بلوچستان میں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوگیا، سیکریٹری کالجز کے بعد اغوا کیے گئے چینی باشندوں کا بھی کچھ پتا نہ چل سکا۔بلوچستان 2010 سے 2014 تک اغوا کاروں کیلئے پسندیدہ جگہ رہی، ڈاکٹر اور، تاجر سے ڈرائیوروں تک کو اغوا کرکے تاوان وصول کیا گیا، لیکن ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے صوبے میں برسر اقتدار آنے کے بعد اغوا برائے تاوان میں ملوث بیشتر گروہ گرفتار کرلیے گئے یا مار دیے گئے۔کوئٹہ سمیت بلوچستان میں اغوا کی وارداتوں میں نمایاں کمی آگئی ، مگر اب پھر بچے کھچے اغوا کاروں نے سر اٹھا نا شروع کردیا ہے۔ دو ماہ قبل کوئٹہ کے بروری روڈ سےصبح سویرے مسلح افراد سیکریٹری کالجزعبداللہ جان کو اغوا کرکے لے گئے۔پھر جناح ٹاون سے رواں ماہ چینی جوڑے کو دن دہاڑے مارکیٹ سے اغوا کرلیا گیا، ائیر پورٹ روڈ سے کپڑے کے تاجر کو اغوا کیا گیا، چینی شہریوں سمیت چاروں مغوی کہاں اورکس حال میںاور کس گروپ کے قبضے میں ہیں، تاحال کچھ پتا نہیں چل سکا۔چمن ہاوسنگ سوسائٹی سے معروف سرجن کے اغوا کی کوشش کی گئی، تاہم وہ اغواکاروں کے چنگل سے بچ نکلے، جبکہ چمن، اوستہ محمد، ڈیرہ مرادجمالی اور بولان میں آئے روز اغوا کی وارداتیں ہورہی ہیں۔عوامی حلقے صوبے میں اغوا برائے تاوان کی بڑھتی ہوئی واردادتوں پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں اوراسے حکومت کی بڑی ناکامی قراردے رہے ہیں۔