تحریر: میر افسر امان
آجکل ہمارے سامنے دو کردار ہیں ایک بادشاہ اور ایک فقیر کا۔دونوں میں سے نہ تو کوئی حقیقی بادشاہ ہے نہ حقیقی فقیر۔ ان دونوں کے کردار ان کو بادشاہ اور فقیر بناتے ہیں۔بادشاہ حکومت پاکستان کا منتخب وزیر اعظم ہے۔ اس کے پاس غریب عوام سے حاصل کردہ ٹیکس کے وسائل ہیں جسے وہ بے دریخ اپنی جان پر استعما ل کر رہاہے۔ اخباری خبروں کے مطابق بادشاہ کی ذاتی محل نماء رہائش گاہ جاتی امرا کی سڑکیں حکومت کے فنڈ سے بنائی گئی ہیں۔ محل میں بے تہاشا قیمتی گھریلو سازو سامان ہے۔ عوام اکثر ٹی وی کے ذریعے مشاہدہ رہتے ہے۔ بادشاہ کی سیکورٹی کے لیے کروڑوں روپے بھی حکومتی خزانے سے خرچ ہوتے ہیں۔
جبکہ فقیر غریبوں کا چنا ہوا ہے۔ کراچی کے گنجان علاقے مٹھادر کی تنگ گلیوں میں اپنے خدمتِ خلق کے آفس کی بلڈنگ کی چھت پر ایک کمرے کے مکان میں رہتا تھا۔ جس میں ایک چارپائی ،چادر ،تکیہ اور واش روم کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس کا بھی مشاہدہ عوام کو اس کے مرنے کے بعد ٹی وی کے ذریعے پتہ چلا ۔ اس کی کوئی ذاتی سیکورٹی نہیں تھی بلکہ یہ گولیوں کی گن گرج کے دوران انسانی لاشیں اُٹھا تا رہا ہے۔اس کو خدمت ِ خلق کے لیے کبھی بھی حکومتی خزانے سے فنڈ ملا، نہ ہی اس نے اپنے اوپر کچھ خرچ کیا۔ فقیر نے ایدھی ویلفیئر سینٹرز پورے ملک میں قائم کیے جو غریبوں کی مدد کے کام کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ جانداروں، جس میں زخمی گھوڑے ،گدھے ، کتے اور پرندے شامل ہیں۔فقیر بھیک مانگ کر انسانیت کی خدمت کرتا رہا۔بادشاہ حکومت کے اداروں کا سربراہ ہے جس کے ذریعے عوام کی خدمت کرنا مقصود ہے۔مگر حزب اختلاف کہتی رہی ہے کہ وہ مہینوں پارلیمنٹ میں نہیں آتے۔ اُس نے اپنی قابینہ بھی بنائی ہوئی ہے جس کے اجلاس بھی مہینوں نہیں ہوئے بلکہ بیرونی ملکوں کے دوروں میں مصروف رہے۔
عوام کی خدمت کیا کرتے؟۔ فقیر نے پاکستان اور دنیا بھر میں ایدھی فاوئڈیشن کے تحت خود درجنوں فلاحی ادارے بنائے جن میں ایدھی سنٹر،جھولہ، پاگل خانہ،ایدھی ولیج،ایدھی چائلڈ سنٹر، یتیم خانے، اولڈ ایج ہائوس، منشیات کے عادی افراد کی بحالی، بلڈ بنک ،بیوہ خواتین کی دیکھ بھال، بحری سروس، حتیٰ کہ زخمی جانداروں کا ادارہ بھی شامل ہیں۔فقیر ان اداروں کو کامیابی سے چلاتا رہا۔ان اداروں کی باقاعدگی سپرویژن کرتا ہے جس کی گواہی ان اداروں میں رہنے والے مصیبت زدہ لوگوں نے میڈیا میں دی اور لوگوں نے اسے فخرر ِپاکستان اور فخرِ انسانیت کے اعزاز دیے۔ بادشاہ نے مسلمانوں کے دشمن مودی سے اپنی عوام کے جذبات کا خیال نہ رکھتے ہوئے دوستی کی۔ اس کی ماں کو ساڑی کا تحفہ دیا اور خود اس سے تحائف وصول کیے۔
فقیر نے اسے مسلمانوں کا دشمن سمجھا۔ایک ہندو بچی کی برسوں پرورش کے عوض جب مودی نے ایک کروڑ روپے عظیہ دینے کا اعلان کیا تو پاکستانی عوام کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے دشمن سے پیسے لینے سے انکارکردیا۔بادشاہ دل کے آپریشن کے لیے ایک ماہ سے زائد لندن میں رہائش پذیر رہے اور مہنگے ہسپتال اور ڈاکٹروں سے علاج کروایا۔اللہ نے صحت دی تو حکومت کے جہاز جو پاکستان سے بادشاہ کو لینے گیا جس کو خصوصی طور پر تیار کیا گیا تھا واپس آیا۔ اخباری خبروں کے مطابق اس پر غریب عوام کے٣٠ کروڑ کے خرچ ہوئے ۔لاہور ایئر پورٹ پر ٤ ہیلی کاپٹرز ،ایک باشاہ کو لے کر جاتی امرا گیا اور تین ہیلی کاپٹرز میں بادشاہ کا سامان پہنچایا گیا۔
