لاہور (ویب ڈیسک )کالم کے عنوان سے آپ یہ نہ سوچیں کہ میں اپنی نئی حکومت کی کارکردگی کا پرانے روس کی کارکردگی سے موازنہ کررہا ہوں۔ بلکہ یہ دونوں بالکل مختلف کہانیاں ہیں۔ پہلے حصّہ میں چند (ناقابل قبول؟) مشورے حکومت کو اور دوسرے حصّہ میں 1970 کے روس میں مسلمانوں کی حالت زار۔
نامور کالم نگار ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔ یہ تفصیل مجھے کسی نے واٹس ایپ پر بھیجی ہے۔(1) وزیر اعظم عمران خان کو حکومت سنبھالے ابھی چند ہفتہ نہیں ہوئے کہ ان کے مخالفین نے ان کے خلاف بڑا پروپیگنڈہ شروع کردیا ہےاور ان کے رفقائے کار کے خلاف بھی سرگرم ہیں۔افسوس اس بات کا ہے کہ ن۔لیگ کے لیڈران جن کو عوام نےمستردکر دیا ہے وہ اَب بھی اپنی سابقہ ’’اعلیٰ‘‘ کارکردگی کے نعرے لگا رہے ہیں۔ ابھی نواز شریف کو گئے چند دن ہی ہوئے تھے اور شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم تھے کہ نواز شریف نے لوڈشیڈنگ کا ملبہ اپنے ہی وزیر اعظم پر ڈال دیا اور پھر عبوری حکومت پر تابڑ توڑ حملے کردیئے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سابقہ حکومت اور اس سے پچھلی حکومتوں سے بدترین، نااہل، ناکارہ، حکومتیں کبھی پاکستان میں نہیں آئیں۔عمران خان اپنی ٹیم بنارہے ہیں اور حسب روایت الیکشن میں کامیاب ہونے والوں کو ایڈجسٹ کررہے ہیں۔ نام نہاد جمہوریت کا یہ بڑا نقص ہے کہ آپ کے ہاتھ باندھ دیئے جاتے ہیں۔ اگر براہ راست صدارتی انتخاب ہو تو صدر اچھے، قابل تجربہ کار لوگ پورے ملک سے چن سکتا ہے۔ یورپ میں بھی وزراء خود اتنے تجربہ کار نہیں ہوتے وہ سیاسی ہوتے ہیں
مگر ان کی وزارت کی ٹیم ماہرین پر مبنی ہوتی ہے اور وہ کشتی کو کنارے تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر سیاسی مجبوری کی وجہ سے وزیر اعظم سیاسی لوگوں کو قلمدان دینے پر مجبور ہیں تو پھر وزارت میں چند تجربہ کار، تعلیم یافتہ لوگ ضرور لگادیں اور انہیں بھرپور اختیارات دیں۔وزیر اعظم نے دنیا دیکھی ہے اور لاتعداد ملکوں کے دورے کئے ہیں۔ شاید ان کی نظر وہاں کے پروجیکٹس پر پڑی ہو کہ حکومت ہر کام عوام دوست اور یُوزر فرینڈلی کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ اگرکہیں سڑک کی مرمت کا کام ہونے جارہا ہو تو پہلے صاف ستھرا بائی پاس بنا دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں سڑک کھودی جاتی ہے اور دو دو تین تین سال کھدی پڑی رہتی ہے اور عوام کی زندگی اجیرن کر دی جاتی ہے۔ یہی حال سڑکوں کے ٹھیکوں کا ہے۔ موبیلائزیشن کے نام پر پہلے ہی بڑی رقم دیدی جاتی ہے اور پھر صرف رولر چلا کر سٹرک کو تھوڑا صاف، سیدھا کردیاجاتا ہے اور پھر رقم وصول کی جاتی ہے۔ ابھی سڑک کی تعمیر کے خاتمے کا دُور کا بھی واسطہ نہیں کہ تقریباً 80 فیصد رقم ادا کردی جاتی ہے۔ دیکھئے اصول یہ ہونا چاہئے کہ ٹھیکے کے بعد فوراً سب سے پہلے پُل،کلوَرٹ وغیرہ بنائے جائیں
