انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بنگلہ دیش کے سلامتی کے اداروں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملکی حزب اختلاف کے ارکان اور ان کے حمایتیوں کو فائرنگ کے ذریعے معذرور بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق سلامتی کے بنگلہ دیشی اداروں کے اہلکار جان بوجھ کر حزب اختلاف کے کارکنوں کے گھٹنوں پر گولی مارتے ہیں، جسے ’نی کیپنگ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ایچ آر ڈبلیو کی ایشیا شاخ کے سربراہ بریڈ ایڈمز کہتے ہیں، ’’بنگلہ دیش میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے زیر حراست افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ جبکہ ایسے واقعات کو فائرنگ کے تبادلے یا کوئی اور رنگ دے کر پیش کیا جاتا ہے۔‘‘
اس رپورٹ میں کچھ متاثرین سے بات چیت کا حوالہ دیا گیا ہے۔ متاثرین کے بقول دوران حراست ان کے گھٹنوں کی ہڈی کو توڑا گیا جبکہ پولیس نے ذرائع ابلاغ کو یہ بتایا گیا کہ انہیں اپنے دفاع میں جواباً فائرنگ کرنا پڑی یا پھر یہ کہا گیا کہ گھٹنے پر گولی پرتشدد مظاہروں کے دوران لگی ہے۔ اس رپورٹ میں 25 متاثرہ افراد کے انٹرویو شامل کیے گئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی سے ہے اور کچھ کا تعلق جماعت اسلامی سے بھی ہے۔
بنگلہ دیشی پولیس کے خصوصی یونٹ ریپڈ ایکشن بٹالین نے اس رپورٹ کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ اس سرعی الحرکت دستے کے ڈائریکٹر کے ترجمان مفتی محمود خان کے مطابق، ’’ہم نے یہ رپورٹ ابھی تک دیکھی نہیں ہے لیکن اگر اس میں اس طرح کے دعوے کیے گئے ہیں تو یہ واقعتاً جھوٹے، من گھڑت اور بے بنیاد ہیں۔‘‘
45 صفحات پر مبنی ہیومن رائٹس واچ کی اس رپورٹ میں ڈھاکا حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ گھٹنوں کو توڑنے اور مخالفین کو شدید زخمی کرنے کے الزامات کی فوری طور پر آزاد، خودمختار اور غیر جانبدرانہ طریقے سے تحقیقات کرائے۔ بریڈ ایڈمز نے وزیر اعظم شیخ حسینہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پولیس پر یہ واضح کر دیں کہ پولیس ماورائے عدالت قتل اور مخالفین پر تشدد جیسے واقعات سے بچ نہیں سکے گی۔