تحریر: نعیم الرحمان شایق
وقوف عرفہ کے دوران سعودی مفتی ِ اعظم شیخ عبد العزیز آل الشیخ نے خاص طور پر فریضہ ِ حج ادا کرنے والوں کو اور عام طور پر پوری امت ِ مسلمہ کو بڑا بصیرت افروز خطبہ ِدیا ۔ اگر اس خطبے میں کہی گئیں باتوں پر عمل کیا جائے تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔ شیخ عبد العزیز آل الشیخ نے اس خطبہ ِ حج میں اسلام کی حقیقی تصویر کشی کی ۔ اسلام کی حقیقی تعلیمات امن ، محبت اور آشتی کا درس دیتی ہیں ۔ لیکن اسلام کے دشمن دنیا کو یہ باور کرانے کے درپے ہیں کہ اسلام معاذ اللہ جنگ و جدل کا درس دیتاہے۔
اسلام بہت سخت مذہب ہے ۔ جب کہ کچھ اپنے لوگ بھی ہیں ، جو یہ سمجھتے ہیں اسلام کی تعلیمات اب فرسودہ ہوگئیں ہیں ۔ اس لیے یہ قابل ِ عمل نہیں رہیں ۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگوں کی یہ خواہش ہے کہ اسلام صرف عبادات تک محدود رہے ۔ معاملات میں ہمیں مغرب اور دیگر ترقی یافتہ اقوام کی پیروی کرنی چاہیے ۔ حالاں کہ یہ سوچ درست نہیں ہے ۔ اسلام عبادات اورمعاملات دونوں کا مجموعہ ہے ۔ اسلام عبادات کا بھی درس دیتا ہے اور معاملات کو بھی بہ حسن و خوبی سر انجام دینے کے طریقے اور سلیقے سکھاتا ہے ۔ ہماری حقیقی کام یابی صرف اور صرف اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہے۔
بات کہاں سے چلی اور کہاں پہنچ گئی ۔ سعود ی مفتی ِ اعظم شیخ عبد العزیز آل الشیخ نے خطبہ ِ حج کے دوران امت ِ مسلمہ کو جو نصیحتیں کیں ، ان میں سے کچھ یہ ہیں :انھوں نے کہا کہ نوجوانوں کو انارکی پھیلانے والوں کی آوازوں پر کان نہیں دھرنے چاہئیں ۔ اس کے بجائے انھیں تعمیری سر گرمیوں پر اپنی توانائیاں صرف کرنی چاہئیں اور اسلام کے حقیقی پیغام کو پھیلانا چاہیے ۔ حضرت محمد ﷺ نے ہر قسم کی ناانصافیوں کو حرام قرار دیا ہے اور کوئی بھی انسان دوسرے انسان کی ناحق جان لینے کا حق نہیں رکھتا ۔ قبلہ ِ اول کو آزاد کرانے کے لیے ہماری کوششیں کم زور پڑ چکی ہیں ۔ مقہور مسلمان صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں ۔ کیوں کہ ان کی مشکلات کے خاتمے کا وقت قریب ہے۔
دشمنان ِ اسلام ، اسلام کا لبادہ اوڑھ کر دنیا میں فساد پھیلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور داعش ایک گمراہ گروہ ہے جو اسلام کے نام پر امت کو تباہ کرنے میں لگا ہے ۔ ایسے وقت میں علماء پر بھاری ذمہ داری عائدہوتی ہےکہ وہ بہتر انداز میں دین کی دعوت عام کریں اور تبلیغ ِ دین میں اپنا کردار ادا کریں ۔ یہودی اسلامی قوتوں اور دین و اخلاق کو تباہ کرنے کے درپے ہیں ۔ آج امت ِ مسلمہ فساد کی لپیٹ میں ہے ۔ اے مسلمانو! دین ِاسلام ہی وہ دین ہے جس نے مسلمانوں کو متحد کیا ہے۔
ہمیں اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اتحاد و یک جہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ ہماری عبادتیں اخلاص پر مبنی ہونی چاہئیں ۔ اللہ کی نظر میں اسلام حق اور سچ کا دین ہے ۔ والدین اپنی اولاد کی اچھی تربیت کریں ۔ اے لوگو! اللہ کا شکر ادا کرو ۔ اسلامی تعلیمات اختیار کرو اور گناہوں سے بچو ۔ عبادتیں خالص اللہ کے لیے ہونی چاہئیں ۔ وہ جسے چاہے دولت دے اور جس سے چاہے دولت واپس لے لے ۔ اے مسلمانو! تقویٰ اختیار کرو اور شرک و بدعت سے بچو ۔ جس کا نتیجہ جہنم کے سوا کچھ نہیں ۔ سعودی مفتی ِ اعظم نے صحافیوں کو یہ بھی نصیحت کی کہ وہ صرف حق کی آواز عوام تک پہنچائیں۔
درج بالا اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی مفتی ِ اعظم نے بڑے جامع انداز میں اسلام کی حقیقی تعلیمات کی منظر کشی کی ہے ۔ انھوں نے بڑے دلنشین انداز میں خطبہ ِ حج کا پیغام ہم تک پہنچا دیا ہے ۔ لیکن اصل چیز عمل ہے ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ہر اچھی بات بڑے ادب سے سن لیتے ہیں ۔ وقتی طور پر اس کا تھوڑا تھوڑا اثر بھی ہم پر ہو جاتا ہے ۔ لیکن عمل کے میدان میں ہم ہمیشہ پیچھے رہتے ہیں ۔شاید اسلام کے ضمن میں عمل کے میدان میں پیچھے رہنے کا ہی شاخسانہ ہے کہ غیروں کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا ہے کہ اب اسلام کی تعلیمات قابل ِ عمل نہیں رہیں ۔ اس کے علاوہ مسلمانوں میں ہی کچھ ایسے عناصر ہیں ، جواسلام کی حقیقی تعلیمات کو صحیح معنوں میں پیش نہیں کر رہے۔
جس کی وجہ سے غیر مسلم اقوام نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اسلام معاذاللہ جبر و تشدد کا درس دیتا ہے ۔غیر مسلم اقوام کو سمجھنا چاہیے کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کا سب سے بڑا منبع قرآن ِ حکیم ہے ۔ پھر ہمارے رسول اکرم ﷺ کی اسوہ ِ حسنہ ہے۔ قرآن ِ حکیم میں “دین میں کوئی جبر نہیں “اور “تمھارے لیے تمھارا دین ، اور ہمارے لیے ہمارا دین “جیسی آفاقی تعلیمات ہیں ۔ جب کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کی صفت ِ رحمت کا سب سے بڑا مظہر فتح ِمکہ کا واقعہ ہے ، جب آپ ﷺ نے اپنے بڑے سے بڑے دشمن کو معاف کر دیا تھا ۔
اس سال حج کے دوران ایک دوسرا سانحہ پیش آیا ۔ جس میں جانی نقصان پہلے سانحے سے بھی زیادہ تھا ۔ اب کی بار 769 نفوس شہید ہوئے ۔ اور 934 زخمی ہوگئے۔ یہ واقعہ وادی ِ منیٰ میں پیش آیا ۔ جب حجاج اکرام شیطان کو کنکریاں مارنے جارہے تھے تو بھگدڑ مچ گئی ۔ جس سے یہ اتنا بڑا نقصان ہوا ۔ اس واقعے میں ایران اور مراکش کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ۔ ایران کے ایک سو چھتیس اور مراکش کے ستاسی حجاج اکرام شہید ہوئے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق کراچی کی دو خواتین سمیت 7 پاکستانی شہید ہوئے ۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان حجاج اکرام کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے اور انھیں کے لواحقین کو صبر ِ جمیل عطا کرے ۔بعض لوگ سانحہِ منی ٰ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ایسے نازک مواقع پر ایسی نازک باتیں نہیں کی جاتیں ۔ اس سال یہ دوسرا واقعہ ہوا ہے ۔ ہم اس میں سعودی حکومت کو قصور وار نہیں ٹھہراتے ۔ لیکن پھر بھی اس واقعے کی تحقیق کرنی چاہیے ۔ اور کچھ ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں کہ آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں۔ اسی پر اکتفا ہے۔
تحریر: نعیم الرحمان شایق
ای میل:
shaaiq89@gmail.com
فیس بک:
fb.com/naeemurrehmaan.shaaiq