پہلے ہم خبریں پڑھتے تھے اب ہم خبریں دیکھتے ہیں۔ پڑھی ہوئی خبر پھر بھی کچھ سچی ہوا کرتی تھی مگر یہ دیکھی جانے والی خبریں تو جیسے کوئی اشرفیوں یا ڈالروں سے گھڑ کر بناتا ہے۔ کسی خبر پر بھی سچے ہونے کا شبہ نہیں ہوتا۔ بعض اوقات تو صورت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ تاریخ اور سال بھی اگر ٹی وی پر دیکھیں تو شک میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کسی اینکر نے کسی کو خوش کرنے کے لئے یہ چھوڑ دی ہو۔ اس دائمی مرض میں چونکہ عرصہ دراز سے مبتلا ہیں اس لئے اب ناشتے کے ساتھ ساتھ ٹی وی کو بھی ٹکر مارتے رہتے ہیں۔ جب تک صبح سویرے خبریں دیکھ کر حیران اور پریشان نہ ہو لیں ہمارے خیالات کو جِلا ہی نہیں ملتی۔ چوری ڈاکے، زنا، قتل، فراڈ، بے حرمتی جیسے واقعات کو بطور خاص زیرِ لکیر کرتے ہیں اور پھر احباب سے اس بات پر اتراتے ہیں کہ یہ ہے ہمارا علاقہ۔ یہ نا انصافی کے دنگل پڑھ پڑھ کر ہمیں چھوٹی موٹی بے ایمانی یا نا انصافی اب نظر ہی نہیں آتی۔ لاکھوں کی کرپشن کی بات ہو تو ہم اس پر کان ہی نہیں دھرتے۔ ایپیکل سائز کی رشوت، کرپشن ہو، کوئی سونامی ہو چندے کی یا گالی گلوچ کی تو اب وہ ہمارے لئے خبر بنتی ہے۔ تاہم یہ خبریں دیکھ کر ہم زمانہ ماضی میں چلے جاتے ہیں اور اپنے دل کو بہلانے کے لئے کوئی خوشگوار واقعہ یاد کرتے ہیں۔
ایک ایسی ہی علمی پیاس بھڑکانے والی خبر پڑھی تو دھیان اُس واقعے کی طرف چلا گیا جو بچپن میں پڑھا تھا۔ کوئی بادشاہ تھا۔ وہ شکار پر نکلا ہوا تھا۔ آپ بھی سوچتے ہونگے کہ اسے صرف بادشاہوں کی کہانیاں ہی کیوں ہوتی ہیں؟ بھائی ان کے پاس ہی تو وقت ہوتا تھا عوام بیچاری تو ہماری جمہوریت کی طرح اس وقت بھی ایسی ہی تھی اپنی اپنی پڑی ہوتی تھی سب کو کہ صبح کھا لیا ہے تو شام کو کیا کھانا ہے۔ بادشاہ ایسے ہی فارغ ہوتے تھے جیسے ہماری نوکر شاہی فارغ ہے۔ سارے مسائل کا حل ایک اردلی ہے اور وہ ہی اردلی مسائل کا شکارعوام کو یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ صاحب میٹنگ میں ہیں۔ ’’بہر حال‘‘ وہ بادشاہ شکار پر گیا۔ چنکا را ہرن کے شکار کے شوق میں اُس نے اس کے شکار پر سے پابندی ہٹا دی۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہماری بیورو کریسی ایک دن کے لئے پابندی ختم کر کے اپنا شکار کا شوق پورا کر لیتی ہے۔ یا ایک آدھ دن کیا گھنٹے کیلئے ملازمتوں پر سے پابندی اُٹھا کر بیچارے پریشان حال بے روز گار رشتہ داروں یا رشوت داروں کے آرڈر کر دیتی ہے۔
اُس بادشاہ نے تیر چلایا۔ جو تیر تو نہ بن سکا بس تُکا ہی رہ گیا کیونکہ وہ ہرن کو نہ لگ سکا۔ دورکھیتوں میں کام کرتے ہوئے کسان کے بیٹے کو جا لگا اور وہ وہیں گر کر ڈھیر ہو گیا۔ (آپ چاہیں تو اُس تیر کی مماثلت امریکی میزائلوں سے ہو سکتی ہے جو دہشت گردوں کا نشانہ لینے کی بجائے معصوم بچوں اور عورتوں اور بے گناہ لوگوں کی جان لے لیتے ہیں۔ امریکہ بھی تو بادشاہ ہی بنا ہوا ہے۔ ) بادشاہ تیر کی سمت میں چل پڑا۔ کیا دیکھا کہ ہرن کا تو پتہ نہیں مگر کسان کا بیٹا راہِ بادشاہ زندگی ہار بیٹھا ہے۔ بادشاہ بھلے وقتوں کا تھا اُسے قلق ہوا کہ یہ کیا ہوا ناحق خون بہا دیا۔ اس سے تو کچھ فائدہ بھی نہ ہوگا بلکہ رائے عامہ متاثر ہو گی۔ وہ کسان کے پاس گیا اور اُس کو پانچ لاکھ کا چیک پیش کیا۔ نہیں نہیں بھائی معاف کرنا چیک تو اُس وقت ہوتے ہی نہیں تھے۔ یہ تو ہماری حکومتوں کا شیوہ ہے کہ جس کا آدمی امریکہ بہادر کا میزائل نشانے پر لے لے اس کے لئے امریکہ سے ڈالر لے کر روپے میں ورثا کو ادائیگی کر دیں۔ رات ختم بات ختم۔
بادشاہ نے کسان کے ہاتھ میں تلوار دے دی اور ایک تھالی میں اشرفیاں پیش کر دیں۔ سر تسلیم خم کیا کہ چاہے تو کسان اُس کی جان لے لے اور چاہے تو خون بہا لے لے۔ کسان کو معلوم تھا کہ اشرفیاں لینے میں ہی بہتری ہے ورنہ بیٹا تو ہاتھ سے گیاڈالر بھی نکل جائیں گے۔ اُس نے اپنے بیٹے کا خون بہا لیا اور بادشاہ کے حق میں خاموش اکثریت بن کر گھر بیٹھ گیا۔
ایسی کہانیاں ہمارا دل بڑا کرتی ہیں ہمیں ڈھارس ملتی ہے کہ ہمارے ماضی میں بھی تیر یا میزائل سے موت کے بدلے میں اشرفیاں یا ڈالر لے لئے جاتے تھے اگر آج ہم نے لے لئے تو کیا ہوا۔ بادشاہ تو بادشاہ ہی ہوتا ہے چاہے تیر سے شکار کرنے والا ہو یا کرپشن سے یا غیر ملکی چندے سے۔ اسے کون روک سکتا ہے۔