counter easy hit

تحفظ خواتین قانون اورتحفظ زوجین

Women, Violence

Women, Violence

تحریر: محمد صدیق پرہار
یہ بات توسب کہتے ہیں کہ مرد خواتین پر تشدد کرتے ہیں۔ اس تشدد کے خاتمے کیلئے سماجی تنظیمیں بھی کام کررہی ہیں۔خواتین کے دن مناکر ان پرتشدد کی مذمت کی جاتی ہے۔ہرفورم پر عورت کومظلوم بناکرپیش کیاجاتا ہے۔اس تشدد کے خاتمہ کیلئے اسمبلیوںمیںبل بھی پاس کرائے جاتے ہیں۔یہ بات غلط بھی نہیں ہے۔ کچھ مردایسے بھی ہوتے ہیں جو خواتین کوتشدد کانشانہ بناتے ہیں۔خواتین کوجان سے ماردینے کی خبریں بھی آپ اخبارات میںپڑھتے رہتے ہیں۔یہ سب وہ باتیں ہیںجن کاچرچاہرفورم پرکیا جاتا ہے۔ملکی قوانین بھی عورت کاہی دفاع کرتے ہیں۔خواتین پرتشدد کاپرچارکرنے والے، خواتین پرتشدد کے خاتمہ کی بات کرنے والے، خواتین تشدد پرقانون سازی کرنے والے، مردوںکوکڑے پہنانے کے قانون منظورکرنے والے یہ بات نظراندازکردیتے ہیں کہ خواتین بھی مردوںپرتشدد کرتی ہیں۔ خواتین پرتشدد کی بات توبہت سے کرتے ہیں مردوںپرخواتین کے تشدد کی بات اسمبلیوںمیں سیمینارزمیںکسی بھی فورم میںکوئی نہیں کرتا۔

ذیل میں چندایسی خبریں شامل تحریر کی جارہی ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس معاشرہ میںمردوں کے ساتھ خواتین کیاسلوک کرتی ہیں۔ایک قومی اخبارمیں گجرات سے خبرہے کہ محلہ رنگپورہ کے رہائشی تیس سالہ() کی شادیدوماہ قبل شاہدولہ روڈکی() سے ہوئی۔مکان نام نہ کرنے پردلہن روٹھ کرمیکے چلی گئی۔ جسے منانے کیلئے شوہرسسرال گیا توجھگڑاہوگیا۔ دلہن نے اپنے بھائی() کے ساتھ مل کرپٹرول چھڑک کرخاوندکوآگ لگادی۔جسے تشویشناک حالت میں عزیزبھٹی شہیدہسپتال منتقل کیاگیا۔اسی اخبارمیں سرائے عالمگیرسے خبرہے کہ موضع کھدریال کے رہائشی بائیس سالہ نوجوان () نے گھریلوجھگڑے سے دلبرداشتہ ہوکرنہر اپرجہلم کے کنارے درخت سے لٹک کراپنی زندگی کاخاتمہ کرلیا۔ایک اورتاریخ کے اسی اخبارمیں خبر ہے کہ مقامی وکیل کامنشی جتوئی روڈکے رہائشی () نے دو شادیاں کررکھی تھیں۔گھریلوجھگڑوںکی وجہ سے دونوں بیویاںناراض ہوکرمیکے گئی ہوئی تھیں۔گھروالے رات کاکھانا دینے گئے تودیکھاکہ () کی لاش پنکھے سے لٹک رہی ہے۔ایک اورقومی اخبارمیں خبرہے کہ مظفرگڑھ کارہائشی ٢٥ سالہ ()جوکہ موضع خیرپورکھڈالی میںاپنے ماموں() کے گھرآیااورروٹھ کرمیکے بیٹھی بیوی کولانے کیلئے منت سماجت کی جس پراس کے ماموں() نے کہا کہ تمہارے والدین کے کہنے پربیوی گھرآبادنہ ہوئی ہے تومیرے کہنے پرکیسے رضامندہوگی جس سے دلبرداشتہ ہوکرپچیس سالہ () نے نزدیکی باغ میں لگے درخت سے لٹک کرخودکشی کرلی۔ایک اورقومی اخبارکی خبرکے مطابق ہارون آبادکے () کی بہن() نے الزام عائدکرتے ہوئے کہا ہے کہ تین روزقبل () کی شادی ()سے ہوئی۔