اور پھر سڑک پر کام ورنہ یہ سڑک برسوں مکمل نہیں ہوگی۔وزیر اعظم ، آپ اور آپ کے مشیر ایک ڈیم کے لئے 8 برس کا وقت دے رہے ہیں۔ ہم نے آپ کو 7 برس میں ایٹم بم بنا دیئے اس کی قدردانی نااہل حکمرانوں نے کبھی نہ کی۔ وزیر اعظم طویل منصوبےاپنی جگہ اور 2025 کی خشک سالی کا خوف اپنی جگہ، آپ فی الحال وہ کام کیجئے جن سے عوام کو فائدہ پہنچے۔ اسکولوں کی مرمت اور اچھے ٹیچر، ڈسٹرکٹ ہیلتھ یونٹس کی بہتری اور کارکردگی (ڈٖاکٹرز، دوائوں کی موجودگی) ضروری اور فوری کام ہیں۔ آپ سب ڈیمز کی بہت باتیں کررہے ہیں جس کے لئے آپ کو بہت بڑی رقم اور دس سال کا وقت درکار ہے، ہر سال دو مرتبہ بارش کا جس قدر پانی سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے وہ دس سال کی ضروریات پوری کرنے کو کافی ہے اس کو روکنا، دیہات کی حفاظت کرنا بے حد ضروری اور جلد قابل عمل پروجیکٹس ہیں۔ ملک میں کئی اعلیٰ واٹر ایکسپرٹس ہیں ان کی خدمات حاصل کیجئے۔ میں بھی آپ کی مدد کرسکتا ہوں۔ میں اعلیٰ انجینئر ہوں اور میرا طریقہ کار ہمیشہ جلد، کم قیمت اور عوام دوست ہوتا ہے۔ ایک اور اہم بات ۔آپ ان لوگوں کی باتوں میں نہ آئیں جو کہہ رہے ہیں کہ
تارکین وطن یا قومی لوگوں کی رقم باہر سے لا سکتے ہیں۔ کوئی بھی حکومت آپ کی غیرقانونی مدد نہ کریگی!(2) دوسرا واقعہ کمیونزم کے دور میں روس میں اسلام پر سخت پابندیوں کے بارے میں ہے۔ مجھے واٹس ایپ پر یہ معلومات موصول ہوئی ہیں اور یہ حقیقت پر مبنی ہیں۔ تقریباً 35,30 سال پہلے تک یہی حال چینی ترکستان میں تھا مساجد بند تھیں اور صرف جمعہ کو گھنٹہ، دو گھنٹہ کے لئے کھول دی جاتی تھیں۔ اب وہاں (اور روس میںبھی) سب کو مکمل مذہبی آزادی ہے۔روس میں کمیونزم کا طوطی بولتا تھابلکہ دنیا تو یہ کہہ رہی تھی کہ بس اب پورا ایشیا سرخ ہوجائیگا 1973 میں ہمارے ایک دوست ماسکو ٹریننگ کے لئے چلے گئے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جمعہ کے دن میں نے دوستوں سے کہا کہ چلو جمعہ ادا کرنے کی تیاری کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہاں مسجدوں کو گودام بنا دیا گیا ہے ایک دو مساجد کو سیاحوں کی قیام گاہ بنا دیا گیا ہے صرف دو ہی مساجد اس شہر میں بچی ہیں جو کبھی بند اور کبھی کھلی ہوتی ہیں۔ میں نے کہا آپ مجھے مساجد کا پتہ بتا دیں میں وہیں چلا جاتا ہوں جمعہ ادا کرنے۔ پتہ لیکر میں مسجد تک پہنچا تو مسجد بند تھی،
مسجد کے پڑوس میں ہی ایک بندے کے پاس مسجد کی چابی تھی۔ میں نے اس آدمی کو کہا کہ مسجد کا دروازہ کھول دو، مجھے نماز پڑھنی ہے۔ اس نے کہا دروازہ تو میں کھول دوں گا لیکن اگر آپ کو کوئی نقصان پہنچا تو میں ذمہ دار نہیں ہوں گا، میں نے کہا دیکھیں جناب میں پاکستان میں بھی مسلمان تھا اور روس کے ماسکو میں بھی مسلمان ہی ہوں، پاکستان کے کراچی میں بھی نماز ادا کرتا تھا اور روس کے ماسکو میں بھی نماز ادا کروں گا چاہے کچھ بھی ہوجائے۔ اس نے مسجد کا دروازہ کھولا تو اندر مسجد کا ماحول بہت خراب تھا میں نے جلدی جلدی صفائی کی اور مسجد کی حالت اچھی کرنے کی کوششیں کرنے لگا۔ کام سے فارغ ہونے کے بعد میں نے بلند آواز سے اذان دی۔اذان کی آواز سن کر بوڑھے بچے مرد ، عورت، جوان سب مسجد کے دروازے پہ جمع ہوگئے کہ یہ کون ہے جس نے موت کو آواز دی۔ لیکن مسجد کے اندر کوئی بھی نہیں آیا۔ خیر میں نے جمعہ تو ادا نہیں کیا کیونکہ اکیلا ہی تھا بس ظہر کی نماز ادا کی اور مسجد سے باہر آگیا۔ جب میں جانے لگا تو لوگ مجھے ایسے دیکھ رہے تھے
