پرویز خٹک ایچی سن کالج لاہور کے طالبِ علم رہے ہیں۔ عمران خان سے کہیں زیادہ قریبی دوست مگر وہ چودھری نثار علی خان کے تھے۔ سیاست میں بھی وہ تحریک انصاف کی وجہ سے نہیں آئے۔اپنے قریبی عزیز نصراللہ خٹک مرحوم کے بعد نوشہرہ میں جو خلاءپیدا ہوا تھا اسے پر کرتے ہوئے 1988ءسے میدان میں ہیں۔ بہت مال دار اور خوش حال خاندان کے فرزند ہیں۔ حجرہ ان کا ہمیشہ آباد رہتا ہے۔فیاضی اور مہمان نوازی موصوف کی پہچان ہے اور گُر سیاست کے انہوں نے چارسدہ کے آفتاب احمد شیر پاﺅ سے سیکھے ہیں۔
عمران خان اور ان کے متوالوں کو یہ دریافت کرنے میں بہت وقت لگے گا کہ اپنے ”کپتان“ کی پکار پر کرینوں اور غلیلوں سے مسلح ہوئے ایک لشکر کے ساتھ اسلام آباد کے بنی گالہ پہنچنے کی کوشش میں پنجاب پولیس کی جانب سے لگائی رکاوٹوں کو توڑنے کے لئے آنسو گیس کی وحشیانہ برسات کا سامنا کرتے ہوئے،خیبرپختون خواہ کے وزیر اعلیٰ نے (پاکستان تحریک انصاف)کو ”پٹھان تحریک انصاف“بناڈالا ہے۔ اس نئی تحریک کی کمان اب عمران کے ہاتھ میں نہیں پرویز خٹک کے پاس ہوگی۔ وہ فیصلہ سازی میں قطعی خودمختار ہوں گے۔ بنی گالہ میں بیٹھے نام نہاد ماہرینِ گڈگورننس کی طرف سے جاری ہوئے احکامات کو ہرگز خاطر میں نہیں لائیں گے۔
میں ہرگز سمجھ نہیں پایا کہ جب 28اکتوبر کو عمران خان کے اتالیق،ماﺅزے تنگ کے پسندیدہ اور چواین لائی کو سیاست سکھانے کے لئے خاص طورپر چین مدعو کئے جانے والے بقراطِ عصر راولپنڈی میں پولیس کے ساتھ آنکھ مچولی میں مصروف تھے تو تحریک انصاف کے قائدین نے خود کو قلعہ بنی گالہ میں محصور کیوں رکھا۔ حکمت عملی شاید یہ رہی ہوکہ اسلام آباد کی 2نومبر کے دن ”تالہ بندی“ کو یقینی بنانے کے لئے عمران خان خود کو گرفتاری سے بچاکر رکھیں۔
راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے اس دور کے ”چی گویرا“ ویسے بھی تحریک انصاف کے باقاعدہ رکن نہیں ہیں۔ وہ ہیں۔ مقصد اس بریگیڈ کا نواز حکومت کو کسی نہ کسی طرح ”کاکڑ فارمولے“ کا نشانہ بنانا تھا۔عمران خان نے انقلابی عصر کا محض سہولت کار بننے سے اجتناب برتا ہوگا۔
پرویز خٹک کے ہمراہ 31اکتوبر کی شام سے یکم نومبر کی صبح تک پنجاب پولیس کا مقابلہ کرنے والے کارکن مگر عمران خان کے بے نام دیوانے تھے۔ان میں سے کئی متوالے خیبرپختون خواہ کے دوردرازعلاقوں سے آئے تھے۔ ان میں سے کسی ایک نے بھی کپتان سے ایم این اے یا ایم پی اے کے ٹکٹ نہیں مانگنے تھے۔ وہ محض اپنے ”جنون“ کا اظہار کررہے تھے۔
قلعہ بنی گالہ کی فصیل پر پش اپس لگاتے ہوئے عمران خان نے ان کارکنوں کے ”جنون“ کو کھیل تماشہ بناڈالا۔ دوبارہ یہ بات تسلیم کئے لیتے ہیں کہ 2نومبر کو اسلام آباد کی تالہ بندی کو یقینی بنانے کے لئے کپتان کا اپنے قلعے میں بند ہوئے بیٹھے رہنا ضروری تھا۔ اٹک کے بعد مگر واہ اور ٹیکسلا بھی تو آتے ہیں۔ اس حلقے سے تحریک انصاف کے سرور خان قومی اسمبلی کے رکن ہوا کرتے ہیں۔ ٹیکسلا کے بعد آتے ہیں راولپنڈی کے دو حلقے جہاں سے شیخ رشید اور عمران خان بھاری اکثریت کے ساتھ 2013ءکے انتخابات میں قومی اسمبلی تک پہنچائے گئے تھے۔
قومی اسمبلی کے ان تینوں حلقوں سے کارکنوں کی ایک کثیر تعداد کو اٹک پار کرکے اسلام آباد کی طرف بڑھتے لشکر کا ”خیر مقدم“ کرنے سے کس نے روکا؟۔ ان تینوں حلقوں کے مختلف مقامات سے کارکنوں کے جتھے پرویز خٹک کا خیرمقدم کرنے کے نام پر باہر نکل آتے تو پنجاب پولیس کو وختہ پڑجاتا۔ اس کے ہاتھ پاﺅں پھول جاتے۔
