تحریر: عفت
صحن میں بہت سے لوگ جمع تھے ،بھانت بھانت کی آوازیں اور دبے لہجے میں سرگوشیاں سوگوار ماحول کو اور رنجیدگی کا پیرھن پہنا رہی تھیں ۔صحن کے درمیاں چارپائی پہ زوبی خاموش ابدی نیند سو رہی تھی ۔اس کی سوتیلی ماں اور بہن اس کی لاش کے سرہانے بین کر رہیں تھیں ۔ہائے باپ کی موت کا صدمہ برداشت نہ ہوا بہت پیار کرتی تھی اپنے بابا سے ایک ماہ بعد ہی خود بھی چل بسی رات بھلی چنگی سوئی تھی ۔عورتیں لاش کے پاس آتیں منہ سے کپڑا ہٹاتیں اور بھری جوانی کی موت پہ افسوس کر کے پیچھے ہٹ جاتیں ۔اور زوبی کی ماں کے گلے لگ جاتیں۔ وہ پھر سے دہائیاں دینے لگتی ۔امجد دروازے سے اندر آیا اور صفیہ کے کان میں کچھ کھسر پھسر کرنے لگا صفیہ نے اٹھتے ہوئے اسے کمرے میں آنے کا اشارہ دیا۔
آپا ٹائم سے تدفیں ہو جانی چاہیے امجد نے دبے دبے لہجے میں کہا ۔اے ہے وہ جو اس کی پھوپھی کے دل میں محبت جاگی ہے اس نے کہا ہے میرے آنے تک دفن نہ کرنا میں نہیں چاہتی بنتا کام بگڑ جائے ۔جہاز سے آرہی ہے دو گھنٹے کی بات ہے بس ادھر اس نے منہ دیکھا ادھر روانگی صفیہ نے بیزار لہجے میں کہا ۔ اچھا ٹھیک ہے میں جاتا ہوں باقی انتظام کرنے یہ کہہ کر امجد باہر نکل گیا ۔صفیہ کے اندر جاتے جو چہ ء میگوئیاں شروع ہوئیں تھیں تھم گئیں ۔ صفدر اور فرزانہ اندر داخل ہوئے ۔صفیہ آگے بڑھ کے فرزانہ کے گلے جا لگی ہائے آپا جان میری بیٹی چلی گئی وہ دھاڑیں مار مار کے رو رہی تھی ۔فرزانہ کی آنکھوں میں آنسو اور چہرے پہ دکھ تھا مگر اس نے ضبط کیا۔
رندھے ہوئے لہجے سے بس اتنا کہا انااللہ وانا الہ راجعون ۔اور کلمہ پاک کا ورد کرتی زوبی کی کفن میں لپٹی میت کے پاس گئی صفدر بھی لب بھینچے پاس کھڑا تھا اس کے چہرے پہ دکھ کی تحریر رقم تھی ابھی تو سفر شروع بھی نہ ہوا تھا زوبی تم نے پہلے ساتھ چھوڑ دیا اس کی خاموش نگاہیں زوبی کے سپید چہرے پہ ٹک گئیں ۔مگر وہاں اس کے گلے کا کوئی جواب نہ تھا۔ آنکھ جھپکنے سے دو آنسو گرے اور کفن کے سرے میں یوں گم ہو گئے جیسے زوبی نے انہیں اپنی مٹھی میں سمو لیا ہو ۔فرزانہ نے زوبی کے سرد ماتھے پہ بوسہ دیا ۔اور اس کا چہرہ ڈھک دیا ۔صفدر کی نظر اچانک زوبی کے ہونٹوں کے کنارے پہ گئی جہاں نیلاہٹ کے ساتھ سرخ خون ملا جھاگ سا لگا اس سے قبل وہ غور کرتا امجد مردوں کے ساتھ اندر آیا اور چارپائی اٹھا لی ۔کلمہ پاک کا ورد کرتے ہوئے زوبی کو اس کی آخری آرام گاہ کی طرف لے جایا جا رہا تھا۔
صفدر کے پاس اس کا دوست انسپکٹر عادل بیٹھا تھا ۔اور اس کی دل جوئی کر رہا تھا ۔اس نے کھوئے کھوئے صفدر کو دیکھا ،کیا بات ہے تم کسی کشمکش کا شکار ہو ْ؟ عادل نے صفدر کی حالت کے پیش ِنظر اسے مخاطب کیا ،آں ہاں صفدر نے زوبی کی حالت بیاں کی ۔ہہم عادل نے ہنکارہ بھرا اس کا مطلب زوبی کی موت قدرتی نہیں ضرور کوئی بات ہے ۔تم فکر نہ کرو میں کرتا ہوں کچھ ،تم آرام کرو صبح میں آئوں گا پھر بتائوں گا وہ اٹھ کھڑا ہوا ۔صفدر اسے رخصت کرنے کے بعد فرزانہ کے پاس جارہا تھا کہ گزرتے ہوئے ایک کمرے سے اسے ہنسی کی آواز سنائی دی نجمہ تو بس ذرا اپنی پھپھی اور صفدر کے آس پاس رہ ،اور میں جلد تیرے لیے صفدر کے رشتے کی بات کروں گی۔
