تحریر: فضل خالق خان
یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کے دعویداری میں رہے سہے سکولوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑ گئے۔ خیبر پختون خوا میں ایک سرکاری چشم کشا رپورٹ کے مطابق 275 مزیدبھوت سکولوں کا انکشاف ہوا ہے جو تعلیمی ترقی کے دعویداروں کے منھ پر تماچہ ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ان بھوت سکولوںمیں سے 15 بھوت سکول صوبے کے خادم اعلیٰ پرویز خٹک کے اپنے آبائی علاقے میں ہیں جبک کہ 17 گھوسٹ سکولوں کا انکشاف خیر سے صوبے کے وزیر تعلیم محمد عاطف کے آبائی حلقے میں ہو چکا ہے۔
اس کے علاوہ دنیا بھر میں تعلیم کی ترقی کے لئے پریشان ملالہ یوسف زئی کے علاقے میں ان بھوت سکولوں کی تعداد سب سے زیادہ جس پر حکومت نے آنکھیں بند کررکھی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی اول تو تبدیلی کا نعرہ لگایا کہ ہر شعبہ زندگی میں تبدیلی لاکر عوام کا معیا ر زندگی بہتر کر نے کے ساتھ ساتھ شعبہ تعلیم کو بام عروج پر لے کر جائیں گے ۔ دوسال سے تبدیلی کے منتظر عوام کی آنکھیں ترس گئیں لیکن ہوا کیا اس پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہاں ایک تبدیلی ضرور دیکھی گئی ۔وہ یہ کہ پچھلے دنوں خیر سے بڑے بے باک اور بہترین ڈیبیٹر مراد سعید نے اقتدار سے فائدہ اُٹھانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے آدھے گھنٹے میں تین پرچے حل اور پھر اسی وقت اس کا نتیجہ بھی حاصل کرنا چاہا جس میں وہ قوم کے سامنے بری طر ح شرمندگی اُٹھانے کی خفت لے گئے۔ اگر یہی تبدیلی لانی تھی تو پھر کوشش کرتے کہ صوبے کے تمام عوام کو اس سہولت سے مستفید کرنے کی سعی کی جاتی ۔ اس طرح کے اقدام کے لئے قانون سازی کرتے تاکہ غریبوں کے بچے خوا مخوا ہاسٹلوں میں رہنے اور بھاری بھر کم فیسیں بھر نے کی بجائے ایک ہی مقررہ وقت پر متعلقہ اداروں میں جاکر لمحوں میں تمام سیڑھیاں چڑھتے ۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔
تبدیلی سرکار کی حکومت نے عنان حکومت سنبھالتے ہی اعلان کیا تھا کہ صوبے کو ترقی اور عوام کو خوشحالی کے دوڑ میں شامل کرنے کے لئے سب سے پہلے تعلیم کے شعبے پر توجہ دے کر ایک ہی نظام تعلیم رائج کرکے امیر اور غریب کے لئے یکساں ترقی کے مواقع فراہم کرینگے ۔ اب صورت حال یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی ادارے جس میں پڑھانے والے اساتذہ بھاری تن خواہیں اور دیگر سارے مراعات لے کر بھی اپنی ذمہ داریوںکو کماحقہ پورا کرنے سے قاصر ہیں جبکہ دوسری جانب پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں ا ن کے شاگرد اور کل کے بچے ان کی تن خوا کا عشر عشیر لے کے ا ن سے بہتر ذمہ داریاں پوری کرر نے کے ساتھ نجی تعلیمی اداروں میں بہتر نتائج دے رہے ہیں۔ لیکن ؟۔۔۔۔۔یہ الگ بات ہے کہ وہ اچھے نتائد والدین کی پریشانی کی قیمت پر اور جیب پر بھاری بوجھ ڈال کر دئیے جارہے ہیں۔حالیہ رپورٹ اس حوالے سے پریشان کن ہے کہ خیبر پختون خوا جس کے عوام پہلے سے گوناگوں مشکلات کا شکار ہیں اور جس کی بنیادی وجہ ہی تعلیم کی کمی ہے ۔ اس کے لئے یہ خبر کسی بم سے کم نہیں ۔ ہم موجودہ صورت حا ل میں تعلیمی زبوں حالی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے ۔ صوبے میں بد امنی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایک جانب تعلیمی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان ان پڑھ رہ کر ان شعبوں میں جانے سے محروم رہ جاتے ہیں جہاں ترقی صرف تعلیم کی مرہون منت ہے۔
