counter easy hit

کے پی کے تعلیمی نظام میں تبدیلی۔۔حقیقت یا افسانہ؟

انتخابی سال میں داخل ہوتے ہی جہاں سیاسی جماعتوں کا منشور مرکزی اہمیت اختیار کر جاتا ہے وہیں کسی نہ کسی لیول پر حکومت کرنے والی جماعتوں سے یہ سوال بھی پورے شد و مد سے پوچھا جاتا ہے کہ ان جماعتوں کی حکومتوں کی طرف سے پچھلے دور حکومت میں منشور پر کس قدر عمل ہوا۔ تحریک انصاف چونکہ تعلیم، صحت، شفافیت، انصاف اور بلدیات کے نظام میں بہتری کے نعرے کے ساتھ برسراقتدار آئی تھی اس لئے ان میدانوں میں تحریک انصاف کی کے پی حکومت کی کارکردگی جاننا بہت ضروری ہے۔ اس تحریر میں خیبر پختونخوا کے تعلیمی نظام کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

ولسن سینٹر ایشیاء پروگرام نے 2016ء میں کے پی کے تعلیمی نظام میں ہونے والی تبدیلیوں کے متعلق ایک رپورٹ پبلش کی جس میں ٹیچرز، آفیسرز، کمیونیٹیزاور والدین سے انٹرویوز کے بعد ان تمام حقائق اور دعوں کی تصدیق کی جو کے پی حکومت تین سال سے کر رہی تھی اور اس رپورٹ کے مطابق کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت نے جو تعلیمی پروگرام شروع کیا تھا وہ نہایت تیزی اور بہترین افادیت کے ساتھ جاری ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق کے پی حکومت کا یہ پراجیکٹ تعلیمی مد میں ورلڈ بنک سے ادھار لینے کی بجائے ڈی ایف آیٖ ڈی سے سپانسرڈ ہے جو مالی لحاظ سے بھی ایک کامیابی ہے۔

کے پے کے تعلیمی نظام میں آنے والی تبدیلیوں میں سے کچھ اہم مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔ صوبے بھر میں 2013ء میں پہلی جماعت سے یونیفارم تعلیمی نظام نافذ کیا گیا جس کے زریعے کے پی حکومت نے مدرسوں، گورنمنٹ اور پرائیویٹ سکولوں کے درمیان تعلیمی خلیج کم کرنے کی کوشش کی۔ اگلے سات سالوں میں یہ سلیبس میٹرک تک مکمل طور پر نافذ ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں مزید ریفارمز پر کام جاری ہے۔

۲۔ صوبے بھر میں سکولز اور ٹیچرز کی تعداد میں اضافہ کیا گیا۔ ٹیچرز پر کام کا بوجھ کم کرنے اور معیاری تعلیم کے لیے چالیس بچوں کے لیے ایک ٹیچر کا قانون بنایا گیا۔ پورے صوبے میں پچھلے چار سال میں چالیس ہزار ٹیچرز بھرتی ہوئے۔ اسی ہزار سے زائد کتابیں بچوں میں مفت تقسیم ہوئیں۔ صرف ایک شہر صوابی میں اب تک چھبیس جدید سائینس لیبارٹریز، چوبیس کمپیوٹر لیبارٹریز جبکہ بہترین کھیلوں کے میدان تعمیر ہوئے۔

۳۔ کے پی حکومت نے ان بچوں کو سکول لانے کے لیے ایک ہزار ماہانہ وظیفے کا اعلان کیا جو کام کرنے کی وجہ سے سکول نہیں جا پاتے تھے۔ اس کے علاوہ ان والدین کو چھ ماہ کی جیل کا بل بھی پاس کیا جو بچوں کو سکول نہیں بھیجتے۔ اس کے شاندار نتائج برآمد ہوئے۔ اکیڈمی آف ایجوکیشنل پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ نے 2015ء کے تعلیمی سال کے اعدادوشمار جاری کیے جن کے مطابق بچوں کے سکول میں داخلے کی تعداد میں اس سال کے پی میں ایک سو پینتیس فیصد اضافہ ہوا جبکہ پنجاب میں یہ تعداد ایک سو گیارہ فیصد رہی۔

۴۔ تعلیمی نظام کے انفراسٹرکچر اور سہولیات کو بہتر کرنے کے لیے کے پی حکومت نے بجٹ بڑھانا شروع کیا۔ جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو یہ بجٹ اکسٹھ ارب سالانہ تھا۔ کے پی حکومت نے اس میں مسلسل اضافہ کیا اور صرف چار سال میں یہ ایک سو اٹھائیس فیصد اضافے کے ساتھ ایک سو انتالیس ارب روپے پر پہنچ چکا ہے۔

۵۔ دہشتگردی سے تباہ حال سکولوں کی تعمیر نو کا کام شروع ہوا اور نوے فیصد تک مکمل ہو چکا ہے۔ صرف مالا کنڈ ڈویژن میں ایک سو بیاسی سکولوں میں سے ایک سو اناسی سکولوں کی تعمیر نو کا کام مکمل ہو چکا ہے۔

۶۔ کے پی تعلیمی ریفارمز اور سہولیات نے والدین کو بھی متاثر کیا جس کے نتیجے میں پرائیویٹ سکولوں سے بچے گورنمنٹ سکولز میں شفٹ ہو نا شروع ہوئے۔ صرف 2014ء میں چونتیس ہزار بچے شفٹ ہوئے جبکہ اب کل چار سال میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد بچے گورنمنٹ سکولز کا رخ کر چکے ہیں۔

کے پی حکومت کی تعلیمی کامیابیوں کا جب بھی ذکر ہوتا ہے تو دو اعتراض سامنے آتے ہیں۔ پہلا اعتراض یہ ہے کہ کے پی حکومت نے دو سو کے قریب سکول بند کیوں کیے۔ دراصل کچھ علاقوں میں آبادی بہت کم ہے جس وجہ سے وہاں بچوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ اسی جگہ پر ایک اور سکول کی سہولت بھی میسر ہے تو انتظامی اور مالی بچت کے لیے ایسے سکول بند کیے جن کی ضرورت نہیں تھی۔

دوسرا اعتراض یہ ہے کہ میٹرک کے امتحان میں گورنمنٹ سکولز کے بچے پوزیشنز کیوں نہیں لے رہے۔ دراصل کوئی بھی نظام کی تبدیلی پرائمری سطح پر ہی لاگو کی جاتی ہے اور اسے اعلیٰ سطح پر رزلٹ دینے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ یہ بچے جو اب پرائمری تعلیم حاصل کر رہے ہیں یہ جب میٹرک تک پہنچیں گے تو ان کی تعلیمی کارکردگی میٹرک امتحانات کے نتائج میں بھی نظر آئے گی۔