وہ افرادجن کے گردوں میں پتھری پڑجاتی اوردرد شروع ہوجاتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ جس کرب واذیت کاانھیں سامنا ہوتا ہے، وہ ناقابل بیان ہے۔ اگر گردے کی پتھری کاسائز چھوٹا ہو، یعنی تقریباََ 5ملی میٹر تو دوائیں کھانے کے ہفتے دو ہفتے بعد پیشاب کی نالی سے نکل جاتی ہے اور گردے کادرد جاتا رہتا ہے، البتہ اگر پتھری کاسائز بڑا ہویا دوتین پتھریاں ہوں تو انھیں ریزہ ریزہ توڑا جاتا ہے، جو بعد میں ذروں کی شکل میں پیشاب کی نالی سے خارج ہوجاتی ہیں۔ بعض اوقات اس کے لیے جراحی (سرجری) بھی کرانی پڑتی ہے۔
یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ پتھری کیسے بن سکتی ہے اور کیسے نہیں، البتہ ہم ایسی احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کرسکتے ہیں کہ ہمیں پتھری نہ ہو، مثلاََ غذا میں تبدیلی، پانی زیادہ پینا اور کولامشروبات سے گریز کرنا۔ اس کے علاوہ جن چیزوں سے گردے میں پتھری ہوجاتی ہے، وہ درج ذیل ہیں۔
موروثی:
اگر آپ کے خاندان میں کسی کو گردے کی پتھری کی تکلیف رہ چکی ہے تو آپ کو بھی یہ تکلیف ہونے کے امکانات ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ کو پہلے سے پتھری ہوتو اس کے امکانات ہیں کہ آپ کو ایک کے بجائے دو ہوجائیں گی۔
پانی کی کمی:
معالجین کہتے ہیں کہ بہت سے افراد کوگرمیوں میں پتھری کی شکایت ہوجاتی ہے، خاص طور پر ان لوگوں کو ، جو گرمی میں رہتے ہیں اور جنھیں پسینابہت آتا ہے۔ جب پسینا زیادہ آتا ہے تو پیشاب کم آتا ہے۔ یہ اس صورت میں بھی ہوتا ہے کہ جب آپ پانی کم پیتے ہیں۔ جسم میں پانی کی کمی ہوجاتی ہے تو پتھری ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ جب آپ پانی زیادہ پیتے ہیں تو پیشاب میں سے یورک ایسڈ خارج ہوتا رہتا ہے اور پتھری ہونے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔
اگرآپ یہ چاہتے ہیں کہ پتھری کی شکایت نہ ہوتو زیادہ سے زیادہ پانی پییں۔ معالجین مشورہ دیتے ہیں کہ زوزانہ آٹھ سے بارہ گلاس پانی پینا ضروری ہے۔ سادا پانی کے بجائے آپ لیموں کاپانی بھی پی سکتے ہیں اس سے گردے میں پتھری نہیں بننے پاتی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پیشاب میں ترشی شامل ہوجانے سے کیلسیئم گردوں میں نہیں جمتا، جس کی بنا پر پتھری بنتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ کولا مشروبات پینے سے منع کرتے ہیں، جس کے زیادہ پینے سے پتھری بننا شروع ہوجاتی ہے۔
غذا:
اگر آپ لحمیات (پروٹینز) زیادہ کھاتے ہیں اور اس کے ساتھ سوڈئیم اور شکر کاکھانا بھی جاری رکھتے ہیں، جب کہ کیلسیئم کم کھاتے ہوں تو پتھری بننے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
معالجین کہتے ہیں کہ آپ پھل اور سبزیاں زیادہ کھائیں۔ کیلسیئم بہت کم یابہت زیادہ نہیں کھانا چاہیے، ورنہ پتھری بننے کاخطرہ ہوجاتا ہے۔ روزانہ 10سے 12 اونس گوشت کھائیے۔ اگر غذا میں آگز الیٹ کی مقدار زیادہ ہوتو اسے کھانے سے اجتناب کیجیے، مثلاََ پالک وغیرہ۔
مٹاپا:
آپ کے طرز زندگی میں اگر بیٹھ کرکام کرنا شامل ہے تو یقینا آپ کاوزن بڑھ جائے گااور کمرکے سائز میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔ ایسی صورت میں آپ کے گردوں میں پتھری بننے کا امکان ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کابلڈ پریشر بھی بڑھ سکتا ہے۔
طبی حالات:
اگر آپ کے پیٹ کی جراحی (سرجری) ہوچکی ہے، آپ کاہضم وجذب کانظام خراب ہے اور اس میں سوزش ہوتی ہے یاآپ کو دست آتے رہتے ہیں تو ان حالتوں میں آپ کے گردوں میں پتھری بننے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔کیوں کہ کیلسیئم اور پانی صحیح طور پر جذب نہ ہونے کی صورت میں ایسے اجزا آپ کے پیشاب میں شامل ہونے لگتے ہیں، جن سے پتھری بن جاتی ہے۔
گردوں میں پتھری پڑنے کی شکایت سے دوسری بیماریاں گھیرنے لگتی ہیں، جن میں دل کی بیماریاں، ذیابیطس قسم دوم اور ہائی بلڈپریشر شامل ہیں۔ بہت سی ادویہ ایسی ہیں، جن کوکھانے سے بھی ہمیں پتھری کی شکایت ہونے لگتی ہے۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ بہت سی بیماریاں ایسی ہیں، مثلاََ شقیقہ، مرگی اور فالج وغیرہ، جن کی ادویہ کھانے سے بھی گردوں میں پتھری پڑنے لگتی ہے۔
اس کے علاوہ پینے کے پانی میں اگر فلورائڈ کی مقدار زیادہ ہوجائے ، تب بھی پتھری پڑجاتی ہے۔ بہت سے سائنس دانوں سے کیلسیئم اور حیاتین” د“ کے ضمیموں کا تعلق معلوم کرکے یہ انکشاف کیا ہے کہ خون اور پیشاب میں کیلسئیم کی سطح کے سبب بھی پتھری پڑنے کاامکان ہوجاتا ہے۔ ان کی ہدایت ہے کہ حیاتین ” د“ کے 800 بین الاقوامی یونٹ کے ضمیمے کھائیں اور کیلسیئم کے 800 سے 1200 ملی گرام کے ضمیمے روزانہ کھائیں۔ اس سے زیادہ مقدار ہرگز بڑھائیں۔
ایسے افراد جوان ضمیموں کوکافی عرصے سے کھارہے ہوں، انھیں چاہیے کہ وہ اپنے خون اور پیشاب کا معائنہ کراتے رہیں اور معالج سے مشورہ بھی لیتے رہیں۔