دوسری جانب بے روزگاروں کی فوج میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس سے نجات حا صل کرنا اس لئے ضروری ہے کہ پچھلے عشرے سے ہم جس بدامنی کی لپیٹ میں ہے یہ اسی کا مرہون منت تو ہے ۔ اگر ہمارے ہاں تعلیمی سہولیات کا فقدان نہ ہوتا اور بچے بروقت پڑھ لکھ کر اپنی صلاحیتوں کے مطابق باعز ت روزگار کے ذریعے معاشرے میں باعزت مقام پر ہوتے تو پھر کس نے اندھیری راہوں کا مسافر بننا تھا ؟خیبر پختون خوا جس کے بیشتر علاقے انتہائی پسماندہ ہیںاور وہاں سکولوں میںتعینات اساتذہ کا چیک نہ ہونے کی وجہ سے وہ فرائض میں غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں اگر ذمہ دار اپنی ذمہ داریاں ایمانداری سے پورا کرتے ہوئے کم ازکم مہینے میں ایک بار ان کے بارے میں معلوم کرتے تو ہمیں یقین ہے آج سرکاری سطح پر 275 گھوسٹ اسکولوںکی رپورٹ منظر عام پر نہ آتی ۔سوات کے دورافتادہ علاقوں سے بھی گاہے بہ گاہے ایسی رپورٹس منظر عام پر آتی ہیں کہ وہاں تعینات اساتذہ سال میں ایک بار بھی وہاں جانا گوارا نہیں کرتے جس کی وجہ سے استعدادرکھنے والے والدین نجی تعلیمی اداروںکا کڑوا گھونٹ پینے پر مجبورہوتے ہیں اور جو بس نہ رکھنے والے ہیں ان کے بچے ان پڑھ رہ کر معاشرے کے لئے ناسور کا باعث بنتے ہیں۔
جب ہمارے حکومتی ذمہ داروں کا یہ حال ہوگا تو پھر گلہ کس سے ۔ اگر ہم نے واقعی اکیسویں صدی کے چیلنجوں سے نمٹنا ہے تو پھر شتر مرغ کی طرح آنکھیں چرانے سے کام نہیں بنے گا ۔ سینہ تان کر مسائل کے حل کو ممکن بنانے کے لئے میدان میں آنا پڑے گا۔ صوبے کے وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم کے لئے اپنے اپنے حلقوں سمیت پورے صوبے میں گھوسٹ اسکولوں کی خبر نیند اُڑانے کاباعث ہوکر اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھنا چاہئے جب تک پورے صوبے میں شعبہ تعلیم کی زبوں حالی ختم کرنے کے لئے مناسب اقدامات نہیں کئے جاتے۔
بصورت دیگر آج شعبہ تعلیم ان کے شرمندگی کا باعث بنا ہوا ہے تویہ آگے چل کر کونسا تیر ماریںگے کہ دیگر اداروں کی حالت تو اس سے بھی پتلی ہے۔معاشی طورپر صوبہ پہلے سے بد حال ہے اگر اب بھی اس کی ترقی وخوشحالی کی جانب مناسب توجہ نہ کی گئی تو پھر مستقبل کے سہانے خواب دیکھنا چھوڑ دیا جائے اور یہ فرض کرلیا جائے کہ خیبر پختون خوا جسے قدرت نے بے تحاشہ وسائل سے مالامال کیا ہے اس کے تمام شعبوں سے غیر مقامی فائدہ اُٹھاتے رہیں گے اور جو مقامی لوگ ہیں وہ اپنوں کی بے اعتنائی ، نااہلی کی وجہ سے دیار غیر اور ملک کے دیگر علاقوں میں پالشئیے بن کر کسمپرسی کی زندگی گزارتے رہیں گے۔
تحریر: فضل خالق خان