تاہم ولیمے کے بعددلہن میکے کے ساتھ مکلاوے پرچلی گئی۔جسے دوسرے روزدولہا اوراس کی بہن() واپس لینے گئے تودلہن اورورثاء نے مبینہ طور پر دولہا کو زہر دے کر پانچ تولے سونااورتین لاکھ روپے ہتھیاکرفرارہوگئے۔اورجاتے ہوئے دولہا کی بہن کوبھی اغواکرکے لے گئے۔رحیم یارخان سے خبر ہے کہ روٹھ کرمیکے بیٹھی بیوی کے واپس آنے سے انکارپرتیس سالہ جوان() نے پسٹل سے فائرمارکر خودکشی کرلی۔ایک اورقومی اخبارمیں بھکرسے خبرہے کہ پھلووالہ کے رہائشی () نے درخواست گزاری کہ میرے بھائی کو() اس کی بیوی نے اپنے آشناکے ساتھ مل کردودھ میں کالاپتھرملاکرقتل کیا ہے۔یہ بات ذہن میں رہے کہ خواتین پرتشدد کی خبریں میڈیاپرزیادہ آتی ہیں جبکہ مردوںپرتشدد کی خبروںکاتناسب واقعات سے بہت کم ہوتا ہے۔تونسہ میں سہاگ رات دلہن نے دولہا کوبازارسے بوتل لانے کیلئے کہا ۔دولہا بوتل لینے گیا توگھات میں بیٹھے بدمعاشوں نے اس پرحملہ کرکے اسے قتل کردیا۔ہم نے ایک نیوزچینل پرایک شوہرکوبیوی کومنانے کیلئے پائوں پڑتے ہوئے دیکھا تھا ۔ہم بھی اس بات سے متفق ہیں کہ خواتین پرتشدد نہیںہونا چاہیے ۔ دوسری جانب اس تشدد کے خاتمہ کی بات کرنے والوںکومردوںپرتشدد دکھائی ہی نہیں دیتا۔پنجاب اسمبلی میںمنظورکردہ بل میںکہا گیا ہے کہ خاتون پرتشدد کرنے والے مردکودودن کیلئے گھرسے نکالاجاسکے گا۔عورتوںپرتشد د کرنے والے مردوں کوعدالتی حکم پرٹریکنگ کڑے لگائے جائیں گے۔ٹریکنگ سسٹم اتارنے پرمردوںکوایک سال قید پچاس ہزارسے دولاکھ روپے تک سزاہوسکے گی۔یہ بل یکطرقہ ہے۔جوخواتین مردوںپرتشدد کرتی ہیں انہیں اتناتنگ کرتی ہیں

کہ وہ زندگی سے مایوس ہوکرخودکشی کرلیتے ہیں ۔ ایسے کڑے ایسی خواتین کوبھی پہنائے جائیں۔یہ کڑے اتارنے پرعورت کوبھی اتنی ہی سزادی جائے جتنی مردکودی جائے گی۔جومردعورت پرتشدد کرے اسے توگھرسے دودن کیلئے نکال دیا جائے اورجوخاتون مردپرتشدد کرے اسے بھی توگھرسے نکال دیناچاہیے۔بل میں (جواب قانون بن چکا ہے) خواتین پرگھریلوتشدد ،معاشی استحصال، جذباتی، نفسیاتی بدکلامی اورسائبرکرائمز شامل ہیں۔معاشی استحصال مردہی نہیں خواتین بھی کرتی ہیں۔بدکلامی مردہی نہیں عورتیں بھی کرتی ہیں۔عورت کے پاس پچاس ہزارروپے بھی ہوں گے وہ اپنی شیمپوبھی خاوند کے پیسوں سے خریدے گی۔ چاہے اس کے پاس بیس سوٹ بھی پڑے ہوئے ہوں اوران میں ایسے سوٹ بھی شامل ہوں جن کواس نے ایک یادوبارہی پہنا ہوتووہ کسی بھی تقریب میںجانے کیلئے نئے سوٹ کامطالبہ ضرورکرے گی شوہرکے مالی حالات کیسے بھی ہوں وہ جہاں سے کرے جیسے کرے اس کیلئے سوٹ ضرورلے آئے۔شوہرسارادن محنت مزدوری کرکے تھکاہارا گھرآئے اسے وقت پرپانی بھی نہ ملے ۔ گھرآتے ہی اس کی تھکاوٹ میں اوراضافہ ہوجاتا رہے تووہ کب تک برداشت کرے گا۔ گھریلو تشدد کاشکارہونے والی خواتین کے تحفظ کیلئے شیلٹرہوم بنائے جائیں گے ۔خواتین پرتشدد کی شکایت کیلئے ٹال فری نمبرقائم کیاجائیگا۔

