تحریر : عقیل خان
انسان جب دنیا میں آتا ہے تو اس نے دنیا سے جانا بھی لازمی ہوتا ہے کیونکہ یہ دنیا فانی ہے۔دنیا میں آنے کی ترتیب ہے مگر جانے کی کوئی ترتیب نہیں ہوتی۔ جب کوئی پیدا ہوتا ہے تو وہ دنیا میں خواہ ایک سانس لے یا کئی سال جی لے مگر اس کویہ دنیا چھوڑ کر جانا ہوگا۔موت کے بارے میں قرآن پا ک میں ارشاد ہے ”ہرنفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے”۔انسان کو موت بھی مختلف طریقوںسے آتی ہے ۔اس دنیا میں بہت کم لوگوں کویہ کہتے سنا ہے کہ بس اللہ کی چیز تھی جواس نے واپس لے لی ورنہ ہر موت کا بہانہ تیارہوتا ہے کہ فلاں کو ہارٹ اٹیک ہوگیا توکوئی ایکسیڈنٹ سے مارا گیا۔یہ حقیت ہے کہ ہم سب مرنے والے کی موت کو کسی نہ کسی بہانے کا سبب بنادیتے ہیں۔
کئی بار بم بلاسٹ میں ایک ہی خاندان کے کئی افراد کو شہید ہوتے سنا ہے ۔ ایک ہی خاندان کے بہت سے افراد کو ایکسیڈنٹ میں بھی جاںبحق ہوتے دیکھا اور سنابھی ہے ۔ انسان کی زندگی میں بہت سے حادثات پیش آتے ہیںاور ان حادثات میں کچھ حادثے ایسے ہوتے ہیں جو ہمیں سبق دے جاتے ہیں مگر ہم پھر بھی ان سے سبق حاصل نہیں کرتے۔حادثات سے بچاؤ کی تدابیر بھی موجودہوتی ہیں مگر ہم پھر بھی وہی حادثات دوبارہ دہراجاتے ہیں۔کچھ حادثات ایسے ہوتے ہیں کہ جس کو چاہتے ہوئے بھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ ایسے ہی ایک حادثے نے مجھے جنجھوڑ کر رکھ دیا اور مجھے یہ دل سوزآرٹیکل لکھنے پر مجبورکیا۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ سوموار کے دن چار پانچ بجے کے دوران رینالہ خورد سے ایک نیوز آئی کہ دو معصوم بچے ٹرین کی زد میں آکر شہید ہو گئے۔ روزمرہ نیوز کی طرح اس نیوز کوبھی اپنے آن لائن نیوز نیٹ ورک پراپ ڈیٹ کرادیا۔حسب معمول میں پانچ بجے آفس سے باہر نکل آیا اور جب میںرات کوگھر آرہا تھا تو مجھے اطلاع ملی کہ جاویدکے بھانجے کا انتقال ہوگیاہے۔میں نے جاوید کو فون کیا تو وہ اور اسکی فیملی اس وقت تک جمبر سے رینالہ پہنچ چکی تھی۔اس نے مجھے بتایا کہ صرف میرا بھانجا ہی نہیںبلکہ اس کے ساتھ اُس کی کزن بھی وفات پاچکی ہے۔ جب میں نے انتقال کا سبب پوچھا تواس نے بتایا کہ دونوں بچے ٹرین کی زد میںآکر جاں بحق ہوگئے ہیں۔ جس نیوز کو میں روز مرہ نیوز کی طرح پبلش کرواکر آیا ہوں وہ نیوز اصل میں ان بچوں کی تھیں۔جب میں نے اس سے جنازے کا ٹائم معلوم کیا تو پتا چلا ابھی تو ان دونوں بن کھلے معصوم پھولوں کے باپ ہی نہیں آئے۔ بچے کا باپ ملتان گیا ہوا تھا اور بچی کا باپ اسلام آباد۔وہ آئیں گے تو پھر جنازے کا ٹائم فائنل ہوگا۔
