لاہور;ڈاکٹر بابر اعوان کہتے ہیں کہ پاکستان میں نیا طرز زندگی لائیں گے، یہ بہت خوش آئند بات ہے۔ ڈاکٹر بابر اعوان منتخب سیاستدان نہیں ہیں۔ انہوں نے ٹکٹ کیلئے کوئی ضد اپنے لیڈر عمران خان سے نہیں کی ورنہ جو لوگ ممبر اسمبلی بنے ہیں انہوں نے کچھ بھی
نامور کالم نگار ڈاکٹر اجمل نیازی اپنے کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔نئی بات نہیں کی اور نیا پاکستان بنانے کی بات نہیں کی۔ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ ملک کیلئے کئی طریقے خدمت کرنے کے ہیں وہ منتخب لوگوں سے زیادہ سرگرم اور مخلص ہیں۔ وہ سیاسی دانشور ہیں، عمران خان اس معاملے میں بہت فائدہ بابر اعوان سے لے سکتے ہیں۔ ایسے لوگ ہر پارٹی میں ہونا چاہئیں، مگر ابھی تو صرف ڈاکٹر بابر اعوان ہی نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر بابر اعوان پیپلزپارٹی میں تھے تو بھی اسی طرح تھے۔ وہ بہت اہم سمجھے جاتے تھے۔میری گزارش بابر اعوان سے ہے کہ وہ اس شرمناک ظالمانہ اور بہت گندی صورتحال کی طرف عمران خان کی توجہ دلوائیں۔ ہر روز ٹی وی چینل پر اور ہر اخبار میں تین چار ایسی خبریں ہوتی ہیں۔ فلاں شہر میں کبھی کبھی تو چند ماہ کی بچی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی اور پھر اسے قتل کردیا گیا۔ یہ ناپاک دھندہ رکتا کیوں نہیں۔ کیوں اس پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ اس حوالے سے طویل عرصے تک حکومت کرنے والے نوازشریف نے کوئی اقدام سنجیدگی سے اٹھایا؟ صرف متاثرہ مظلوم خاندان کے پاس حکمران جاتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے مگر اس کے کچھ عرصے بعد ہی
ایسا ہی کوئی دوسرا واقعہ ہو جاتا ہے تو پھر حکمرانوں کا ان کی دلجوئی کرنے کا کیا فائدہ ہے۔ وہ بدنام الگ ہوتے ہیں۔ بری طرح ناکام تو وہ ہوتے ہی ہیں۔ دوسرے ملکوں میں بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں مگر ہمارے ملک میں یہ ایک صدمے کی صورت اختیار کرتے جاتے ہیں۔اب عمران خان بھی کچھ نہیں کرتے تو یہ سانحے عوام اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے تو کیا بنے گا؟۔کئی لوگوں نے اخبار پڑھنا اور ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ جائے وقوعہ پر حکمرانوں کا جانا اس عمل میں شدت کا باعث بن رہا ہے۔ اب سب کی نظریں عمران پر ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ کرے گا۔ پہلے سو دنوں میں عمران خان نے جو کچھ کرنا ہے بے شک کرے مگر ان کاموں میں سب سے بڑا کام یہ بھی ہو کہ انسانوں کے روپ میں درندوں کو اپنے انجام تک پہنچائیں۔خورشید شاہ جس طرح قائد حزب اختلاف رہے۔ اسی طرح سیاست کرتے ہیں۔ یہ لوگ سیاست قیادت کیلئے کرتے ہیں۔ انہوں نے کبھی پاکستان کی مظلوم لڑکیوں کیلئے کوئی بات کی، وہ سمجھ رہے ہیں کہ میرے جیسا کوئی قائد حزب اختلاف نہیں آیا۔حمزہ شہباز نے ایک جملہ کہا جو دل کی ترجمانی کرتا ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ہونے اور ہر کرسی سے آواز آئے گی کہ 25جولائی کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہونے دو، حمزہ شہباز مجھے صرف یہ بتائیں کہ اسمبلی میں جتنے لوگ بیٹھے ہیں اسی الیکشن میں جیت کے گئے تو کیا دھاندلی ان کیلئے بھی ہوئی تھی۔ خود حمزہ صاحب اور ان کے والد شہبازشریف اسی الیکشن میں کامیاب ہو کر آئے ہیں۔یاسمین راشد اسی الیکشن میں ہار گئیں، جیتنے والا وحید عالم کیا الیکشن میں دھاندلی سے جیتا ہے یہ بتایا جائے کہ دھاندلی کے اثرات مختلف اور عجیب و غریب کیوں ہیں۔ میں نے پہلے وحید عالم صاحب کا نام بھی نہیں سنا تھا وہ دھاندلی زدہ الیکشن کی تعریف کر دیں جس میں وہ ہم سے متعارف ہوئے ہیں۔ یہ ہماری ’’خوش قسمتی‘‘ ہے۔ بہرحال ہمیں یاسمین راشد کے ہارنے کا دکھ ہے۔ یہ دکھ بھی اسی دھاندلی زدہ الیکشن کی وجہ سے ہے؟ یہ صرف پاکستان میں ہوتا ہے، جس الیکشن میں جیت کے آئے ہوں اسے ہی برا بھلا کہتے ہیں۔ بیک وقت الیکشن کمشنرز مبارک کے مستحق ہیں اور الزامات کے مستحق بھی ہیں۔