اورخواتین کی شکایات کی تحقیقات کیلئے ڈسٹرکٹ پروٹیکشن کمیٹی بنائی جائے گی۔ ایسی ہی پروٹیکشن کمیٹیاں مردوں پرتشدد کے حوالے سے بھی بنائی جائیں۔جبکہ مصالحت کیلئے سینٹرزبھی قائم کیے جائیں گے۔تشددزدہ خاتون کواس کی مرضی کے بغیرگھرسے نہیںنکالا جاسکے گا۔اس کے تمام اخراجات مرد اٹھائے گا۔نان نفقہ اداکرنے سے انکارپرتشدد کے مرتکب مردکی تنخواہ سے کٹوتی کی جائے گی۔یہ بات عجیب ہے کہ تشدد زدہ خاتون کواس کی مرضی کے بغیرگھرسے نہیں نکالاجاسکے گا۔ پھراس کے اخراجات مرد اٹھائے گا۔ جب وہ رہے گی ہی مردکے گھرمیںتوصاف ظاہرہے اخراجات پہلے بھی وہی اٹھاتا ہے اب بھی وہی اٹھائے گا۔جوخاتون اپنی مرضی سے گھرچھوڑ کرمیکے پہنچ جائے اس کے اخراجات مردسے وصول نہ کیے جائیں۔اکثرخواتین جب گھروں سے اپنی مرضی سے نکلتی ہیں پھرالزام شوہرپرلگادیتی ہیں کہ شوہرنے اسے تشدد کانشانہ بنایا پھر گھرسے نکال دیا۔ہم ایسے جوانوںکوبھی جانتے ہیں کہ ان کی بیویاں جس وقت گھروں سے نکل کرمیکے گئیں تووہ گھرمیں تھے ہی نہیں۔ جبکہ عدالت میں دائر تنسیخ نکاح کے مقدمہ میں لکھ دیاگیا کہ شوہرنے گھرسے نکال دیا۔آئندہ تنسیخ نکاح یاجہیزواپسی کاکوئی بھی کیس عدالت میں دائرہواوراس میں یہ لکھاگیا ہوکہ شوہرنے گھرسے نکال دیا ہے توسب سے پہلے یہ تحقیقات کرائی جائیں کہ جس وقت خاتون گھرسے نکلی یانکالی گئی اس وقت شوہرکہاں تھا۔کیا وہ واقعی گھرمیںتھا۔ مزدوری پرگیا ہواتھا۔

اپنی دکان، دفتر،فیکٹری ،ورکشاپ یاکسی اورجگہ تھا۔اس تحقیق میں عورت جھوٹی ثابت ہوجائے تواس پردوسال کیلئے شوہرکی اجازت کے بغیرگھرسے باہرقدم رکھنے پرپابندی لگادی جائے۔ضلعی افسرتحفظ خواتین متاثرہ خاتون کوبچانے کی غرض سے کسی بھی وقت کسی بھی جگہ داخل ہوسکے گی۔حفاظتی افسرسے مزاحمت کرنے والے کوچھ ماہ قیداورپانچ لاکھ روپے جرمانہ یادونوں سزائیںہوسکیں گی۔اگرکوئی خاتون غلط شکایت درج کرائے گی تواسے تین ماہ قید پچاس ہزارروپے جرمانہ یادونوں سزائیں دی جائیں گی۔اگرمدعاعلیہ عبوری آرڈر،پروٹیکشن آرڈروغیرہ کی حکم عدولی کرے گاتواسے ایک سال قیدیاپچاس ہزارروپے سے دولاکھ روپے تک جرمانہ یادونوں سزائیںہوسکیں گی۔سزاسے متاثرہ شخص تیس دن میں سزاکے خلاف اپیل کرسکے گا۔حکومت اس قانون کے تحت پروٹیکشن سسٹم کی کارکردگی وقتاًفوقتاًآڈٹ کرائے گی۔حکومت مالی سال کے اختتام پرتین ماہ کے اندرپروٹیکشن سسٹم کی سالانہ رپورٹ صوبائی اسمبلی میں پیش کرے گی۔پنجاب اسمبلی میںمنظورشدہ تحفظ خواتین بل سے گھروںمیں موجودلڑائی جھگڑوںمیں اوربھی اضافہ ہوجائے گا۔اس بل میںمردکے حق میں صرف ایک ہی شق ہے کہ جوخاتون غلط رپورٹ درج کرائے گی تواسے سزادی جائے گی۔ یہ سزابھی مردوں کے مقابلے میںکم رکھی گئی ہے۔جس طرح عورت کومردکے تشدد کے خلاف شکایت درج کرانے کی سہولت دی گئی ہے یہی سہولت مردکوبھی دی جانی چاہیے کہ وہ بھی عورت کے تشدد کیخلاف شکایت درج کراسکے ۔اس میں تشدد کی بات کی گئی ہے جوکہ نامکمل ہے۔اس میں یہ ہوناچاہیے کہ جومردبلاوجہ عورت کوتشدد کانشانہ بنائے گااس کیخلاف کارروائی کی جائے گی۔ شاذونادرہی کوئی ایسا مردہوگا جوبلاوجہ اپنی بیوی پرتشدد کرتاہوگا۔خواتین بھی اس تشدد سے بری الذمہ نہیں ہیں۔جوچیزدس روپے میںمل سکتی ہواوراس سے ضرورت بھی پوری ہوسکتی ہو۔