پھر مجھے اطلاع ملی کہ ان کا جنازہ اگلے دن صبح دس بجے جعفر سٹیڈیم میں ادا کیا جائے گا۔ میں بھی جنازے میں شرکت کے لیے رینالہ چلا گیا۔جب میں پہنچا تو تھوڑی ہی دیر بعد جنازہ اٹھا لیا گیا۔ جس چیز سے میں ڈر رہا تھا اور اس کا برملا اظہار میں نے جاوید سے کر بھی دیا تھا کہ میں سیدھا جنازگاہ پہنچ جاتا ہوں مگر انہوں نے کہا نہیں تم پہلے گھر آؤ۔ اب اس کو کیا بتاتا کہ میں گھر کیوں نہیں آنا چاہتا کیونکہ جس وقت میت کو اٹھایا جاتا ہے وہ رقت آمیز لمحات میرے دل کو بہت بوجھل کرجاتے ہیں۔وہ لمحات مجھے نہ صرف آبدیدہ کرجاتے ہیں بلکہ ان لمحات کے اثرات کئی دن میرے دل پررہتے ہیں۔ لیکن میںاس کے کہنے پر گھر پہنچ گیا۔جس وقت جنازوں کو اٹھا یاگیا اس منظر کو میں اپنے الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔بچوں کے عزیز واقارب کے علاوہ وہاں پر موجود خواتین و حضرات کی آنکھیں نم تھیں۔ میں اپنی زندگی میں پہلی بار ایک گھر سے ایک ساتھ دوجنازے اٹھتے دیکھ رہا تھا۔اس سے پہلے صرف میڈیا کے ذریعے ہی سنتا تھا کہ فلاںجگہ پر ایک ساتھ اتنے جنازے اٹھے۔
جس وقت میں جنازے کے ساتھ جارہا تھا اس وقت میرے ذہن میں اس بچے(مقیت الرحمن) کی فلم ایسے چل رہی تھی جیسے میں کوئی ٹی وی دیکھ رہا ہو۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تو وہ مجھ سے مل کرگیا تھا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ ملاقات اس سے آخری ملاقات تھی۔ اگر میں اس کی باتیں لکھنے بیٹھ جاؤں تو کئی صفحات بھر سکتا ہوں۔ تقریباًاڑھائی سالہ یہ مقیط الرحمن جس اندا زمیں باتیں کرتا تھا میں بیان نہیں کرسکتا۔ اپنی توتلی زبان سے جب باتیں کرتا تھا اس کاانداز بہت دل لبھاتا تھا۔ میں ان بچوں کو مالک حقیقی کے حوالے تو کرآیا مگر اس کے بعد جومیری اپنی حالت ہوئی وہ میں جانتا ہوں یا میرا رب۔ میں سوچنے لگا کہ اللہ تعالیٰ کا نظام بھی کیا ہے ؟ انسان کو ایک ترتیب سے دنیا میں لاتا ہے مگر جب واپس بلاتا ہے تو اسکی کوئی ترتیب نہیں ہوتی۔ ابھی وہ بچے جو گود میں کھیلانے کے قابل تھے ان کو اتنی جلدی اپنے پاس واپس بلا لیا۔جب ہم سب کوان کی وفات پر اتنا دکھ ہورہا ہے تو ان کے ماں باپ اور دیگر عزیز و اقارب کے دل پر کیا بیت رہی ہوگی؟
ٹرین کے یہ حادثات آئے روز کہیں نہ کہیں ہوتے رہتے ہیں مگر حکومت کو چاہیے کہ ایسے حادثات سے بچاؤ کے لیے عملی اقدامات کرے۔ جب آرمی سکول میںدہشت گردی کا واقعہ پیش آیا تو حکومت نے تمام سکولوں کو سخت اقدامات کرنے پرمجبور کردیا ۔ پرائیویٹ سکول ہو یا گورنمنٹ ہر ایک میں سیکورٹی لازمی قرارد ے دی۔حکومت نے گورنمنٹ سکولوں میں سی سی کیمرے تک نصب کرادیے مگر ٹرین کے حادثات کی روک تھام کے لیے کیوں کوئی اقدام نہیں اٹھا رہی۔ اگرحکومت چاہیے تو ایسے حادثات کی روک تھام کرسکتی ہے۔ حکومت کوچاہیے کہ جن آبادی میں سے ریلوے ٹریک گزررہی ہے وہاں پر جنگلے لگائے تاکہ دوبارہ کسی ماںکی گود نہ اجڑے، کسی بہن کا بھائی جدا نہ ہو۔اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ دکھ اس کو ہی ہوتا ہے جس کوچوٹ لگتی ہے مگر دوسرے کا دکھ بانٹنا بھی ثواب کا کام ہے ۔اسی لیے حکومت کوصرف اپنے لیے ہی نہیں سوچنا چاہیے بلکہ اپنے دوسرے بہن بھائیوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔
تحریر : عقیل خان
aqeelkhancolumnist@gamil.com