’’آج کل نوازشریف کی تقریریں سن کر مجھے بہادر شاہ ظفر یاد آجاتا ہے‘‘۔
’’نواز شریف نے اپنی تقریر میں بہادر شاہ ظفر نہیں مرزا غالب کا شعر پڑھا تھا۔‘‘
’’جی ہاں انہوں نے عمران خان اور آصف زرداری کے بارے میں کہا تھا کہ کعبے کس منہ سے جائو گے غالب، شرم تم کو مگر نہیں آتی‘‘۔
’تو پھر آپ کو بہادر شاہ ظفر کیوں یاد آتا ہے؟‘‘
’’ظفر نے کہا تھا کہ؎
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آسکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں‘‘
’’لیکن نوازشریف کروڑوں آنکھوں کا نور اور کروڑوں دلوں کا قرار ہیں‘‘۔
’’آپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن وہ کروڑوں عوام کے کام نہ آسکنے والا مشت غبار بن چکے ہیں۔‘‘
’’جناب میں آپ سے بالکل اتفاق نہیں کرتا۔ نوازشریف مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد بن چکے ہیں اور جب وہ اپنی تقریر میں عمران خان اور آصف زرداری کو چابی والے کھلونے کہتے ہیں تو ان کے دیوانے خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں۔‘‘
’’میرے بھائی چابی والے کھلونوں کا زمانہ تو گزر چکاہے۔‘‘
’’نہیں چابی والے کھلونوں کا زمانہ نہیں گزرا۔ آپ نے چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں دیکھا نہیں کہ کیسے عمران خان کو چابی بھری گئی اور وہ پیپلز پارٹی کے سامنے جھک گیا اور کیسے پیپلز پارٹی والے عمران خان کے گلے لگ گئے۔‘‘
’’مان جائو میرے بھائی، چابی والے کھلونوں کا زمانہ گزر گیا ہے آج کل تو ریموٹ کنٹرول والے کھلونوں کا زمانہ ہے اور یہ کھلونے چابی سے نہیں بیٹری سیل سے چلتے ہیں اور کچھ ریموٹ کنٹرول کھلونے بم کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں۔‘‘
’’آپ مجھے بموں سے نہ ڈرائیں۔ بات چابی والے کھلونوں کی ہورہی تھی اور مارکیٹ میں چابی والے کھلونے آج بھی بک رہے ہیں۔‘‘
’’ہوسکتا ہے چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں عمران خان اور آصف زرداری کا کردار دیکھ کر نوازشریف کو وہ زمانہ یاد آگیا ہو جب پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل ملک غلام جیلانی بھی چابی والے کھلونوں سے کھیلا کرتے تھے۔‘‘
’’آپ آج کی بات کریں۔ گزرے ہوئے کل کو بھول جائیں۔ آج نوازشریف حق اور انصاف کی بات کررہا ہے لیکن باطل قوتیں لاجواب ہو کر نوازشریف کے ماضی میں غوطے لگانے لگتی ہیں۔‘‘
’’میرے بھائی آپ غصے میں نہ آئیں اور سیاسی اختلاف کو حق و باطل کی لڑائی نہ بنائیں۔ ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ مسلم لیگ (ن) سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت ہونے کے باوجود اپنا چیئرمین کیوں نہ لاسکی؟‘‘
’’آپ ہی بتا دیں مسلم لیگ (ن) اپنا چیئرمین کیوں نہ لاسکی؟‘‘
’’صاف سی بات ہے۔ مسلم لیگ(ن) کا بیانیہ ووٹروں میں تو بڑا مقبول ہے لیکن سینیٹرز اور ارکان اسمبلی میں مقبول نہیں ہے کیونکہ نوازشریف نے ان کے سروں پر توہین عدالت کی تلوار لٹکا دی ہے اور بہت سے تو ایسے ہیں جن کے دامن صاف نہیں وہ تحقیقات سے بچنے کیلئے خاموشی کے ساتھ دوسری طرف ووٹ ڈال گئے۔‘‘
’’تو آپ مان رہے ہیں کہ چابی گھمانے والوں نے دھمکیاں دیکر مسلم لیگ (ن) کے کچھ سینیٹرز کو اپنی پارٹی سے دھوکہ کرنے پر مجبور کیا۔‘‘