ایسا مگر ہونہ پایا۔ پرویز خٹک کا لایا قافلہ اٹک کا پل پار کرنے کے بعد بھی تحریک انصاف کے پنجابی کارکنوں کی جانب سے فراہم کی گئی کمک سے محروم رہا۔ اس قافلے نے خود کو انگریزی زبان والا محسوس کیا۔
پنجابی اور پشتون کے درمیان یہ ”تقسیم“ محض پنجابی پولیس اور انتظامیہ نے نہیں دکھائی۔ پرویز خٹک اپنی ضد کی وجہ سے بھی اس کے تنہا ذمہ دار نہیں۔ ٹیکسلا،راولپنڈی اور اسلام آباد کے وسیع وعریض اور گنجان آباد علاقوں میں رہنے والے تحریک انصاف کے ووٹروں نے بھی اس ”تقسیم“ کو گہرا بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
وقت مگر اب گزر گیا ہے۔ ”تقسیم“ ہوچکی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ ”تقسیم“ صرف سیاسی ہے۔ اس کا مقصد خیبرپختونخواہ کو پاکستان سے جدا کرنا ہرگز نہیں۔ ”پشتون قوم پرستی“ کی اس نئی شکل کا اصل ہدف وفاقِ پاکستان سے آئینی حدود میں رہتے ہوئے خیبرپختونخواہ کے لئے ترقی اور خوشحالی کے سفر میں ”اپنا حصہ“ وصول کرنا ہے۔ پشتون قوم پرستی کے اس نئے ورژن کی قیادت پرویز خٹک کے ہاتھ آگئی ہے۔ آفتاب احمد خان شیرپاﺅ کی ”قومی وطن پارٹی“ صوبائی حکومت میں پرویز خٹک کی حلیف ہے۔ شیر پاﺅ اور پرویز خٹک 2018ءکے انتخاب میں کسی نہ کسی صورت یکجا ہوکر دیگر جماعتوں کا مقابلہ کریں گے۔ ان دونوں کے اتحاد کا اصل نقصان ”قدیم“ قوم پرستوں کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کو ہوگا۔
2008ءسے 2013ءتک کے 5سالوں میں عوامی نیشنل پارٹی نے صوبائی حکومت کی قیادت کرتے ہوئے اپنی ”نظریاتی“ پہچان انتہائی بے حسی اور سفاکی سے کھودی ہے۔ غلط یا صحیح وجوہات کی بنا پر اسے ”ایزی لوڈ“حکومت کا نام ملا۔ عمران خان نے ”غیرت“ کا ورد کرتے ہوئے اس حکومت کی خالی کی ہوئی جگہ پُر کرنے کی کوشش کی۔ ”طالبان“ سے محبت کا اظہا رکیا۔ افغانستان میں مقیم امریکی فوج کو خیبر کے ذریعے رسد پہنچانے والے ٹرکوں کو روکنے کی کوشش کی۔ ڈرون طیاروں کے ذریعے گرائے میزائلوں کی مخالفت میں جلوس نکالے۔
عمران خان جن لوگوں کو این جی اوز کے ”ڈالر خورلبرل“ کہتے ہیں، انہیںمذکورہ بالا اقدامات پسند نہیں آئے تھے۔ ان تمام اقدامات نے مگر جذباتی پشتونوں کو متاثر کیا۔ ساتھ ہی تحریک انصاف کا یہ دعویٰ اور وعدہ بھی کہ وہ اگر اقتدار میں آئی تو نوکریاں ”بکیں“ گی نہیں صرف میرٹ پر ملاکریں گی۔ سرکاری ٹھیکے دوستوں اور رشتے داروں میں تقسیم نہیں ہوں گے۔ صاف اور شفاف عمل کے ذریعے ایسے ٹھیکوں کی بولی ہوا کرے گی۔
مجھے ہرگز خبر نہیں کہ نوکریوں اور کاروبار کے حوالے سے تحریک انصاف نے جو وعدے کئے تھے وہ پرویز خٹک کی حکومت نبھاہ رہی ہے یا نہیں۔ اپنے کو اس ضمن میں البتہ اس نے اب تک کافی حد تک بچائے رکھا ہے۔ رشوت اور بدعنوانی اگر خیبرپختون خواہ میں پرویز خٹک کی حکومت کے دوران بھی شدت سے جاری وساری ہے تو اس کا ذکر میڈیا میں اس شدت کے ساتھ ہرگز نہیں ہوتا۔
اس دوران بات کی چل نکلی ہے۔ نواز حکومت پشتونوں کو یہ یقین دلانے میں ناکام رہی ہے کہ اس منصوبے کی بدولت ممکنہ طورپر نصیب ہوئی خوش حالی میں ان کا حصہ بھی وافر ہوگا۔ پرویز خٹک یہ حصہ کئی مہینوں سے بہت شدت کے ساتھ طلب کررہے ہیں اور اب 31اکتوبر 2016ءبھی ہوگیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو اس دن کے بعد سے پرویز خٹک نے ”پٹھان تحریک انصاف“بنادیا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ نئی گیم مزید کھل کر ہمارے سامنے آئے گی۔ قلعہ بنی گالہ میں محصور ہوئے کپتان کو مگر نئی حقیقتوں کی پہچان ہوتی نظر نہیں آرہی۔