جیسے کہ میں نماز ادا کر کے باہر نہیں نکلا بلکہ دنیا کا کوئی نیا کام متعارف کروا کر مسجد سے نکلا ہوں۔ ایک بچہ میرے پاس آیا اور کہا کہ آپ ہمارے گھر چائے پینے آئیں۔ اسکے لہجے میں خلوص ایسا تھا کہ میں انکار نہ کرسکا۔ میں انکے ساتھ گیا تو گھر میں طرح طرح کے پکوان بن چکے تھے اور میرے آنے پر سب بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے کھانا کھایا چائے پی تو ایک بچہ ساتھ بیٹھا ہوا تھا میں نے اس سے پوچھا آپ کو قرآن پاک پڑھنا آتا ہے؟ بچے نے کہا جی بالکل قرآن پاک تو ہم سب کو آتا ہے۔ میں نے جیب سے قرآن کا چھوٹا نسخہ نکالا اور کہا یہ پڑھ کر سنائو ۔ بچے نے قرآن کو دیکھا اور مجھے دیکھا پھر قرآن کو دیکھا اور ماں باپ کو دیکھ کر دروازے کو دیکھا پھر مجھے دیکھا۔ میں نے سوچا اس کو قرآن پڑھنا نہیں آتا لیکن اس سے قبل یہ کہوں کہا کہ اسکو قرآن پڑھنا آتا ہے۔ میں نے کہا بیٹا یہ دیکھو۔ اورمیں نے قرآن کی ایک آیت پر انگلی رکھی تو وہ فرفر پڑھنے لگا بنا قرآن کو دیکھے۔مجھے حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا کہ
یہ قرآن کو دیکھے بنا ہی پڑھنے لگا۔ میں نے اسکے والدین سے کہا، حضرات یہ کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے مسکرا کر کہا،’’دراصل ہمارے پاس قرآن پاک موجود نہیں کسی کے گھر سے قرآن پاک کی آیت کا ٹکڑا بھی مل جائے تو پورےخاندان کو پھانسی کی سزا دی جاتی ہے اس وجہ سے ہم لوگ قرآن پاک نہیں رکھتے گھروں میں‘‘۔ تو پھر اس بچہ کو قرآن کس نے سکھایا کیونکہ قرآن پاک تو کسی کے پاس ہے ہی نہیں؟ میں نے مزید حیران ہو کر کہا۔ ہمارے پاس قرآن کے کئی حافظ ہیں کوئی درزی ہے کوئی دکاندار کوئی سبزی فروش کوئی کسان ہم انکے پاس اپنے بچے بھیج دیتے ہیں محنت مزدوری کے بہانے۔ وہ انکو الحمداللہ سے لیکر والناس تک زبانی قرآن پڑھاتے ہیں ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ وہ حافظ قرآن بن جاتے ہیں، کسی کے پاس قرآن کا نسخہ ہے نہیں اسلئے ہماری نئی نسل کو ناظرہ نہیں آتا بلکہ اس وقت ہماری گلیوں میں آپکو جتنے بھی بچے دکھائی دے رہے ہیں یہ سب کے سب حافظ قرآن ہیں۔ یہی وجہ ہے جب آپ نے اس بچے کے سامنے قرآن رکھا تو اسکو پڑھنا نہیں آیا ناظرہ کرکے لیکن جب آپ نے آیت سنائی تو وہ فرفر پڑھنے لگا اگر آپ نہ روکتے تو یہ سارا قرآن ہی پڑھ کر سنا دیتا۔تب مجھے احساس ہوا کہ اللہ پاک کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہے ترجمعہ: بےشک یہ ذکر (قرآن) ہم نے نازل فرمایا ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں