تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
مجھے کل لاہور جانے کا اتفاق ہوا مجھے پاک ٹی ہاؤس جانا تھا ناصر باغ کے پچھواڑے اور جی سی یونیورسٹی کے قرب و جوار میں اورپھر پنجاب یونیورسٹی کے آس پاس اچانک میری نظر نے اک جانکاہ منظر دیکھاجو شاید آپ لوگوں کے لیے حیرت انگیز نہ ہو مگرکم از کم مجھے تو پریشان کرنے کے لیے کافی تھابڑی بڑی نادراورضخیم کتب فٹ پاتھوں پر چٹائی نما کپڑے پر ایسے پڑی تھیں جیسے کئی معذور بھکاری بھیک مانگنے کے لیے ہم لوگوں کوصدائیں دے رہا ہو مجھے لگا جیسے ان کتب کی جلدوں میں سے اچانک آنکھیں نمودار ہوئی ہوںاور مجھ سے سوال کر رہی ہوں۔کہ ایک باررک کر دیکھ تو لوکہ ہم اپنے وجودوں میںکتنی تواریخ کو سموئے ہوئے ہیں کبھی لوگ نفاست سے ہمیں اپنے پاس بُک شیلفوں میںرکھتے تھے ا ور ہم سے تاریخ کے بارے میں پُوچھا کرتے تھے ہم بھی اُن کی راہنُما ئی کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھتے تھے کیونکہ وہ لوگ ہم سے اسلام کی ابتدا سے لیکر زمانہ حال اور مستقبل کے متعلق پوچھا کرتے تھے
مگر آج ہم ٹھوکروں میں ہیں۔ ہم بھی حکمت و دانائی کے حُسن سے مالامال ہیںعلم کے زیور سے سجی ہوئی ہیں جس میںتاریخ، سائنس وادب اور شاعری کے نگینے جڑے ہوئے ہیں۔مگر آج کے لوگ تو ہمیں چھونا بھی نہیں چاہتے ہم وہ کتابیں ہیں کہ جن کے قیمتی مشوروں سے کیٔ لوگوں نے دنیا میں نام پیدا کیااور پھر ہماری تنہائی دُور کرنے کے لیے انہوں نے اپنے علم ودانش سے ہمیں بہت سی ہمجولیوں سے نوازا۔مگر اب ہم ان بڑے لوگوں کی تخلیقات کی ہمراہی میںبھیک منگوں کی طرح پڑی رہتی ہیں۔اور شام کو ہمیں ایک بڑے جستی صندوق میں بند کر دیا جاتا ہے یقین جانیں ہمارا دم گھٹتا ہے مگر جانے کیوں ہم مر نہیں سکیں انتہائی مخدوش حالت میں بھی زندہ ہیں۔جب میں نے پوچھا کہ آپ کی یہ حالت کیسے ہوئی اور کس نے کی کہ آپ الماریوں سے فٹ پاتھوں پر آگئیںتو ایک بڑی سی سیانی کتاب یوں گویا ہوئی؛۔
کتاب: صاحب کیا پوچھتے ہیںآپ بھی، ہماری یہ حالت دنیا کے سب سے بڑے ڈکٹیٹر جہل نے کی ہے۔ میں نے پھر پوچھا جہل کو آپکے سا تھ کیا دشمنی ہے بھلا ؟
کتاب: جناب میں نے یہ کب کہا کہ جہل کو ہمارے ساتھ دشمنی ہے۔جہل کو دشمنی ہے امت مسلمہ سے اور بالخصوص پاکستانیوں سے وہ اس لیے کہ یہ صرف کمپیوٹراور ٹیکنالوجی سے مدد لیں ان کے اپنے دماغوں میں کوئی چیز نہ سما سکے اور ہمارا قصوریہ ہے کہ جب کوئی ہمیںکھول کے بیٹھتا ہے تو ہم اپنے لفظوں کو انسان کے دماغ میں نقش کردیتی ہیںجن سے انسان کاحافظہ ہمارے الفاظ کوذخیرہ کر لیتا ہے۔صاحب آپکو شا یدیاد ہوکہ ہلاکواورچنگیز خان کے دورمیں بھی ناصرف مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھابلکہ میرے آباواجداد کو بھی زندہ جلادیا گیا تھاجہاں انسانی کھوپڑیوں کے مینار استوار ہوئے تھے و ہیں مجھ جیسی لاکھوں کُتب کو بھی نذرآتش کر دیا گیا تھا۔
تاریخ شاہدہے کہ دریا ئے دجلہ اور فرات دو مرتبہ اپنے اصل رنگ سے ہٹ کر بہے ہیںایک مرتبہ سُرخ رنگ میں وہ انسانی خون کی وجہ سے اور دوسری مرتبہ سیاہ رنگ میں جب لاکھوں کتابوں کو راکھ کر دیا گیا تھا اسی راکھ کی وجہ سے دریا کا رنگ سیاہ پڑ گیا تھا اگر کہیں کوئی کتابیںزیرِ زمین تہہ خانوں میں بچ گئیں تھیں تو جاتے جاتے وہ دریائوں کے بند توڑ گئے تھے تاکہ میرے اجداد کے وجود پانی میں گل سڑ جائیں اور اس طرح مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہمارا بھی قتلِ عام ہوا۔
میں نے پھر پوچھا یہ تو بڑی درد ناک کہانی ہے جو مجھے تم سے سننے کو ملی اب ا س کا کوئی حل بھی ہے تمہارے پاس یا نہیں۔؟
کتاب: صاحب کتب بینی انسانی کردار کی نشونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے ادب انسان کی شخصیت کو توازن عطا کرتا ہے جب سے ادب آپ کے ہاں سے عازمِ سفر ہوا تب سے اس کی جگہ عدمِ برداشت ،شدت،وحشت اور خونریزی نے لے لی مطالعہ کا شوق تو اب آپ کے یہاں کارِ ندامت کے طور پر گردانا جاتا ہے اس کے حل کے لئے کتب بینی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کتاب دوست معاشرہ کی بنیاد مظبوط کرنی پڑے گی تاکہ ایک متوازن معاشرہ نمو پا سکے ظلم و بربریت اور عدمِ برداشت کا قلع قمع ہو سکے یہ کہہ کے وہ کتاب خاموش سی ہو گئی اور اچانک کہیں دور اور گہرے خیالوں میں کھو گئی۔
اس کی یہ باتیں سننے کے بعدمیں بھی ڈب ڈبائی آنکھوں کے ساتھ سوچنے پہ مجبور ہو گیا کہ جس قوم نے ہمیں فیس بک ،انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی طرف لگا دیا وہ قوم بذات خود کتاب سے رشتہ ابھی تک استوار کئے بیٹھی ہے ہمارا نوجوان دنیا و مافیا سے بے خبر کتب کی طرف پشت کئے دن میں اٹھارہ گھنٹے نیٹ پہ بیٹھا چیٹنگ کے مزے لے رہا ہے راہ چلتے ہوئے موبائیل پر لمبی اور بے تکی گفتگو سے مستفید ہو رہا ہے کانوں میں ہینڈ فری ٹھونسے ہوئے سب کی سنی ان سنی کر رہا ہے دن رات ایس ایم ایس کی لگن میں مگن عشق و محبت کی تباہ کاریوں میں برباد ہو رہا ہے۔
سچ پوچھیں تو اس کتاب کی باتوں نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا اور میں کافی دیر تک ایک ایسی ہی سوچ میں گم رہا کہ ہمارے ہاں اگر کوئی ادیب شب وروز محنت کرکے کتاب شائع کرنے کا جہاد بالقلم کرتا ہے تو اس کی بہادری ہے اور بیس کروڑ کی آبادی والی دھرتی پر اس کتاب کی ڈیڑھ دو سو کاپی فروخت ہو جائے تو بہت بڑی کامیابی گنی جاتی ہے کتب کی یہ بربادی آخر پاکستان میں ہی کیوں؟ ترقی یافتہ ممالک نت نئی ایجادات سے استفادہ حاصل کرنے کے باوجود کتابوں سے محبت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے وہاں اگر کوئی کتاب چھپتی ہے تو اس کی لاکھوں کاپیاں ہاتھوں ہاتھ بک جاتی ہیں صاف ظاہر ہے کہ اگر فرد کتاب دوست ہو تو سارا معاشرہ انہیں رویوں کی عکاسی کر رہا ہو گا۔
کتب کی سر پرستی سے محروم معاشروں میں امن و امان کو قائم رکھنے کے لئے حکومتوں کا کردار اہم ہو گا ہماری حکومتوں کی بھی تمام تر توجہ لیپ ٹاپ اور جدید ٹیکنالوجی پر ہے مگر کتب کے بن آپ نئی ایجادات سے مستفید ہو سکتے ہیں مگر نئی ایجادات کے موجد نہیں بن سکتے ۔جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں غوطہ زن معاشرے کو جوں کا توں کتاب اور کتاب کے مثبت اثرات سے بوجوہ محروم رکھا جا رہا ہے۔
اب تو انگریزوں نے بھی نئی ریسرچ کے ذریعے ثابت کردیا ہے کہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال سے انسانی یادداشت ختم ہوتی جار ہی ہے یہی تو اغیار کی سازش تھی کہ یہ قوم اپنے اجداد کی تاریخ سے کٹ کر رہ جائیں انہیں کچھ یاد نہ ہو کہ ان کے اسلاف نے کیا کیا کارہائے نمایاں سرانجام دئے تھے یاد رہے طب اور ریاضی کے بانی مسلمان ہی تھے علم کیمیا کا آغاز مسلمانوں ہی سے ہوا الجبرا مسلمانوں کی ہی ایجاد تھی خدارا دوست بن کر جئیں اور اپنی شناخت کریں کہ ہم کیا تھے کیا ہیں اور کیا بن رہے ہیں؟۔
تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر