بنگلہ دیش دنیا کے ان چند مسلم ممالک میں سے ایک ہے جہاں جسم فروشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں ضلع تنگیل میں بنگلہ دیش کا قدیم ترین اور ملک کا دوسرا بڑا قحبہ خانہ ہے۔۔جاری ہے۔
جس کا نام ”کنداپرا“ ہے۔ برطانوی اخبار دی انڈیپنڈنٹ کی رپورٹ کے مطابقیہ قحبہ خانہ 200سال پرانا ہے۔۔۔ اسے 2014ءمیں مسمار کر دیا گیا تھا تاہم حال ہی میں مقامی این جی اوز کی مدد سے اسے دوبارہ قائم کر دیا گیا ہے۔ یہاں رہنے والی اکثر خواتین یہیں پیدا ہوئیں، یہیں پلی بڑھی ہیں اور وہ نہیں جانتیں کہ اگر اسے کر دیا جائے تو انہیں کہاں جانا ہے۔کنداپرا کے حامیوں کا کہنا ہے کہ جسم فروشی بھی ایک کام ہے اور اس قحبہ خانے کی خواتین کوئی اور کام کرنا بھی نہیں چاہتیں۔ رپورٹ کے مطابق قحبہ خانہ مسمار کیے جانے پر ان خواتین نے بذات خود بھی احتجاج کیا تھا۔ ان کے احتجاج کے بعد 2015ءکے اوائل میں بنگلہ دیش کی نیشنل ویمن لائرز ایسوسی ایشن ہائی کورٹ کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ کہ قحبہ خانے کو مسمار کرکے ان خواتین کو وہاں سے بے دخل کرنا غیرقانونی عمل ہے۔ اس کے بعد یہ جسم فروش خواتین فوری طور پر دوبارہ اس جگہ منتقل ہو گئیں اور اپنا دھندہ شروع کر دیا۔ اب اس قحبہ خانے کے گرد ایک دیوار بنا دی گئی ہے۔ اس محلے کی گلیاں انتہائی تنگ ہیں جن میں کھانے پینے کے سٹالز کے سٹالز لگے ہوئے ہیں اور جگہ جگہ چائے خانے ہیں۔کنداپرا کی اس دیوار میں۔۔جاری ہے۔
محصور آبادی کے اپنے ہی قوانین ہیں جو باقی پورے ملک سے بالکل مختلف ہیں۔ اس قحبہ خانے کے اندر خواتین انتہائی کمزور بھی ہیں اور طاقتور بھی۔ یہاں عموماً 12سے 14سال کی عمر میں ہی لڑکیاں جسم فروشی پر لگا دی جاتی ہیں۔۔جاری ہے۔یہ لڑکیاں انتہائی غریب خاندانوں سے آتی ہیں اور عموماً انسانی سمگلروں کی بے حسی انہیں یہاں تک پہنچاتی ہے۔انہیں یہاں کسی طرح کی آزادی نہیں ہوتی، ان کے کوئی حقوق نہیں ہوتے۔ وہ ایک میڈم کی ملکیت ہوتی ہیں۔ انہیں پاس جانے یا رقم پاس رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ان لڑکیوں کو وہ رقم اس میڈم کو چکانی ہوتی ہے جو ان کے بدلے اس نے ادا کر رکھی ہوتی ہے۔ اس رقم کی بھرپائی میں عموماً 4سے 5سال لگ جاتے ہیں۔ اس کے بعد یہ لڑکیاں بھی آزاد جنسی ورکر بن جاتی ہیں۔اس کے بعد وہ کسی بھی گاہک کو انکار بھی کر سکتی ہیں۔۔جاری ہے۔
اور رقم بھی اپنے پاس رکھ سکتی ہیں۔جاری ہے۔ اور اگر چاہیں تو قحبہ خانے سے جا بھی سکتی ہیں۔مگر چونکہ قحبہ خانے کی بیرونی دنیا انہیں قبول نہیں کرتی اس لیے یہ آزادی کے بعد بھی یہیں رہنے اور کمائی کرکے اپنے خاندان کی مالی معاونت کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔)