تحریر: مسز جمشید خاکوانی
ساتھیو!ہم صدیوں سے بادشاہوں کی کہانیاں سنتے آ رہے ہیں جن میں زیادہ تر ظالم ہی ہوتے تھے۔ ہماری نسلیں یہ سنتے سنتے قبروں میں جا لیٹیں ہم بھی چلے جائیں گے اور شائد ہماری آنے والی نسلیں بھی ان ظالموں کے پنجہ استبداد میں جکڑی رہیں یہی سوال اب ذہنوں میں اٹھتا ہے کہ جمہوریت تو بادشاہت کی ضد ہے پھر یہ کیسی جمہوریت ہے ہمارے ملک میں جو بادشاہت سے بدتر ہے پہلے تو جو گذری سو گذری مگر ہم نے اپنے ہوش میں پہلی بادشاہت بھٹو مرحوم کی دیکھی جو نو ستاروں پر برق بن کے گری تھی سڑکوں پہ لوگ چیختے بھاگتے دیکھے گولی چل گولی چل گئی کی آوازیں سنیں ،اس وقت سمجھ نہیں تھی کہ جمہوریت کے آتے ہی یہ کیسی بد نظمی اور بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے۔
خورشید علی شاہ کہتے ہیں سیاست نے آئین دیا جمہوریت دی وہ یہ نہیں کہتے جمہوریت نے انہیں میٹر ریڈر سے اربوں پتی بنا دیا اس لیئے انہیں جمہوریت وارہ کھاتی ہے لیکن عوام کو تو نہ آئین نے کچھ فائدہ دیا نہ کمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچے۔پتہ نہیں یہ کیا ہوتی ہے کہاں ہوتی ہے بھٹو کے جوائی نے تو ان دو لفظوں کے معنی بدل کر رکھ دیئے ہیں جو پہلے شائد عوام کی سمجھ میں آئے ہی نہیں تھے ایک بھرم قائم تھا سو وہ بھی گنوا دیا گیا انہوں نے عجیب پالیسی اپنائی جو مخالفت کرے اٹھا کے باہر پھیکوا دو جو اپنا حق مانگے اسیاپنے سے الگ کر دو انکی اسی پالیسی نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا جس کا مدعا آج تک فوج پہ ڈال کر جان چھڑا لی جاتی ہے حالانکہ ایوب دور میں ایسا کوئی سانحہ پیش نہیں آیا۔
جمہوریت کے گُل کھلتے ہی سانحات کی برسات شروع ہو گئی یہ دوسری شاہی فیملی بھی ایک ایسے ہی حادثے کی پیداوار ہے بھٹو کے انتقام کا نشانہ بنے تو جنرل ضیاالحق کی عنایات کے مستحق ٹھیرے کیونکہ جمہوریت ایک بار پھر آوازیں دے رہی تھی باری کے بخار کی طرح یہ شاہی فیملیا ںعوام کی جان کو چمٹی رہیں مشرف صاحب نے انہیں جن جرائم کی بنا پر جدہ پہنچایا وہ پوری دنیا جانتی ہے پروگرا آف دی ریکارڈ میں لطیف کھوسہ صاحب نے سب کا گن گن کے ذکر کیا ہے کچھ دن پہلے تک یہ ”مفاہمت کی ڈور ” میں بندھے تھے لیکن جیسے ہی ان کے مفادات الگ ہوئے مفاہمت کی ڈور بھی ٹوٹ گئی۔
میں نے سنا ہے کہ اب ان کی یہاں سے چھٹی ہونے والی ہے لیکن یہ بہت جلد دوبارہ پورے زور شور سے واپس آئیں ۔زور ”جمہوریت کی واپسی ” کا ہو گا اور شور ”ایک دوسرے کی مخالفت ” کا ہوگا بظاہر یہی لگے گا یہ پھر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں کیونکہ یہ جان چکے ہیں” فرینڈلی اپوزیشن ” کا تجربہ ناکام ہو چکا ہے لوگ انہیں باہم دست و گریبان دیکھنا چاہتے ہیں اس لیئے یہ کچھ عرصہ منظر سے غائب ہونا چاہتے ہیں شائد اس بار امریکہ انکی اولادوں میں سے ہی کچھ نئے چہرے لانا چاہتا ہے اب یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسی جائے یا عقل سے کام لے۔
ایک بات یاد رکھیں یہ جدہ جا کے عربوں سے بادشاہت ہی سیکھ کر آئیں اس لیئے ان سے کبھی بھی جمہوریت کی امید نہ رکھیئے گا عربوں کا تو اپنا یہ حال ہے کہ انکی پوری تاریخ جھگڑوں سے بھری پڑی ہے ۔مسدس حالی میں اس کا ذکر کچھ یوں آتا ہے ۔کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا ۔۔کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا۔۔۔اب جو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا۔۔۔کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا ۔۔۔یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں ۔۔۔یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں ۔۔۔۔یہ شریف برادران کی جمہوریت انہی بادشاہوں جیسی ہے اور پیپلز پارٹی کی جمہوریت ویسے بھی ”جیل پلٹ ”مسٹر ٹین پرسینٹ کے ةاتھوں میں آ چکی ہے۔
ذرا سوچیئے جس قسم کے حالات میں پاکستان پھنس چکا تھا اگر جنرل راحیل آگے نہ آتے رینجرز آپریشن نہ کرتی تو اس ملک کا کیا ہوتا ؟جو اب تک آپ کا باشاہ بنا بیٹھا ہے اس کے تو اپنے کیسز کھلنے والے ہیں جب ایک کا طوطا بولے گا تو دوسرے کا آپ ہی بولے گا اس کے بعد ان طوطوں میں جن جن کی جان ہو گی وہ آپ ہی مٹھی میں آ جائے گی خدا کے لیئے پاکستانیو !اب کی بار جمہور کی آوازبن جانا اور جمہوریت کی آڑ میں بادشاہت کو پنپنے نہ دینا اب کے میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں نے عوام کو اویر نیس دی ہے عوام اب اتنی بھولی نہیں رہی کہ اصلی جمہوریت کو پہچان نہ سکے!
تحریر: مسز جمشید خاکوانی