تحریر ؛ حاجی محمد جاوید عظیمی
روحانی سلاسل در حقیقت راستہ، دروازہ یا شاہراہ ہیں ……اللہ کے محبوب بندے اور پیغمبرآخرالزماں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربار تک پہنچنے کا راستہ ہیں ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دو سو روحانی سلاسل دنیا بھر میں جاری و ساری ہیں ۔تمام سلاسل کا Methodیہی ہے کہ اپنی روح کی بالیدگی اور اللہ اور اور اسکے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا اور معرفت کیسے حاصل کی جائے ۔خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا ، اس لئے رشد و ہدایت اور اصلاح ، تربیت و تعلیم کی ذمہ داری کو ادا کرنے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علوم کے وارثین اولیاء اللہ اور صوفیائے کرام نے جو مساعی فرمائیں وہ تاریخ کا روشن اور زریں باب ہیں۔
صوفیائے کرام انسانوں کو اللہ وحدہء لا شریک کا بندہ بننے کی ترغیب دیتے ہیں ،قرآن میں تفکر کی راغب کرتے ہیں ۔ انسان کامل ،معلم اعظم ،حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات و تعلیمات پر غور و فکر ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہء حسنہ کی پیروی و اطاعت کے ذریعہ قلب وروح کو عشق محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرشار کرنے کی سعی کرتے ہیں ۔ صوفیائے کرام اپنے تربیتی مراکزمیں ، اپنی خانقاہوں میں توحید خالص کو سمجھنے اور بندہ کو اللہ کے رنگ میں رنگ دینے کا ماحول فراہم کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر رحمت سے تصوف کے علوم اور رموز کو سمجھ کر بندہ اللہ کا عرفان اور خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربت پا سکتا ہے ۔سلسلہ عظیمیہ کے امام محمد عظیم برخیاء المعروف حضور قلندر بابا اولیاء 1898ء میں قصبہ خورجہ بلند شہر انڈیا میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم محلے کے مکتب سے حاصل کی اور بعد میں علیگڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ رشتے میں آپ شہنشاہ ہفت اقلیم حضرت بابا تاج الدین ناگپوری کے نواسے ہیں ۔ آپ نو سال تک بابا صاحب کی زیرتربیت رہے۔
اس وقت آپ گیارہ سلاسل کے خانوادے اور اکیس سلاسل کے مربی و مشفی ہیں۔روحانی اصطلاح میں خانوادہ اُسے کہتے ہیں جسے امام سلسلہ اپنا ذہن منتقل کر دیتے ہیں ۔ حسن اُخریٰ آپ کا وہ لقب ہے جو دربار رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کو عطا کیا گیا ۔ موجودہ دور میں انسان کی ذہنی ،فکری اور شعوری سطح کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات ضروری سمجھی گئی کہ تصوف کی تعلیمات اور روحانیت کو جدید تقاضوں کیمطابق پیش کیا جائے ۔اب نوع انسانی کا اجتماعی ذہن اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ وہ :علم سینہ :کو سمجھ سکے ۔ آج کے سائنسی دور میں کوئی بات اُس وقت ہی قابل قبول ہو تی ہے جب اُسے فطرت کے مطابق اور سائنسی توجہیات کے ساتھ پیش کیا جائے۔
اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ابدال حق قلندر بابا اولیائ نے سیدنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانی اجازت سے سلسلہ عظیمیہ کی بنیاد رکھی ۔ سلسلہ عظیمیہ کا مشن یہ ہے کہ لوگوں کو اللہ کے عرفان کی طرف راغب کیا جائے اور انہیں الہی کے راستوں پر چلایا جائے ۔ اس مقصد کے لئے لوگوں کو تفکر کے ذریعے اُنکی اصل سے واقف کرایا جائے ۔ انسان کی اصل اُس کی روح ہے اور روح سے واقف بندہ ہی اللہ سے واقف ہو سکتا ہے۔
سلسلہ کا مقصد وہی ہے جو سارے سلاسل ہے یعنی سالک کو ایسی تعلیمات سے آراستہ کر دیا جائے اور ایسی تربیت کردی جائے جو اُس کو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قریب کردے اور اس کے اندر اللہ کی مخلوق کی خدمت کرنے کا جذبہ کارفرما ہو جائے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سبکو توفیق دے کہ ہم اللہ کا زیادہ سے زیادہ عرفان پائیں ، ہم عشق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرشارہوجائیں اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرکے صراط مستقیم پر گامزن رہیں ۔ آمین ثمہ آمین
تحریر ؛ حاجی محمد جاوید عظیمی