تحریر: شاہ فیصل نعیم
کنگھی سے بے نیاز بال، جھریوں سے بھرا ہوا چہرہ اور اس پر جمی ہوئی میل کی تہیں،بے نور آنکھیں، پھٹا ہوا بوسیدہ سا لباس، ٹوٹے ہوئے جوتے اور ہاتھ میں سگریٹ لیے ہوئے دنیا ومافیہاسے بے خبرکش پہ کش لگائے جارہاتھا۔اس کے چہرے پر موجود بڑھاپے کے آثار سے لگتا تھا کہ زندگی کی بہت سی بہاریںدیکھنے کے بعد اب خزاںکی آمد کے لیے ترس رہا ہے۔یہ بھی بہت سے نازو نعم سے پلا بڑھا ہوگا،جوانی میں کسی کے پائوں اس کے اُبھرتے شباب کے سامنے جمتے نہ ہوں گے،مشکل سے مشکل کام کو اپنی محنت اور ہنر سے رام کرنے کے فن سے آشنا ہو گا۔ لیکن اِن سب کے باوجود پھر وقت اسے اس کے اصل کی طرف لے آیا تھاوہ پھر اُسی مقام پر تھا جہاں سے اس کی ابتدا ہوئی تھی آج پھر وہ اُس بچے کی مانند تھاجس کے الفاظ اپنی چاشنی کھو چکے تھے
جو چلنے کا فن جاننے کے باوجود چلنے کی سکت نہیں رکھتا تھانقاہت کے باعث ہاتھ پائوں کا اٹھنا محال تھااس کی ساری قوت وقت کی طاقت کے سامنے ڈھیر ہو گئی تھی۔انسان چاہے کتنا ہی امیروطاقتور کیوں نا ہو وہ گزرے ہوئے لمحات کو واپس نہیں لا سکتااُمراء کے خزانے میں کوئی ایسی دولت نہیںجس کے عوض گزرے وقت کو واپس لایا جا سکے،چاہے رستم الزماں ہی کیوں نا ہو اس کی طاقت بھی وقت کے سامنے کچھ وقعت نہیں رکھتی۔ اس بوڑھے آدمی کے ساتھ بھی وقت نے کچھ ایساہی کیا تھاوقت کی زنجیر میں چند کڑیاںباقی تھیں جوتیزآندھی کے جھونکے سے ٹوٹ کر جلدگرنے والی تھیںاور اس دنیا سے اس کا دانہ پانی ختم ہونے والا تھا۔یہ تو ایک کہانی ہے ایسے لاکھوں انسان ہمارے اردگردگلی،محلوں،چوراہوںاور سڑکوںپر پڑے زندگی کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ ایسے انسان بظاہر زندہ ہونے کے باوجود مردہ ہیں۔زندگی ملنے اور زندہ رہنے میںفرق ہے زندگی جیسی نعمتِ عظمیٰ سے تو اللہ تعالیٰ کی ذات نے ہر ایک کو نوازا ہے لیکن بہت کم ایسے ہیں جو حقیقتاًزندہ ہوتے ہیںجو زندگی کو خدائے کریم کی امانت سمجھتے ہوئے زندگی کا حق ادا کرتے ہیں۔
اُسے اکیلا دیکھ کر میں اس کے پہلو میں جابیٹھا کیوں میاں! ہم بوڑھوں کی صحبت میں کیاہے جو ادھر آٹپکے آپ کے توجوانی کے دن ہیں جائو موج مستی کرو ہمیں بھی غمِ زندگی غلط کرنے دو۔ بابا جن کی کوئی نا سنتا ہو وہ آپ جیسے لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں بس جہا ں ملے جو منہ آیا کہہ دیاآپ سے بھی میں کچھ پوچھنے آیا ہوں۔ آپ بتائیںگے نابابا”؟میں نے کہا۔ کیو ں نہیں چھوٹے میاں! ضرور بتائیں گے آپ پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ پہلے تو یہ بتائیں آپ نے جوانی کیسی گزاری۔۔۔۔۔۔؟ آپ کی ادائیں بتاتی ہیں کہ آپ نے جوانی ویسے ہی نہیں بلکہ جی بھر کر گزاری ہے؟ میں والدین کی اکلوتی اولاد تھا ۔۔۔۔ گائوں کے چوہدری کا بیٹا ہوتے ہوئے میں بھی چوہدری تھا ۔۔۔۔۔۔اور چوہدری لوگوں کی زندگی کوئی مسجدوںمیں تو گزرتی نہیں۔۔۔۔پیسے کا کوئی فکر نہیں تھا جتنی طلب ہوتی اُسے سے زیادہ ملتے تھے۔۔۔۔۔پھر ہم بھی یار بیلیوں اور سہلیوں پر پیسہ جی بھر کر لٹایا کرتے تھے۔۔۔۔میرے باپ نے کبھی پیسے خرچ کرنے سے منع تو نہیں کیا تھا مگر ہر بار اتنا ضرور کہا کرتا تھا ۔۔۔۔”بیٹا پیسے کی قدر کرنا سیکھو۔۔۔۔کیونکہ جب یہ روٹھنے پہ آتا ہے تو انسان کو بے قدرا کر کے چھوڑتا ہے” مگر اُس وقت باپ کے یہ الفاظ سیاستدانوں کا بھاشن لگتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
وہ بات کرتے کرتے رک گیا ۔۔۔۔۔میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔جہاں اشکوں کی برکھا برس رہی تھی۔۔۔۔ میں نے پوچھا: “کیا ہوا بابا آپ باپ پر آکر رک کیوں گئے۔۔۔۔۔۔اور یہ آنسو کیسے “؟ وہ آنسو پونچھتے ہوئے گویا ہوا پتر ! میں ایسے ہی ایک دن یاروں کے ساتھ موج مستی کر رہاتھا جب مجھے خبر ملی میرے والدین اب باقی نہیں رہے ۔۔۔۔میرے لیے یہ خبر قیامت ٹوٹنے سے کم نا تھی ۔۔۔۔۔میں نے یہ تو سنا تھا کہ ہر کسی کو ایک دن یہ دنیا چھوڑنی ہے ۔۔۔۔۔مگر یہ نہیں سوچا تھا کہ کوئی اتنی جلدی مجھے تنہا چھوڑ جائے گا۔ “میرا والد اور میری والدہ خالہ سے ملنے شہر گئے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔واپس آتے ہوئے اُن کی گاڑی ٹرک کی زد میں آ گئی اور وہ مجھے اس دنیا میں تنہا چھوڑ کر چل بسے۔ میں اُس کی کہانی سنتے سنتے اپنے ارد گر د بسے جہاں سے بے خبر ہو چکا اور اُس کے چہرے کی طرف دیکھا رہا تھا جہاں موجود جھریوں سے بنی نالیوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ “لیکن پتر! میں نے اس سانحہ سے کوئی سبق نا سیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔پیسے بہت تھا۔۔۔۔۔۔۔اور اُجاڑنے والا میں اکیلا تھا۔۔۔۔۔۔کچھ نئے یار بھی بن گئے ۔۔۔۔تعلیم کو بھی خداحافظ کہہ دیا۔۔۔۔۔پھر کیا تھا دن بازاروں اور راتیں کوٹھوں پر گزرنے لگیں۔۔۔۔۔۔۔پھر دن یہاں تک آئے کے ہمارا گھر بار ہی شاہی محلہ ٹھہرا ۔۔۔۔۔۔رات کو مال لٹاتے اور سارا دن نشے میں دھت پڑے رہتے ۔۔۔۔۔۔مگر یہ بہاریں سدا کی نا تھیں۔۔۔۔۔جس کوٹھے کے محملیں بستر ہمارے لیے سجا کرتے تھے ایک دن آیا کے ہم اُسی کوٹھے کی چوکھٹ پر بیٹھنے لگے۔۔۔۔کیونکہ اندر تک رسائی کے لیے دولت کی ضرورت تھی ۔۔۔۔جس کی اب ہمارے پاس کمی تھی۔۔۔۔۔۔۔پھر ایک دن ایسا آیا کہ چوکھٹ پر پہرہ دیتے عیاش کو وہاں سے دھتکار دیا گیا ۔۔۔۔۔اور ہم یہاں آ بیٹھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جہاں کوئی راہ چلتا روپیہ دو روپیہ بھیک میںدے جاتا ہے جس سے ہم سگریٹ خریدتے ہیں ۔۔۔۔۔اور اپنی گزری اور گررتی زندگی پر ماتم کرتے ہیں”۔
” بابا ایک سوال اور ہے “؟ “ہاں پتر! پوچھو کیا پوچھنا ہے “؟ بابا! آپ نے زندگی کی بہت سی بہاریں دیکھی ہیں ، آپ کو زندگی نے کیا دیا دوسرے لفظوں میں آپ یوں کہہ لیں کہ آپ کو اپنے اچھے یا بُرے سلوک کا کیا صلہ ملا”؟ “آپ کے سوال سے لگتا ہے کہ آپ زندگی کے بارے میں ڈھیر سارا تجسس پالے ہو ئے ہیں ۔چلو کوئی بات نہیںجہاں تک ہم سے ہو سکا ہم آپ کے سوال کا جواب دیں گے۔آپ نے پوچھاکہ زندگی نے ہمیں کیا دیا تو سنومیاں! زندگی باذاتِ خود کسی کو کچھ نہیں دیتی ہر کسی کو اچھائی یا بُرائی کا اچھا یا بُرا بدلا ملتا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ آپ بیج تو ببول کا ڈالیں لیکن اُگ گلاب آئے ایسا کبھی نہیں ہوتا ۔ زندگی کی مثال ایک کھیت کی طرح ہے اور انسان کسان ہے تو کسان جو کاشت کرے گا اسے ویساہی بدلاملے گا اور پھر کاشت کرنے میں وقت بھی بہت اہمیت رکھتا ہے ہر فصل کے لیے ایک خاص وقت ہے اگر آپ اس دوران کھیت کو خالی چھوڑ دیںگے تو آنے والے دنوں میں اس کی جھولی بھی خالی ہو گی ۔اگر آپ کبھی کسی کھلی جگہ یاپہاڑوں کی طرف گئے ہوں تو آپ نے مشاہدہ کیا ہو گا کہ اگر آپ وہا ں کچھ کہتے ہیں توآپ کو اپنی آواز دوبارہ سنائی دیتی ہے اسے آواز کی باز گشت کہتے ہیں ،زندگی بھی اسی بازگشت کی طرح ہے۔
ہمارا وقت تو گزر گیایار۔۔۔!لیکن آپ کے پاس ابھی وقت کا خزانہ لبا لب بھرا ہوا ہے جیسے بھی ہو اسے اپنے تصرف میں لاکر اپنی زندگی کو نیکی کا حسن و جمال دے لو ورنہ پھرپچھتانے سے کچھ نہیں ہوگا۔
وقت پر کافی تھا اک قطرہ بھی آب ِ خوش ہنگام کا
جل گیا جب کھیت پھر برسا مینہ تو کس کام کا
اگر آپ زندگی کو کسی اچھے کام پر لگا دو گے تو پھر آپ کو مجھ جیسے اندیشہء سودوزیاں رکھنے والوں سے نہیں پوچھنا پڑے گا کہ بابا زندگی نے آپ کو کیا دیا۔۔۔۔۔زندگی آپ کو خود بتا دے گی کہ میں نے آپ کو کیا صلہ دیا”
تحریر: شاہ فیصل نعیم