قیام پذیر ہیں آپکو یہ اختیار نہیں کہ سرکاری عمارتوں کا ستیاناس کردیں۔ بعد میں دوسری حکومت آپکی گرفت کریگی، وزیر اعظم ہائوس ہو یا گورنر ہائوس ہوں ان کو آپ تعلیمی ادارے نہیں بنا سکتے۔ تعلیمی اداروں کی ضروریات دوسری ہوتی ہیں۔ 12,10کمروں کی عمارت صرف مڈل اسکول کے کام آسکتی ہے۔ ہاں کمشنروں اور پولیس افسران کی بہت بڑی عمارتیں ہیں آپ ان کی فالتو زمین بیچ کر بہت رقم حاصل کرسکتے ہیں اربوں روپیہ اس سے کمائے جاسکتے ہیں۔ ان لوگوں کیلئے 2 یا 3 کنال کے گھر کافی ہیں۔ آپ انکی لسٹ منگوا کر دیکھ لیں، ہزاروں کنال زمین استعمال ہوسکتی ہے۔ (4) اہم ضروری کام اسکولوں اور اسپتالوں کی بہتری اور دیکھ بھال ہے۔ اگر حکومت تمام کمشنروں (اور ان کے پچھلے عملہ کو) کو یہ سخت ہدایت یا احکام جاری کردے کہ تین ماہ کے اندر تمام اسکولوں کی چار دیواریاںمرمت اور باتھ روم مہیا کردیئے جائیں اور اسپتالوں کو بھی صاف ستھرا کردیا جائے، تمام آلات کام کرنے لگیں اور تمام گھوسٹ اسکول اور اسپتال ختم کردیئے جائیں تو عوام کو فوراً ریلیف ملے گا اور
ان کو حکومت کی کارکردگی نظر آئے گی۔ اور عوام کی حمایت حاصل ہوگی اور پاکیزگی و صفائی میں اضافہ ہوگا۔ (5) اس وقت ملک میں ایک اعلیٰ ٹیکنیکل یونیورسٹی کی اشد ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے مسلمان تعلیمی میدان میں پچھلے آٹھ سو سال سے پیچھے رہے ہیں ۔ یہاں اقربا پروری نے تعلیمی نظام کو تباہ کردیا ہے۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ ورلڈ رینکنگ میں ہماری کوئی یونیورسٹی 500 میں بھی نہیں ہے ۔ رشوت خوری اور بے ایمانی میں ہم سرفہرست ہیں۔ (6) ایک اور بہت اہم چیز سیلاب کے پانی کو صحیح طریقے سے ذخیرہ کرنا ہے اور دیہاتوں کو سیلابی ریلوں سے بچانا ہے۔ یہ کام نہایت ترجیحی بنیاد پر حل کرنیکی ضرورت ہے۔ میں نے نواز شریف حکومت کو اس کے حل کیلئے مشورہ دیا تھا عمل کرنا تو دور کی بات ہےانہیں خط کے جواب کی توفیق بھی نہیں ہوئی۔ خوشامد سے وقت ملتا تو ملکی اور قومی خدمت کے بارے میں سوچتے(نوٹ) پچھلے کالم میں حضرت عمرؓ کے بارے میں کچھ معروضات پیش کی تھیں جگہ کی کمی کی وجہ سے کچھ حصّہ رہ گیا تھا وہ حاضر خدمت ہے۔ (9) آپ نے دنیا میں پہلی بار دودھ پیتے بچوں، معذوروں، بیوائوں اور بے آسرئوں کے وظائف مقرر کئے، (10) آپ نے دنیا
میں پہلی بار حکمرانوں، سرکاری عہدیداروں اور والیوں کے اثاثے ڈکلیئر کرنے کا تصور دیا، (11) آپ نے بے انصافی کرنے والے ججوں کو سزا دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا، (12) آپ نے دنیا میں پہلی بار حکمراں کلاس کا احتساب شروع کیا، (13) آپ راتوں کو تجارتی قافلوں کی چوکیداری کرتے تھے۔ (14) آپ فرمایا کرتے تھے کہ جو حکمراں عدل کرتے ہیں، وہ راتوں کو بے خوف سوتے ہیں، (15) آپ کا فرمان تھا ’’قوم کا سردار قوم کا سچا خادم ہوتا ہے‘‘ (16) آپ کی مہر پر لکھا تھا ـ ’’عمر! نصیحت کے لئےموت ہی کافی ہے‘‘۔ (17) آپ کے دسترخوان پر کبھی دو سالن نہیں رکھے گئے، (18) آپ زمین پر سر کے نیچے اینٹ رکھ کر سو جاتے تھے، (19) آپ سفر کے دوران جہاں نیند آجاتی تھی، کسی درخت پر چادر تان کر سایہ کرتے تھے اور سو جاتے تھے۔ (20) آپ کے کرتے پر 14 پیوند تھے اور ان پیوندوں میں ایک سرخ چمڑے کا پیوند بھی تھا۔ آپ موٹا کھردرا کپڑا پہنتے تھے۔ آپ کو نرم اور باریک کپڑے سے نفرت تھی، (21) آپ کسی کو جب سرکاری عہدے پر فائز کرتے تھے تو اس کے اثاثوں کا تخمینہ لگوا کر اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور اگر سرکاری عہدے کے دوران اس کے اثاثوں میں اضافہ
