counter easy hit

خان پاکستان کے لیے ناگزیر ، مگر ناگزیر سمجھے جانیوالوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں ، اس لیے عمران خان کو چاہیے کہ ۔۔۔۔ سہیل وڑائچ کا دنگ کر ڈالنے والا سیاسی تبصرہ سامنے آگیا

Khan's graveyard is filled with those who are indispensable, but indispensable for Pakistan, so Imran Khan should have ... Sohail Waridich's staggering political commentary came out

لاہور (ویب ڈیسک) مانا کہ خان ناگریز ہے، وہ سب سے مقبول ترین ہے، یہ بھی تسلیم کہ اس کا ووٹ بینک چاروں صوبوں میں ہے، یہ بھی سچ کہ پنجاب میں اس کی اکثریت ہے، پختونخوا میں دو تہائی ارکان اس کی پارٹی کے ہیں، یہ بھی قبول کہ شہری سندھ میں اسے اچھی نشستیں ملی ہیں، نامور کالم نگار سہیل وڑائچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بلوچستان میں اس کی اتحادی جماعت ’’باپ‘‘ بڑی سیاسی طاقت کے طور پر اقتدار میں ہے۔ اس حقیقت کو جھٹلانا بھی مشکل کہ فوری طور پر خان کا کوئی متبادل بھی نہیں، نون لیگ زخمی اور اسیر ہے، پیپلز پارٹی پنجاب میں کمزور ہے اور لیڈر شپ پر مقدمات ہیں، دونوں جماعتیں ایک ایک صوبے تک محدود ہیں، ایسے میں خان سب سے اونچا نظر آتا ہے۔ کسی کو اچھا لگے یا برا مگر مجموعی تاثر یہ ہے کہ خان خود ایماندار ہے اور وہ کچھ اچھا کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی اور نون لیگ دونوں حکومت میں رہ چکی ہیں، اس وقت ان کی خوبیوں کے بجائے خرابیاں زیادہ سامنے ہیں، یوں فی الحال یہ دونوں جماعتیں تحریک انصاف کی چمک کے سامنے ماند ہیں۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے کرپشن الزامات کا قانونی دفاع تو کیا ہے مگر عوامی دفاع موثر طور پر نہیں کر سکیں جس طرح خان نے سادہ اور عوامی زبان میں ان دونوں جماعتوں پر کرپشن کے الزامات عائد کئے، اسی طرح کی زبان یا یوں کہیے کہ موثر انداز میں عوامی جواب نہیں دیا جا سکا، اسی وجہ سے خان کو اخلاقی برتری حاصل ہوئی، اپوزیشن کے لئے ابھی بھی یہ راستہ کھلا ہے کہ وہ قانون کے احاطے سے نکل کر عوامی جلسہ گاہوں میں آسان اور عام فہم الفاظ میں اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو رد کرے اور پھر ایسی وجوہات یا ثبوت پیش کرے جن سے یہ الزامات کم از کم عوام کی نظر میں ختم ہو جائیں۔ جب تک یہ نہیں ہوتا خان کی اونچی آواز کو نیچا کرنا مشکل ہوگا۔ اپنے خلاف الزامات پر عوامی فورمز میں اپوزیشن کی خاموشی نے پہلے بھی اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور آئندہ بھی یہ نقصان اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک ایک ایک الزام کا عوامی اطمینان کے مطابق جواب نہیں دیا جائے گا۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کئی دہائیوں کے بعد ریاستی ادارے اور سیاسی چیف ایگزیکٹو ایک ہی صفحے پر ہیں۔ یہ بھی طے ہے کہ معاشی اور خارجی بحران کے اس نازک ترین دور میں مقبول لیڈر خان ہی واحد آپشن تھا، ریاستی ادارے شریف اور زردار دونوں کے ارادوں اور پالیسیوں پر کھلے عام تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن خان پر انہیں اندھا اعتماد ہے۔ ملک و قوم کے لئے یہ ایک اچھی علامت ہے کہ حکومت اور ریاست مل کر مسائل کا حل نکالیں اور ملک کی کشتی کا بیڑا پار لگائیں۔یہ تاثر بھی بڑی حد تک درست ہے کہ اس ملک کی یوتھ خان کے ساتھ ہے، وہ پرانی سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی، خان کی وجہ سے اسے سیاست میں دلچسپی پیدا ہوئی اور وہ اب بھی خان سے امیدیں لگائے بیٹھی ہے۔ اسی طرح خواتین کی کثیر تعداد بھی خان کی فین ہے۔ اوورسیز پاکستانی توخان کے دیوانے ہیں اور وہ نگاہیں لگائے بیٹھے ہیں کہ خان پاکستان کو کب بدلے گا۔ پسے ہوئے طبقات کی بھی خان سے خاصی ہمدردی پیدا ہو چکی ہے۔ ان سب طبقات کی وابستگی دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ خان فی الحال ناگزیر ہے۔ خان کی ناگزیریت اور اہمیت اپنی جگہ مگر یہ بات بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ دنیا بھر کے قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے پڑے ہیں۔ خان بہت بڑا ہے مگر قوم سے تو بڑا نہیں، اُس کا قد اونچا سہی مگر وہ ملک سے تو اونچا نہیں۔ ہر مہذب قوم نے ناگزیر لیڈر کے متبادل بھی سوچ کر رکھے ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے اس وقت کوئی متبادل نہیں، خدانخواستہ خان کو کچھ ہوا یا اقتدار سے رخصت ہونا پڑا تو ہمارے پاس کیا متبادل ہے؟ اس بارے میں سوچنے اور تیاری کرنے کی فوری ضرورت ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website