صفیہ کی آواز آئی۔ اب تو ساری جائیداد کی وارث تو ہی ہ ناں نجو ۔امجد کی مکروہ ہنسی سنائی دی اور آپا مجھے مت بھول جانا ۔ورنہ تجھے پتہ تو ہے میرا کتنا کمینہ ہوں ۔اے پتہ ہے اوقات میں رہ مل جائے گا تجھے تیرا حصہ کمبخت ٹھنڈا کر کے کھا ۔صفیہ نے بھی بھائو دکھایا ۔اب صفدر سب سمجھ چکا تھا اس نے ان سب سے نپٹنے کا فیصلہ کر لیا ۔اسنے ساری حقیقت ماں کے گوش گذار کی ،فرزانہ کا منہ حیرت سے کھل گیا یکلخت وہ غصے سے اٹھی مگر صفدر نے انہیں یہ کہہ کر روک دیا کہ امی جذباتی مت ہوں جو ہونا تھا ہو چکا چور کو اس کے گھر تک پہنچانے کے لیے ہمیں بھی ان جیسی حکمت ِ عملی اپنانی ہو گی اس نے ماں کے کاں میں کچھ کہا اور انہوں نے گردن ہلا دی ۔ قل خوانی کے بعد فرزانہ نے نجمہ کا رشتہ صفدر کے لیے یہ کہہ کر مانگا کہ وہ بھی اس کی بھتیجی ہے زوبی تو رہی نہیں نجمہ ہی سہی وہ روز قیامت بھائی کے سامنے سرخرو تو ہو گی۔
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں کے مصداق صفیہ کی تو گویا لاٹری نکل آئی ۔صفدر نے امجد کو کہا کہ وہ اس کے ماموں کی جائیداد کا گارڈین مقرر ہو گا اس بات سے صفیہ کو اختلاف تھا اسے پتہ تھا امجد پہ بھروسا نہیں کیا جا سکتا وہ جوئے کا عادی تھا کیا خبر سب لٹا دے ۔اس نے دبے لفظوں میں خود کو احمد ملک مرحوم کی بیوہ گردانتے ہوئے اپنا حق جتایا کہ ساری دیکھ بھال کی نگرانی اس کے سپرد کی جائے اور زوبی کا حصہ جو احمد ملک نے الگ رکھا تھا اس کے نام کر دیا جائے کیونکہ زوبی اس دنیا میں نہیں رہی ۔یہ بات تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی امجد کے دل میں صفیہ کے خلاف کدورت پیدا ہو گئی ۔صفدر کی پلاننگ کامیابی کی طرف بڑھ رہی تھی ۔اس نے امجد کو اپنے آفس بلایا۔
امجد صاحب آپ میرے ماموں کی جگہ ہیں اور ان کی فیملی میں آپ واحد مرد ہیں اس لیے میں سارے معاملات آپ کے سپرد کرنا چاہتا ہوں مگر ممانی میری بات سمجھ نہیں رہیں وہ سمجھتی ہیں کہ آپ جائیداد ہڑپ کر جائیں گے جب کہ مجھے آپ پہ پورا بھروسا ہے ۔میں کشمکش میں ہوں کیا کروں آپ صلاح دیں ۔صفدر کے تعریفی لہجے نے امجد کو بانس پہ چڑھا دیا ۔دہکھو میاں سچ پوچھو ہے تو میری بہن مگر اپنا سوتیلا پن دکھانے سے نہیں رہتی ۔تم سب میرے سپرد کر کے بے فکر ہو جائو ۔امجد نے پان چباتے کہا ۔بس جلدی سے کاغذی کاروائی پوری کرو۔
صفیہ کو بھی صفدر نے کچھ ایسے سپنے دکھائے کہ وہ بھی امجد سے خائف ہو گئی۔ قدرت کی لاٹھی بے آواز ہے صفدر کی حکمت ِعملی اور قدرت کی مدد صفدر ساری جائیداد کے کاغذات تیار کروا لایا اور امجد اور صفیہ کے سامنے رکھ دئیے لیں آپ کی امانت مجھے تو اب واپس جانا ہے ۔اس صفیہ سے مخاطب ہو کر کہا ۔وہ چیل کی طرح لپکی اور کاغذات اپنے قبضے میں کر لیے ۔امجد نے اسے زہریلی نظروں سے دیکھا اور باہر نکل گیا ۔صفدر نے ماں کو واپس بھجوایا اور خود عادل کے پاس ٹھہرگیا اب اسے قدرت کے فیصلے کا انتظار تھا۔
آدھی رات کو ایک نقاب پوش ڈھاٹا باندھے دیوار کود کر اندر داخل ہوا اور تجوری کھول کر کاغذات نکالے ساتھ ہی رقم اور زیورات بھی صفیہ بھی چوکنی تھی آگے آگئی اور اس کے منہ ہی جھپٹا مارا امجد کا نقاب اتر گیا اسی کشمکش میں اس کے ہاتھ میں دبا پستول چل گیا اور صفیہ موقعہ پہ جاں بحق ہو گئی گولی کی آواز سن کر نجمہ آئی اور اس کی چیخ گلے میں گھٹ گئی ماموں یہ کیا کیا وہ چلائی مگر اس وقت ہوس خون سفید اور پانی کر چکی تھی ایک گولی اس کے سینے میں اتر گئی ۔جیسے ہی امجد باہر کودا ، عادل نے اسے حراست میں لے لیا ۔اس نے اقرار کر لیا کہ زوبی کو ان سب نے جائیداد کی خاطر زہر دے کر ہلاک کیا تھا ۔اسے سزائے موت ہوگئی صفدر نے ساری جائداد ٹرسٹ میں دے دی وہ نہیں چاہتا تھا کہ پھر کوئی سر بریدہ ہو۔۔ختم شد۔
تحریر: عفت