تحریر : محمد شاہد محمود
سعودی فرما نرواشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز طویل علالت کے بعد 91 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ،شاہ عبداللہ پھیپھڑوں کے عارضے کے باعث سانس کی تکلیف میں مبتلاء اورکئی ہفتوں سے ہسپتال میں زیر علاج تھے ۔شاہ عبداللہ کے انتقال پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں افسوس کا اظہار کیا ہے۔صدر ممنون حسین اور وزیراعظم نے سعودی فرمانروا شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز کے انتقال پر گہر ے دکھ اور افسوس کا اظہا ر کیا ہے ،وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ ہے شاہ عبد اللہ کے انتقال سے پاکستان ایک اچھے اور بہترین دوست سے محروم ہو گیا ہے خادم الحرمین الشریفین کی حیثیت سے شاہ عبد اللہ کا پاکستانی عوام کے دلوں میں خاص مقام تھا دکھ کی اس گھڑی میں پوری پاکستانی قوم سعودی شاہی خاندان کیساتھ ہے اور ان کے غم میں برابر کی شریک ہے ،وزیر اعظم نے گذشتہ ہفتے عمرے کی ادائیگی کے دوران شاہ عبد اللہ کی عیادت بھی کی تھی ،
صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز کے انتقال سے عالم اسلام درد مندر رہنما سے محروم ہو گیا ، شاہ عبد اللہ بن عبدالعزیز کے انتقال سے پیدا ہونیوالا خلا پورا نہیں ہو سکے گا۔فلسطینی صدر محمود عباس نے بھی شاہ عبداللہ کے انتقال پر شاہی خاندان سے تعزیت کا اظہار کیاہے۔شاہ عبداللہ کے انتقال پر سعودی عرب کے شاہی خاندان کو دنیا بھر سے تعزیتی پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔وزیر اعظم محمد نواز شریف نے قومی سطح پر ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا ۔ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے انتقال کی خبر پھیلتے ہی عالم اسلام میں غم کی لہر دوڑ گئی۔ ان کی نماز جنازہ سعودی دارالحکومت ریاض کی امام ترکی بن عبداللہ مسجد میں جمعہ کو بعد نماز عصر ادا کی گئی۔ عبداللہ بن عبدالعزیز کو آبائی قبرستان میں والد عبدالعزیز بن السعود کی قبر کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔
نماز جنازہ میں نئے فرماں روا سلمان بن عبدالعزیز، نئے ولی عہد مقرن بن عبدالعزیز، شاہی خاندان کے دیگر افراد، وزیر اعظم محمد نواز شریف، پنجاب کے وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف، وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی، یمن، ایران اور خلیجی ممالک کے سربراہان مملکت اور ہزاروں شہریوں نے شرکت کی۔ بعد ازاں شاہ سلمان بن عبدالعزیز، ولی عہد شہزادہ مقرن اورنائب ولی عہدمحمد بن نائف بن عبدالعزیز کی بیعت کی تقریب شاہی محل میں منعقد ہوئی۔ مفتی اعظم شیخ عبد العزیز آل الشیخ نے بیعت لی۔ سعودی عرب کے بانی عبدالعزیز بن سعود کی 22 بیویاں تھیں، ان میں سے 17 بیویوں کے ہاں 45 بیٹے پیدا ہوئے، اب السعود کے شاہی خاندان کے شہزادوں کی تعداد 7 ہزار سے بھی زائد ہو چکی ہے۔عبدالعزیز بن سعود نے 1932ء میں آج کے سعودی عرب کی بنیاد رکھتے ہوئے خود کو بادشاہ قرار دیا۔ آل سعود ہی نے تیل کی دولت سے مالا مال اس خلیجی ملک کو سعودی عرب کا نام دیا۔ سعودی عرب کے حکمران خاندان کے شہزادوں اور شہزادیوں کے پاس دولت کی کمی نہیں۔ وفات پا جانے والے شاہ عبداللہ کا تعلق بھی السعود خاندان سے تھا۔ السعود خاندان کا تعلق 18 ویں صدی میں جزیرہ نما عرب کے ایک مقامی شیخ سعود بن محمد سے ملتا ہے۔سعودی عرب دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کا نام دو صدیاں پہلے پیدا ہونے والے مقامی حکمران پر رکھا گیا ہے۔ شیخ سعود کے بیٹے محمد نے 1744ء میں مذہبی عالم محمد بن عبدالوہاب سے اتحاد کر لیا۔ محمد بن عبدالوہاب ہی نے ”خالص اسلام کی واپسی” کا نعرہ لگایا۔
بعدازاں سعود بن محمد کی نسل کو 1818ء میں عثمانی افواج (ترکی) کے ہاتھوں شکست ہوئی لیکن اس کے 6 برس بعد ہی سعود خاندان نے صحرائی طاقت کے مرکز ریاض پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا۔ 1902ء میں عبدالعزیز بن سعود نے ریاض سے اپنے حریف راشدی قبیلے کو بے دخل کرتے ہوئے اپنی طاقت کو مزید مستحکم بنا لیا۔اس کے بعد عبدالعزیز نے مختلف قبیلوں سے لڑائی جاری رکھی اور انہیں شکست دیتے ہوئے بہت سے علاقوں کو متحد کر دیا۔ یہ سلسلہ جاری رہا اور 1913ء میں خلیجی ساحل کا کنڑول حاصل کر لیا۔ دوسری جانب 1918ء میں سلطنت عثمانیہ کو سعودی عرب میں شکست ہوئی اور سلطنت عثمانیہ کے خلاف لڑنے والے حسین بن علی آخری شریفِ مکہ قرار پائے۔ شریفِ مکہ کا منصب فاطمینِ مصر کے دور میں 967ء میں قائم کیا گیا تھا۔ شریف مکہ کا منصب رکھنے والی شخصیت کی بنیادی ذمہ داری مکہ اور مدینہ میں عازمین حج و عمرہ کا انتظام و انصرام ہوتا تھا۔ حسین بن علی کے شریف مکہ بننے کے بعد 1924ء میں عبدالعزیز بن سعود نے اپنے حملے تیز کر دیئے اور آخر کار 1925ء حسین بن علی کو بھی اقتدار سے بے دخل کر دیا۔ عبدالعزیز بن سعود نے 1932ء میں آج کے سعودی عرب کی بنیاد رکھتے ہوئے خود کو بادشاہ قرار دیا۔
اس کے بعد عبدالعزیز بن سعود کی طاقت میں اس طرح بھی اضافہ ہوا کہ انہوں نے بہت سے قبائلی سرداروں کی بیٹیوں سے شادیاں کیں۔شاہ عبداللہ نے 2005ء میں شاہ فہد کے انتقال پر عہدہ سنبھالا تھا جبکہ وہ 1962ء میں سعودی نیشنل گارڈ کے کمانڈز منتخب ہوئے تھے۔وہ 1961ء میں مکہ کے میئر رہے ہیں جبکہ 1975ء میں شاہ خالد نے نائب وزیراعظم مقرر کردیاتھا۔انہیں دنیا کا آٹھوں طاقتور ترین شخص سمجھا جاتاتھا۔شاہ عبداللہ کو خواتین کے حقوق کے سلسلے میں بہترسربراہ مملکت تصور کیاجاتاہے ، انہوں نے خواتین کو ووٹ ڈالنے اور اولمپکس کھیلنے کا حق دیاتھا جبکہ امریکہ و برطانیہ کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے اور اربوں ڈالر کے دفاعی سازوسامان کی خریداری سمیت مختلف معاہدے کیے۔دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف سعودی عرب کے مرحوم فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی خدمات مملکت کی تاریخ کا نمایاں حصہ ہیں۔ مرحوم کا شمار ان اہم عالمی قائدین میں ہوتا ہے دہشت گردی کے خلاف جن کا موقف واضح، سخت اور دو ٹوک تھا۔ دہشت گردی کے حوالے سے انہوں نے کبھی حیل وحجت سے کام نہیں لیا۔ عرب ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق 2005 میں زمام حکومت سنبھالنے کے بعد دہشت گردی کے خلاف اندرون اور بیرون ملک میں انہوں نے موثر کردار ادا کیا اس مقصد کے لئے مرحوم نے انسداددہشت گردی کا عالمی مرکز قائم کیا اور ریاض میں دہشت گردی کے خلاف عالمی کانفرنس کی میزبانی کی۔ شاہ عبداللہ نے دہشت گردوں کو نہایت سخت الفاظ میں مخاطب کیا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد مجرم، سفاک اور ہر قسم کی انسانی اخلاقیات سے عاری لوگ ہیں۔ سعودی عرب اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں دہشت گردی کی بیخ کنی کے لیے شاہ عبداللہ نے دہشت گردی کو بین الاقومی جرم قرار دینے کے لیے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی برادری کی صفوں میں اتحاد پیدا کیا۔ اسی سلسلے میں انہوں نے سنہ دو ہزار پانچ میں دہشت گردی کے خلاف ریاض میں عالمی کانفرنس بلائی اور خود اس کی میزبانی کی۔ ریاض میں انسداد دہشت گردی مرکز کا قیام بھی انہی کے ذہن رسا کا نتیجہ تھا۔ انسداد دہشت گردی مرکز کو عالمی سطح پر رابطے اور معلومات کے تبادلے کا ایک ذریعہ بنایا گیا۔ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام دہشت گردی کے خلاف عالمی معاہدے پر دستخط کرنے میں شاہ عبداللہ پیش پیش رہے۔ اسلام آباد میں واقع فیصل مسجد اور پنجاب کے شہر فیصل آباد کا نام سعودی شاہ فیصل کے نام پر ہی رکھا گیا۔
اس کے بعد سعودی عرب کی حکمرانی شاہ فیصل کے سوتیلے بھائی شاہ خالد کے حصے میں آئی اور وہ 1982ء میں اپنی وفات تک حکمران رہے۔ اس کے بعد شاہ فہد حکمران بنے اور انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنی عمر سے دو سال چھوٹے شاہ عبداللہ کو ولی عہد مقرر کر دیا تھا۔ 1995ء میں شاہ فہد پر فالج کا حملہ ہوا، جس کے بعد عملی طور پر زیادہ تر فرائض شاہ عبداللہ ہی سرانجام دیتے رہے۔ 2005ء میں شاہ فہد انتقال کر گئے اور ان کی جگہ شاہ عبداللہ نے لی۔جمعہ کو انتقال کرنے والے شاہ عبداللہ کی جگہ ان کے سوتیلے بھائی سلمان بن عبدالعزیز نے لے لی ہے۔سعودی عرب کے نئے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کی عمر 79 برس ہے اور انہیں مرحوم شاہ عبداللہ نے 2012 میں ولی عہد اور ملک کا وزیرِ دفاع مقرر کیا تھا۔ وہ اس سے قبل پانچ دہائیوں تک دارالحکومت ریاض کے گورنر بھی رہے تھے۔سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ سلمان بن عبدالعزیز نے نائب ولی عہد شہزادہ مقرن کو اپنا جانشین اور ولی عہد مقرر کردیا ہے اور شاہی خاندان میں نامزدگیوں کی نگران کونسل سے اس تقرری کی توثیق کرنے کی درخواست کی ہے۔71 سالہ شہزادہ مقرن مملکتِ سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز السعود کے سب سے چھوٹے صاحبزادے ہیں اور گزشتہ دو برسوں سے مملکت کے نائب وزیرِاعظم کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔انہیں گزشتہ سال مارچ میں شاہ عبداللہ نے ملک کی تاریخ میں پہلی بار نائب ولی عہد مقرر کیا تھا۔ شہزادہ مقرن سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ رہنے کے علاوہ مدینہ اور شمال مغربی صوبے حائل کے گورنر اور شاہ عبداللہ کے خصوصی مشیر بھی رہ چکے ہیں۔
تحریر : محمد شاہد محمود