لاکھوں لاوارث غریبوں کا علاج معالج کروانے والافقیر جس کے گردے فیل ہو گئے مگر اس نے علاج کے لیے باہرجانے سے انکار کر دیا اور اپنے ملک میں ہی کراچی کے کڈنی سینٹرز میں علاج کرایا اور اللہ کو پیارا ہو گیا۔ جبکہ اس کے بیڑے ،جس میں سیکڑوں ایمبولینس اور ایک جہاز اور دو ہیلی کاپٹر موجود ہے جو صرف اور صرف غریبوں کی خدمت کے لیے وقف ہیں ان کو فقیر نے کبھی بھی ذاتی استعمال میں نہیں لائے۔بادشاہ کے پاس ،اس کے محل جاتی امرا میں جب پیپلزپارٹی کے زرداری صاحب تشریف لائے تھے تو ان کی ضیافت کے لیے٧٠ قسم کے کھانے تیار کیے گئے تھے۔ فقیر جب اپنے قائم کردہ اداروں کے دوروں پر جاتا تھا تو ان کی راولپنڈی کے ایک ادارے کی ملازم خاتون کے ٹی وی انٹر ویو کے مطابق صبح ایک روٹی، ایک کب چائے اور رات کو مسور کی دال اور ایک روٹی اس کی خوراک تھی۔ اپوزیشن کے مطابق بادشاہ پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں جب اقتدار میں نہیں تھے تو ایک اسٹیل کی بھٹی تھی جو بعد میں اتفاق فوئنڈری بنی۔
اقتدار کے پہلے دور میں ایک فیکٹری سے ٩ فیکٹریاں بنائیں۔ دوسرے اقتدار کے دور میں ٩ فیکٹریوں سے ٢٨ فیکٹریاں بنائیں۔انکم ٹیکس میںچوری کی۔ منی لانڈرنگ کی۔سرمایا ملک سے باہر منتقل کیا۔ لندن میں ان کی پراپرٹیاں ہیں۔فقیر کے خلاف کرپشن کا کوئی بھی کیس نہیں۔ فلاحی کاموں میں اربوں خرچ ہوتے ہیں۔ تمام ریکارڈ کمپوٹرئرزڈ ہے۔ ہر سال باقاعدگی سے آڈٹ ہوتا ہے۔کہیں ایک پیسے کی بھی خرد برد نہیں ہوتی۔ فقیر نے باہر ملک انسانیت کی خدمت کے لیے پیسہ خرچ کیا جس کا ریکارڈ موجود ہے۔ بادشاہ کے ذاتی خرچ کے چرچے مشہور ہیں۔لندن کے مہنگے شاپنگ سینٹرز پر فیملی کے ساتھ خریداری۔ مہنگی گھڑی پہنتے ہیں۔ مہنگے ہوٹلوں میں گھانے گھاتے ہیں۔فقیر نے ساری عمر ملیشیا کے دو جوڑوں، دفتر میں لوئے کی کرسی پر بیٹھ کر اور ایک کمرے میں زندگی گزار دی۔ مہنگے ہوٹل میںکھانا کہاں ،مسور کے دال کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ بیٹے فیصل ایدھی کی فرمائش پر یہ کہتے ہوئے سائیکل کی فرمائش رد کر دی کہ محلے کے بچوں کے پاس بھی سائیکل نہیں۔
قارئین!بھوکوں کو کھانا کھلانا،بے آسراء اور بے یارمددگاروں لوگوں کو عافیت کی چھت فراہم کرنے والا فقیرہم سے جدا ہو گیا ہے۔ نیم خواندہ،درد مند دل رکھنے والا دنیا سے اس طرح گیا کہ جاتے جاتے اپنی آکھیں بھی ہدیہ کر کے دو نابینائوں کی دنیا روشن کر گیا ۔ہم نے اُس فقیر کا ذکر کیا ہے کہ جب لاش گل سڑ جاتی ہے، اس میں کیڑے پڑ جاتے ہیں ،تعفن سے سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے، عزیز و اقارب پرے ہٹ جاتے ہیں، تب اس ریزہ ریزہ لاش کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹنے کے لیے جو شخص آگے بڑھنے والا، لاورثوں کو پناہ دینے والا، ناجائز بچوں کو گود لینے والا،ٹھکرائی ہوئی بے سہارا عورتوں کو چھت،غذا اور لباس فراہم کرنے والا۔حتیٰ کی بیمار جانوروں کی نگہداشت کرنے والا،سیلاب،زلزلے اور زندہ لوگوں کو ملبے سے نکالنے واا،آسمانی آفات کے مقابلے میں بے آسرا بندوں کی مدد میں سب سے آگے بڑھنے والے اُس شخص کا نام عبدالستار ایدھی ہے۔حقیقت میں نے ہم نے اُس شخص کا ذکر کیا ہے جو فقیر مشن تھا جس کا ایک سیاست دان سے کیا مقابلہ؟۔
تحریر: میر افسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان