اسلام آباد: ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا کا کہنا ہے کہ ویانا کنوینشن کے مطابق پاکستان چند معاملات پر عالمی عدالت کا دائرکار تسلیم نہیں کرتا اور اسی معاہدے کے مطابق کلبھوشن یادیو کا معاملہ بھی عالمی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔
ہفتہ وار بریفنگ میں ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا کا کہنا تھا کہ ویانا کنوینشن کی خلاف ورزی کے الزامات سے بھارت خود بے نقاب ہوا، پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں ویانا کنوینشن کے آرٹیکل 36 کے تحت نظرثانی شدہ یاداشت پیش کی جس میں ترمیم شدہ شقیں بھی جمع کرائی گئی ہیں، اس یاداشت کے مطابق پاکستان چند معاملات میں عالمی عدالت انصاف کا دائرہ کار تسلیم نہیں کرتا اور بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سزا یافتہ ایجنٹ کلبھوشن یادیو کا معاملہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے، کلبھوشن یادیو کئی بے گناہ پاکستانیوں کے قتل میں ملوث ہے ہمارے قانونی ماہرین نے بھی عالمی عدالت میں یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ یہ معاملہ عالمی عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔
نفیس زکریا نے کہا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال ابتر ہوچکی ہے، کشمیری رہنماؤں کو نظر بند اور حراست میں لیا جارہا ہے، آسیہ اندرابی اور صوفیہ صوفی کو خرابی صحت کے باوجود جیل بھیج دیا گیا جب کہ سید علی گیلانی کو ڈاکٹرز سے ملنے کی اجازت نہیں دی جارہی، بھارتی فوج ہندو انتہا پسند تنظیم کے ساتھ مل کر کشمیری نوجوانوں کو نشانہ بنا رہی ہے اسی انتہا پسند تنظیم نے نومبر 1947 میں لاکھوں کشمیریوں کا قتل عام کیا اور اب ایک بار پھر یہ تنظیم اپنے ایجنٹ مقبوضہ کشمیر میں بھیج رہی ہے اور وادی کی جغرافیائی حیثیت بدلنے کی کوشش کررہی ہے جس کے خلاف پاکستانی مشیر خارجہ نے اقوام متحدہ کو خط لکھا ہے اور خط میں مستقل رہائشی سرٹیفکٹ کے اجرا کو اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا اقوام متحدہ اس معاملے پر خود مداخلت کرے کیوں کہ مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کشمیریوں کی جدوجہد کو دہشت گردی ثابت کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے اور کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی تحریک کو کچلنے کی بھارتی کوششوں نے کشمیر میں ہونے والے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر عالمی برادری کی توجہ مزید مبذول کرادی ہے اب اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو بھی چاہئے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم بند کرائے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ بھارت تیزی سے اپنے ایٹمی پروگرام میں اضافہ کررہا ہے جو جنوبی ایشیا کے امن اور خصوصاً پاکستان کی سلامتی کےلئے خطرناک ہے۔ دوسری جانب بھارتی فوج ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری کی خلاف ورزیاں کررہا ہے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کا کام ہے کہ وہ ورکنگ باؤنڈی اور ایل او سی کی نگرانی کرے اور کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں علاقے کا سروے کرے، اس معاملے پر مبصرین پاکستان سے بھرپور تعاون بھی کررہے ہیں لیکن بھارت نے اقوام متحدہ کے مبصر گروپ کی نقل و حرکت پر پابندی لگا رکھی ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ پاکستان تناؤ میں اضافہ نہیں چاہتا لیکن اگر بھارت نے کوئی بھی مزاحمت کی تو پاکستان ماضی کی طرح اس کا بھرپور جواب دے گا۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کا خواہاں ہے لیکن افغان حکام کی جانب سے کوئی تعاون نہیں کیا جارہا ہے گزشتہ روز بھی افغانستان نے عالمی سفارتی آداب کی خلاف ورزی کی جب کہ چند روز قبل بھی افغان فورسز کی جانب عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا، پاک افغان سرحد چمن بارڈر کی بندش کی بنیادی وجہ بھی وہاں پر قیمتی جانوں کا ضیاع ہے جہاں بھی عوام کو خطرہ ہوگا وہاں حکومت اپنے شہریوں کو رہنے کی اجازت نہیں دے سکتی بات چیت کے بعد چمن سرحد کھول دی جائے گی۔