تحریر : ایم سرور صدیقی
ہرسو شدید دھند چھائی ہوئی تھی دن طلوع ہونے کے باوجود لوگ بستروں میں دبکے ہوئے تھے باچا خان یونیورسٹی چارسدہ پشاور کے ہاسٹل میں طلباء کچھ پڑھائی میں مشغول تھے کوئی ناشتہ کرنے کی تیاری میں مصروف تھا کہ اچانک فائرنگ خوفناک کی آوازوں نے سکوت توڑڈالا دل دہل گئے لبوں سے بے ساختہ نکلا الہی خیر۔۔۔ پھرچاروں جانب خوف و ہراس پھیل گیا معلوم ہوا کہ انسانیت کے قاتل شدید دھند کا فائدہ اٹھاتے ہوئے باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں گھس آئے ہیں جب تک سیکورٹی ادارے حرکت میں آتے دہشت گردوں نیظلم وبربریت کا بازارکئے رکھا ان کی راہ میں جو بھی آیا۔۔۔ جس نے بھی مزاحمت کرنے کی کوشش کی اسے گولیوں سے چھلنی کرڈالا۔۔۔ دہشت گرد طلباء کے ہاسٹل میں جاگھسے طلباء نے جان بچانے کی فطری خواہش کے پیش ِنظر کمرو ں کے دروازے بندکرلئے لیکن سفاک قاتلوںنے دروازوںکی بکل توڑ کر علم کے متلاشی نوجوانوںکو بے دردی سے قتل کردیا کمروںکے در و دیوار، کپڑے بستر الغرض ہر چیز خون سے رنگین ہوگئی باچا خان یونیورسٹی اور آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے شاید تعلیمی ادارے دہشت گردوں کا آسان ہدف ہیں بہرحال فوجی جوانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے باچا خان یونیورسٹی چارسدہ پرحملہ کرنے والے علم دشمنوںکو چن چن کر عبرت کا نشان بنادیاہے۔
یہ خبریں تشویش ناک ہی نہیں دل دہلادینے والی ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں افغانستان اور بھارت ملوث ہے ایک ہفتہ میں دہشت گردی کے متعدد واقعات پشاور میں چوکی پر خودکش حملہ اور کوئٹہ میں نادرا آفس کے قریب پولیس اہلکاروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا ان سب واقعات کے پیچھے ایک ہی ذہن۔۔ ایک ہی سوچ۔۔ ایک ہی لوگ ہیں جس میں دہشت گردوںنے اندھا دھند گولیاں برسا کر اہلکاروں اور طلبہ کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایاوہ جدید اسلحہ، دستی بمو ں سے مسلح تھے باچا خان یونیورسٹی پر حملہ میں طالبان کے ایک گروپ رہنما ملامنصور نے ذمہ داری قبول کی ہے جبکہ تحریک ِ طالبان کی مرکزی قیادت نے اس واقعہ سے لاتعلقی کااعلان کیاہے پہلی بار ایسا ہواہے۔۔پاکستان میں دہشت گردی کی تاریخ بڑی پرانی ہے۔
یہ ڈانڈے افعانستان اور بھارت سے بھی جا ملتے ہیں پاکستانی حکومت کو اس واقعہ کا بھارتی حکومت سے شدید احتجاج کرنا چاہیے اس واقعہ کو معمولی نہ سمجھا جائے یہ اس بات کی طرف ایک اشارہ بھی ہے کہ ہم محفوظ نہیں ہیں دہشت گرد جب اور جہاں چاہیں حملے کر سکتے ہیںیہ واقعہ ہماری ایجنسیوں، حکومتی اداروں اور وزارت ِ داخلہ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے تازہ ترین اٹیک سے ذہن میں فوری طور پر 3سوال و شبہات ابھرتے ہیں اولاً ! تحریک ِ طالبان کے کچھ گروپ اب بھی طاقتورہیں ثانیاً ! ان واقعات میں، افعانستان، بھارت اور ان کی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں دہشت گردوں سے ملنے والی موبائل سم کارڈ، بھارتی سفیر سے رابطے اور واقعات میں استعمال ہونے والا اسلحہ اسی بات پر دلالت کرتاہے مزیداً ! کچھ اسلام دشمن طاقتیں نہیں چاہتیںکہ پاکستان میں امن و امان ہو وہ طالبان کی آڑ میں دہشت گردی کرکے حالات خراب کررہی ہیں۔۔۔ اس وقت حکومت اور عوام کے پیش ِ نظر یہی تین سوال ہیں جن کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ بیشتراسلام دشمن قوتوں امریکہ ، بھارت اور اسرائیل نے پاکستان کوآج تک دل سے تسلیم نہیں کیا وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں جب سے پاکستان ایٹمی قوت بناہے ان کے سینے پر سانپ لوٹ رہے ہیں اس لئے غالب خیال یہ ہے کہ پاکستان کے حالات خراب کرنے میں اسلام دشمن طاقتوںکا کلیدی رول ہے اسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ملک میں پے در پے دہشت گردی کے واقعات ، درجنوںبے گناہوں کی شہادت اور عوام میں خوف وہراس کے باوجود میاں نواز شریف اور عسکری قیادت کی اب بھی خواہش ہے کہ یہ حساس معاملہ اچھے انداز حل کیا جانا چاہیے شنیدہے کہ” امن ہر قیمت پر” کی حکمت ِ عملی کے تحت اپریشن ضزب ِ عضب جاری رہے گا عسکری اور جمہوری قیادت کا یہ عزم کہ امن کے راستے میں حائل رکاوٹوںکو کچل دیا جائے انتہائی ضروری ہے۔۔۔ باچا خان یونیورسٹی چارسدہ پشاور،APS میں دہشت گردی ، پولیس اہلکاروںکو نشانہ بنانا، فوجی قافلوں پر حملے ، زائرین کی بسوںپر فائرنگ کے واقعات اور اس سے ملتے جلتے واقعات میں اب تلک سینکڑوں بے گناہ اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
دہشت گردی کے یہ واقعات انسانیت کے قتل کے مترادف ہیں ایسے واقعات حکومتی رٹ چیلنج کرنے کے مترادف ہے حکومت دہشت گردی کی ہر شکل کو بے حم اپریشن کے ذریعے کچل کر بہت اچھا کام کررہی ہے انسانیت کے قاتلوں، امن کے دشمنوں سے کوئی رعائت ،کوئی نرمی نہ برتنی جائے یہی حالات کا تقاضا اور امن کا سب سے بہترین فارمولاہے دہشت گرد جب ہمارے قومی اداروںپر حملہ آور ہوتے ہیں ان کا سب سے بڑا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا ہوتاہے وہ دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ ہم اپنی ذ مہ داریاں پوری کرنے کے اہل نہیں ہیں ۔ضیاء الحق دور میںروس جیسی عالمی سپرپاور کا دھڑن تختہ کرتے وقت کسی پاکستانی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کے اثرات اتنے بھیانک ہوں گے کہ ہمارا ملک انتہا پسندی کا شکار ہو جائے گا۔۔کوئی شہر دہشت گردی سے محفوظ نہ رہے گا۔۔۔ خودکش حملے، بم دھماکے اورقتل و غارت مسئلہ بن جائے گا حتیٰ کہ تمام مذاہب اور مسلک کی عبادت گاہیں، اولیاء کرام کے مزارات،پبلک مقامات بھی اس انتہا پسندی کی زد میں آجائیں گے۔۔۔ اور تو اور فوجی قافلوںکو نشانہ بنانا، تھانوں پر حملے، GHQ ،نیول ہیڈ کوارٹرپر قبضے اور حساس اداروں کے دفاترپر حملے ہوں گے۔
ان مذموم کاررائیوں نے ہر محب ِ وطن کو ہلاکررکھ دیا بدقسمتی سے یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہورہا ہے جوسلامتی کا مذہب ہے۔۔اب تک امریکہ کی جنگ پاکستان میںلڑی جارہی ہے جس کے نتیجہ میں 50ہزارسے زائد بے گناہ پاکستانی شہید ہو چکے ہیں۔۔۔ایک لاکھ سے زائد معذورہوگئے ۔۔۔کھربوںکی پراپرٹی تباہ کردی گئی اور پاکستانی معیشت کو سالانہ کئی ارب ڈالرکا نقصان ہورہا ہے آج وہ وقت آ ن پہنچاہے جب ہم نے دہشت گردوںکو ان کے منطقی انجام تک پہچاناہے امن کی خواہش میں حکومت ِ پاکستان ،فوج اورعوام نے بڑی قربانیاں دی ہیں بہرحال پوری قوم انسانیت کے قاتلوں، امن کے دشمنوں کے خلاف حکومت کے ساتھ ہے ان کو نیست و نابود کردینا چاہیے تاکہ پاکستان کا مستقبل محفوظ ہو جائے آئیے ہم سب مل کر وطن کی آبرو پر اپنی جانوںکا نذرانہ پیش کرنے والوں کو سلام ِ عقیدت پیش کریں ہمارے کل پر اپنا آج قربان کرنے والے شہیدوں اور غازیوںکو ہم خراج ِ تحسین پیش کریں یقینا انتہا پسندی کے خلاف اپریشن ضرب ِ عضب نے دہشت گردوں کی کمرتوڑکررکھ دی ہے قوم کو اپنی بہادر افراج پر فخرہے۔ دہشت گردی کے خلاف میاں نواز شریف اورجنرل راحیل شریف کے جرأت مندانہ موقف نے عوام کو ایک نیا حوصلہ دیاہے۔
تحریر : ایم سرور صدیقی