تحریر: اقبال زرقاش
منی لانڈرنگ سیاہ دھن کو سفید دھن میں تبدیل کرنے کا ایک ایسا عمل ہے جو کسی بھی ملک کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے۔ ہمارے ملک میں کرپشن، اسمگلنگ، دہشت گردی اور دیگر منظم مجرمانہ سرگرمیاں بشمول منشیات ، نشہ آور ادویات کی غیر قانونی خرید و فروخت، فحش کاری،غبن،بھتہ خوری، اندرون خانہ ٹریڈنگ اور سرکاری خزانہ پر شب خون مار کر حاصل کی گئی دولت کو چھپانے کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا کام عروج پرپہنچ چکا ہے۔ حکومت پاکستان اینٹی منی لانڈرنگ بل 2010 ء پاس کرچکی ہے اس کے باوجود پاکستان میں منی لانڈرنگ کا دھندہ جاری و ساری ہے۔ ہمارے سیاسی راہنماوں نے 18,000 ارب روپے کی کثیر رقوم بیرون ملک اکاونٹس میں منتقل کر رکھی ہیں سیاست دانوں کے کالے دھن کے چرچے عام ہیں ستم تو یہ ہے کہ سیاسی قوتیں ذاتی فائدے کو ملکی مفاد پر فوقیت دیتی ہیں ۔ ہمارے وزیر خزا نہ جنہیں عرف عام میں وزیر مار دھاڑ کا بھی لقب مل چکا ہے ،منی لانڈرنگ کے الزامات بھی ان کی ساکھ کو بری طرح خراب کئے ہوئے ہیں اس کے باوجود وہ ابھی تک وزیر مار دھاڑ ہی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل قومی ایکشن پلان کے تحت حکومت پاکستان کو ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے غیر قانونی ذرائع سے رقوم کو بیرون ملک ترسیل پر 64 سے زائد مقدمات درج کئے گئے ۔ 83 افراد کو گرفتار اور دس کروڑ سے زائد رقم برآمد کی گئی جبکہ دولت کی مشتبہ آمدورفت اور منی لانڈرنگ کے 57مقدمات درج کرکے 50 افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ اسٹیٹ بنک نے دس ارب مالیت کے 120 بنک اکاونٹس بھی منجمند کر دئیے۔
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ اس کام کے پیچھے سیاسی قوتیں کار فرما ہیں ، ماڈل ایان علی اس کی بدترین مثال ہے، وہ پانچ لاکھ ڈالر لے کر دوبئی جا رہی تھی ۔ منی لانڈرنگ کی اس سے قبل 2008 ء میں اس وقت گونج سنائی دی جب خانانی اینڈ کالیا کا نام سامنے آیا۔ مئی 2008ء کو حنیف کالیا، جاوید خانانی، مناف کالیا اور عاطف پولانی کو اربوں روپے مالیت کی کرنسی غیر قانونی طور پر بیرون ملک اسمگلنگ کرنے کے الزام میں گرفتارکیا گیا۔ ان کے ساتھ بینکر سید وجاہت علی، الطاف، تسلیم احمد، عارف الرحمن بھی شامل تھے۔ ملزمان پر ان بینکاروں سے ملکر سات بے نام اکاونٹس کھولے گئے اور کرنسی بیرون ملک منتقل کرنے کا الزام تھا۔ بعدا زاں انہیں بینکنگ کورٹ نے عدم ثبوت کی بنیاد پر باعزت بری کر دیا ۔ ان کی بریت کے پیچھے ناقدین کا کہنا تھا کہ اہم سیاسی لوگوں کا ہاتھ تھا۔ ایف آئی اے نے خانانی اینڈ کالیا سکینڈل میں اپنی 400 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ ڈالر سکینڈل مین 28 بیوروکریٹس اور 14 معروف سیاستدان شامل تھے ۔ منی لانڈرنگ کے حوالے سے سب سے زیادہ جن شخصیات کا نام لیا جاتا ہے وہ پاکستان کی دوبڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کا ہے جن میں نواز شریف، آصف علی زرداری پر زیادہ انگشت نمائی کی جاتی ہے اس کے علاوہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور الطاف حسین منی لانڈرنگ کے حوالے سے عالمی شہرت حاصل کر چکے ہیں۔
گذشتہ دور حکومت میں اس خبر نے بہت شہرت حاصل کی کہ منی لانڈرنگ اور ہنڈی کے ذریعے 50ارب روپے بیرون ملک منتقل کر دئیے گئے لیکن ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم بڑے مگرمچھوں کو بچانے کے لئے سرگرم رہی۔ سابق وفاقی وزیر عبدالرزاق رینٹل پاور، کوبرا سکینڈل کے اقبال زیڈ احمد، بلال ایکسچینج، اویس ایکسچینج نے اربوں روپے بیرون ملک بھیجے۔ ایساالزا م بھی عائد کیا جا رہا تھا کہ طاقتور کرداروں نے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کے تعاون سے ہونے والی انکوائیری پر اثر انداز ہو کرمرضی کے تقتیشی افسروں کو تعینات کروایا ۔ اس کیس کی تفصیلات بھی بعد میں فائلوں میں دبا دی گئیں شاید اس وجہ سے موجودہ وزیر خزانہ کو226 ارب روپے کے نئے نوٹ چھاپنا پڑے کیونکہ ملک کو 770 ارب روپے کا نقصان ہو چکا تھا۔
بدقسمتی سے ایسا ملک جس کی بنیاد اسلامی نظریاتی بنیادوں پر رکھی گئی تھی اس ملک کو ایسے حکمران اور سیاستدان نصیب ہوتے چلے آ رہے ہیں جن کا دامن کرپشن کے گند سے بھرا پڑا ہے۔ سوئٹزرلینڈ جسے کالا دھن رکھنے والوں کی جنت کہا جاتا ہے،وہاں کے 40 بنکوں میں پاکستانی سیاستدانوں اور تاجروں کا 200 ارب ڈالر کالا دھن رکھنے کا انکشاف سب کے سامنے ہے۔ میاں نواز شریف کی حکومت نے 1992 میں اکنامک لبررائزشن سیکم کے تحت پہلی مرتبہ فارن کرنسی اکاونٹ کھولنے کی اجازت دی تھی جس کے بعد اہم افراد نے پاکستان سے کالا دھن سوئس بنکوں میں رکھوانا شروع کر دیا۔
سوئس بینکنگ ایسوسی ایشن کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت تقریباً 32 کھرب ڈالر دنیا کے مختلف بنکوں میں غیر قانونی طور پر موجو دہیں جو کالے دھندوں سے جمع کئے گئے جس میں سوئس بنکوں میں 7کھرب ڈالر رکھے گئے ہیں، سوئس بنکوں میں بھارت کے 1456 ارب ڈالر کالے دھن کی صورت میں جمع ہیں ۔ سوئس بنکوں میں اکاونٹ کھولنے کے لئے سوئٹزرلینڈ جانا ضروری نہیں۔ کرنٹ اور سیونگ اکاونٹ کے علاوہ سوئس بنکس سیکڑٹ کوڈ اکاونٹ کھولنے کے لیے بھی مشہور ہیں جس میں اکاونٹ ہولڈر کا نام خفیہ رکھا جاتا ہے۔یہ اکاونٹ ایک پاس ورڈ کے ذریعے آپریٹ کیا جاتا ہے۔ سوئس قانون کے مطابق سوئس عدالت تحقیقات میں اگر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ رقوم غیر قانونی ہیں تو ملزم کے اثاثے منجمد کرکے انہیں متعلقہ حکومت کے حوالے کیا جا سکتا ہے ۔ حال ہی میں دنیا کے 51 ممالک نے برلن میں کالے دھن کی روک تھام کے لیے ایک معاہدے ملٹی لیڑل کمٹمنٹ اتھارٹی ایگریمنٹ پر دستخظ کیئے ہیں جس کے تحت بنکنگ اطلاعات کا آٹو میٹک تبادلہ 2017 ء سے شروع ہو گا۔ لیکن بدقسمتی دیکھیے کہ اس معاہدے پر دستخظ نہ کرنے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ ہمارے ملک کے تمام سیاست دان کرپشن اور لوٹ مار کے کالے دھن کو تحفظ دینے کے لیے ایک پیج پر دیکھائی دیتے ہیں۔
رینجرز کے کراچی بدامنی پر آپریشن کے دوران یہ انکشاف کہ دہشت گردوں کو سالانہ 230 ارب روپے کالے دھن سے مدد ملتی ہے پاکستانی عوام کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے کہ ہمارے سیاستدان دنیا کے کرپٹ ترین سیاستدانوں کی صف مین کھڑے ہیں ۔ موجودہ سیاستدانوں کے ہوتے ہوئے پاکستان کو کسی اور دشمن کی ضرورت نہیں ۔ پاکستان کے سب سے بڑے دشمن اس ملک کے سیاستدان او ر بیوروکریٹ ہیں جو ملک کو کنگال کر کے بیرون ملک بنکوں کو بھر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں جب تک احتساب کے ادارے خود مختار نہیں ہونگے اس وقت تک منی لانڈرنگ کا دھندہ کسی طور پر بند نہیں کیا جاسکتا۔ نواز شریف حکومت نے کالا دھن کو سفید کرنے کے لیے ایک حکم نامہ جاری کیا جس کے مطابق جن کے پاس بلیک منی کی صورت میں بے شمار وسائل ہیں حکام کی طرف سے کسی باز پرس کے بغیر اس دولت کو استعمال کرسکتے ہیں یہ اعلان ایک طرح سے حکومت کی ناکامی کا اعتراف ہے کہ نہ تو وہ فوری دہشت گردی پر قابو پا سکے اور نہ ملک میں بدعنوانی کو کنڑول کر سکے۔
وزیر ماردھاڑ ملک کی معیشت کو استحکام دینے کے بجائے دبئی میں اپنے کاروبار کو روزبروز وسعت دے رہے ہیں جبکہ پاکستان کو قرضوںکے شکنجے میں اس قدر جکڑ رہے ہیں کہ خدشہ ہے کہ کہیں ہمارے نیوکلر ایسٹس کو بھی اپنی غلط معاشی پالیسوں کی نذر نہ کر دیں اس حوالے سے وہ سیکورٹی رسک بنتے جا رہے ہیں ۔ اب پاکستانی افواج کا فرض ہے کہ وہ پاکستانی سرحدوں کے ساتھ ساتھ اندورنی خطرات پر بھی نظر رکھیںاور موجودہ سیاستدانوں پر سب کچھ نہ چھوڑیں بلکہ ملکی اثاثوں کی حفاظت کے لیے جمہوریت اور آئین کو ڈھال بناکر ملک لوٹنے والوں کا بھی ہا تھ روکیں۔
تحریر: اقبال زرقاش