یہ کہتی ہیں کہ ہم نے تووہی چیزدوسوروپے والی لینی ہے۔اب بتائیں یہ بلاوجہ شوہرکوتنگ کرنانہیں تواورکیا ہے۔سوشل میڈیاپرایک لطیفہ گردش کررہا ہے ۔ کہ ایک خاتون دعامانگتے مانگتے خاموش ہوگئی۔ ساتھ ہی اس کاشوہربیٹھا تھا اس نے کہا کہ دعامانگتے مانگتے خاموش کیوںہوگئی وہ کہنے لگی کہ میں دعامانگ رہی تھی کہ یااللہ میرے شوہرکی تمام پریشانیاں ختم کردے پھرمیںنے سوچا کہ سب سے بڑی پریشانی تومیںخودہوںکہیں میں ہی نہ مرجائوں۔ ہماراایک دوست ہے جواکثرہمارے پاس آتارہتا ہے ۔ وہ بیوی کی بدسلوکی کی وجہ سے وہ زیادہ تروقت گھرسے باہرگزارتا ہے۔رات کودیرسے گھرجاتا ہے اورصبح طلوع آفتاب سے پہلے گھرسے نکل جاتا ہے۔ہم ایک روزدن چڑھے ایک دوست کوفون کرتے رہے دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آرہا تھا۔ایک گھنٹہ بعد اس نے رپلائی کیا اورپوچھا کہ خیریت تھی اتنی کالیںآئی ہوئی تھیں۔ہم نے اسے جوبات کہنا تھی وہ کہی۔چنددنوں کے بعدایک ہوٹل میں اس سے ملاقات ہوئی توہم نے اس سے پوچھا کہ فون کیوںنہیں اٹھارہے تھے۔اس نے جوکہانی بتائی وہ اس تحریرمیں لکھ دی جائے توبہت سوںکی دل آزاری ہوگی۔ بہت سے مردیہی سمجھیں گے کہ یہ میری ہی کہانی لکھی ہوئی ہے۔

اب آپ پوچھیں گے کہ وہ متاثرہ کون ہیں تویہ ہم نہیںبتائیں گے کیونکہ دونوںمتاثرین ِبیوی کی بھی عزت نفس ہے۔ یہ ان دوکی ہی نہیں بہت سے گھروںکی یہی کہانی ہے۔ باہرکے کام بھی مردکرے اورگھرکے کام بھی مردکرے۔اس قانون کے بعدتوخواتین مردوں سے اوربھی زیادہ کام کرائیں گی۔مردوںکوکڑے پہنانے کاقانون منظورکرنے والے اتناہی سوچ لیتے کہ جس شخص کوکڑالگا ہوگا وہ گھرسے باہرکیسے نکلے گا ۔وہ لوگوں کاسامناکیسے کرے گا۔چلواس کاحل بھی نکل آتا ہے کہ کڑاچھپاکرپہنایاجائے ۔ وہ لیٹرین میں کیسے جائے گا۔جبکہ کڑااتارنے پربھی سزامقررکی گئی ہے۔یہ کڑاضروری بھی ہے توتمام وزرائ، سیکرٹریوں، تمام سرکاری ملازمین،بڑے بڑے تاجروں، تمام سیاستدانوں ،فیلڈ ورکروں کوبھی لگایا جائے تاکہ ان کی کارکردگی پرلائیونظررکھی جاسکے۔تحفظ خواتین قانون پرنظرثانی کرکے اسے تحفظ زوجین قانون بنایاجائے۔خواتین کے ساتھ ساتھ مردوںکاتحفظ بھی یقینی بنایا جائے ۔مردوں کوبے توقیرکرنے کاسلسلہ بندہوناچاہیے۔جوخواتین شوہرکی وفاداری نہ کریں ان کیخلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔نئے نئے قوانین بنانے سے بہتر ہے کہ اسلام نے جوحقوق وحدودمقررکررکھی ہیں ان پرعمل کرایا جائے۔علماء سے پوچھیں کہ جوخواتین مردوںکی بات نہیںمانتیں احادیث مبارکہ میںان کیلئے کیا کیاوعیدیں آئی ہیں۔

Siddique Prihar

Siddique Prihar

تحریر: محمد صدیق پرہار
siddiqueprihar@gmail.com