ہوجاتا تو آپ اس کا احتساب کرتے تھے، (22) آپ جب کسی کو گورنر بناتے تو اسے نصیحت فرماتے تھے۔ کبھی ترکی گھوڑے پر نہ بیٹھنا، باریک کپڑے نہ پہننا، چھنا ہوا آٹا نہ کھانا اور کسی فریادی پر دروازہ بند نہ کرنا، (23) آپ فرماتے تھے ظالم کو معاف کردینا مظلوموں پر ظلم ہے۔ (24) آپ کا یہ فقرہ آج انسانی حقوق کے چارٹر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ’’مائیں بچوں کو آزاد پیدا کرتی ہیں، تم نے انہیں کب سے غلام بنالیا‘‘۔ (25) فرمایا میں اکثر سوچتا ہوں ’’عمر بدل کیسے گیا‘‘۔ (26) آپ اسلامی دنیا کے پہلے خلیفہ تھے جنہیں ’’امیر المومنین‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ (27) دنیا کے تمام مذاہب کی کوئی نہ کوئی خصوصیت ہے، اسلام کی سب سے بڑی خصوصیت عدل ہے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وہ شخصیت ہیں جو اس خصوصیت پر پورا اترتے ہیں۔ آپ کے عدل کی وجہ سے عدل دنیا میں عدل فاروقی ہوگیا۔آپ شہادت کے وقت مقروض تھے، چنانچہ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کا واحد مکان بیچ کر آپ کا قرض ادا کردیا گیا اور آپ دنیا کے واحد حکمراں تھے جو فرمایا کرتے تھے میرے دور میں اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مرگیا تو اس کی سزا عمر (حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ) کو بھگتنا
ہوگی۔میں دنیا بھر کے مورخین کو دعوت دیتا ہوں وہ الیگزینڈر کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھ کر دیکھیں انہیں الیگزینڈر حضرت عمر فاروق کے حضور پہاڑ کے سامنے کنکر دکھائی دے گا کیونکہ الیگزینڈر کی بنائی سلطنت اس کی وفات کے 5 سال بعد ختم ہوگئی جب کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں جس جس خطے میں اسلام کا جھنڈا بھجوایا وہاں سے آج بھی اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدائیں آتی ہیں، وہاں آج بھی لوگ اللہ کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔دنیا میں الیگزینڈر کا نام صرف کتابوں میں سمٹ کر رہ گیا ہے، جب کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بنائے نظام دنیا کے 245 ممالک میں آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ آج بھی جب کسی ڈاک خانے سے کوئی خط نکلتا ہے، پولیس کا کوئی سپاہی وردی پہنتا ہے، کوئی فوجی جوان 6 ماہ بعد چھٹی پر جاتا ہے یا پھر حکومت کسی بچے، معذور، بیوہ یا بے آسرا شخص کو وظیفہ دیتی ہے تو وہ معاشرہ، وہ سوسائٹی بے اختیار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو عظیم تسلیم کرتی ہے، وہ انہیں تاریخ کا سب سے بڑا سکندر مان لیتی ہے، ماسوائے ان مسلمانوں کے جو آج احساس کمتری کے شدید احساس میں کلمہ تک پڑھنے سے پہلے دائیں بائیں دیکھتے ہیں