’’آپ اپنے الفاظ میرے منہ میں نہ ڈالیں۔ چابی گھمانے والے تو بہت سے لوگ ہیں اور چابی والے کھلونے آپ کو ہر طرف دکھائی دے سکتے ہیں۔‘‘
’’جی ہاں آجکل ہمیں میڈیا میں بھی چابی والے کھلونے نظر آرہے ہیں۔‘‘
’’بالکل صحیح۔ میڈیا کے کسی کھلونے میں نوازشریف چابی بھرتے ہیں اور کسی کھلونے میں نوازشریف کے مخالفین چابی بھرتے ہیں۔ جو کھلونا بننے سے انکار کردے اسے سوشل میڈیا پر گالیاں دی جاتی ہیں۔ نوازشریف کو اپنے کھلونے بہت اچھے لگتے ہیں لیکن دوسروں کے کھلونے برے لگتے ہیں۔‘‘
’’میں نہیں مانتا۔ نوازشریف نے کبھی کسی کو کھلونابنایا نہ اس میں چابی بھری۔‘‘
’’آپ نہ مانیں لیکن آج مسلم لیگ (ن) کے جن اراکین پارلیمنٹ پر توہین عدالت کے مقدمے چل رہے ہیں کیا انہیں چابی والے کھلونوں کی طرح استعمال نہیں کیا گیا۔ کیا ان کے بیانات سن کر آپ کو سلیم کوثر کا یہ شعر یاد نہ آتا تھا؎
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئینہ مرا عکس ہے، پس آئینہ کوئی اور ہے
’’چلیں مان لیا کہ دانیال عزیز اور طلال چودھری بھی چابی والے کھلونے تھے لیکن انہیں ان کا اپنا لیڈر نوازشریف چابی دیتا تھا عمران خان اور آصف زرداری تو کسی نامعلوم شخص کی چابی پر چلتے ہیں۔‘‘
’’آپ نے بہت اچھا جواب دیا لیکن ذرا یہ تو بتایئے کہ جب نوازشریف نے ڈان لیکس کے معاملے میں پرویز رشید، طارق فاطمی اور رائو تحسین کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا تو اس وقت آپ کو نامعلوم افراد کی چابی کیوں یاد نہ آئی؟ نوازشریف نے آئین سے بغاوت کے مقدمے میں ملوث سابق فوجی آمر پرویز مشرف کو پاکستان سے بھگا کر ذمہ داری عدلیہ پر ڈال دی یہ ایک ایسی غلطی ہے جس کا خمیازہ وہ بہت دیر تک بھگتیں گے۔ اگر وہ مشرف یا ڈان لیکس کے معاملے پر ڈٹ جاتے اور انہیں زبردستی حکومت سے نکالا جاتا تو آج وہ جلسوں میں مرزا غالب کے شعر پڑھ کر عمران اور زرداری کو شرم نہ دلا رہے ہوتے بلکہ نوازشریف، عمران اور زرداری ایک ساتھ جلسوں میں علامہ اقبال، فیض اور جالب کے انقلابی شعر پڑھ کر پوری قوم کے دلوں کو گرما رہے ہوتے لیکن افسوس کہ نوازشریف نے چند لمحوں کی خطا کی اور اب صدیوں کی سزا پائیں گے۔‘‘
کیا نوازشریف اکیلے ہی سزا پائیں گے؟‘‘
’’نہیں بہت سے لوگ سزا پائیں گے۔ ایک پارٹی کے لوگ سزا نہیں پائیں گے۔ بہت سی پارٹیوں کے لوگ سزا پائیں گے۔ ایسے ایسے لوگ سزا پائیں گے کہ خود نوازشریف بھی حیران رہ جائیں گے۔‘‘
’’سمجھ نہیں آئی۔ کیا آپ کا اشارہ شہباز شریف کی طرف ہے؟‘‘
’’شہباز شریف کو سزاملنے پر نوازشریف حیران نہیں ہونگے۔‘‘
’’آپ یہ تو مانیں کہ شہباز شریف نے چابی والا کھلونا بننے سے انکار کردیا ہے۔‘‘
’’صرف چند دنوں کی بات ہے۔ آپ کو سب پتہ چل جائے گا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’شہباز شریف نے مسلم لیگ (ن) کے کنونشن میں نوازشریف کو قائداعظم کا سیاسی وارث بنا دیا۔ وہ نوازشریف کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ کسی اور کا نہیں نوازشریف کا کھلونا ہیں لیکن بھول رہے ہیں کہ جس کھلونے کو ہر کوئی چابی دے وہ ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