ربِ کائنات نے اِنسان کو اشرف المخلوقات تخلیق کرکے اِس فانی دنیا میں بھیجا، اُسے عقل و شعور عطا کرکے اچھے اور بُرے کی تمیز سے آشنا کیا۔ انسان کو اس کی ان ہی صفات کی بِنا اعلٰی ظرف تصور کیا جاتا ہے۔ انسان میں ایک مادہ پیدا کیا جسے صبر و تحمل، برداشت کہتے ہیں۔ اسی صبر و تحمل کے ساتھ انسان شیِریں سُخن ہو تو وہ مسائل سے بَخوبی نِمٹ سکتا ہے۔
بجا کہ معاشروں کے اِقدار میں یَکدم تبدیلیاں پیدا نہیں ہوا کرتیں، ان تبدیلوں کے پیچھے مختلف عوامل کی ایک طویل تاریخ ہوا کرتی ہے۔ ہمارے سَماج سے بھی برداشت اور عمل آن واحد میں نایاب نہیں ہوۓ بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ کی ہَوس اور اس کی خاطر بہر صورت طاقتور اور بار سُوخ ہونے کی طَمع نے ان سماجی اوصاف کا گلا دبانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور حالات سب سامنے ہیں۔ آپ یہ سنتے ہی ہوں گے کہ “جیسے حکمران ہوتے ہیں، ویسے ہی عوام ہوتی ہے”۔ بھلے یہ مقولہ عام زندگی میں بولا جاتا ہو، مگر اس کا حقیقت سے کافی گہرا تعلق ہے۔ سماج کی بالائی پَرت یعنی حکمران طبقہ میں پیدا ہونے والی خرابیاں بتدریج عوام میں منتقل ہوتی چلی آرہی ہیں اور پورا سماج ان ہی قباحتوں کا شکار ہے۔ وطن عزيز کے ماضی میں زیادہ آگے جانے کی ضرورت نہیں ہے، آپ بس گذشتہ سَتر سال کا دور دیکھ لیں۔ اس میں کیا کچھ ہوتا چلا آرہا ہے اور سیاسی معاملات میں عوام کی دلچسپی کافی نمایاں نظر آئی گی۔ تاہم آپ حقیقت کو فراموش نہیں کر سکتے۔
پاکستان کے حالات نے پَندره سالوں میں جو رُخ اختیار کیا ہے، اس میں کسی قسم کا جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا۔ شائستگی، خیالات کی دُرستگی، غور و فکر کی جگہ دشنام طرازی نے لے لی ہے۔ حَزب اقتدار اور حَزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے بات کرتے ہوۓ ذہنی پَستی اور اخلاقیات سے اُتر کر ذاتیات پر آجاتی ہیں۔ ایک مرتبہ تو وزیر اِطلاعات و نَشریات مریم اورنگریب صاحبہ نے یہ اِستدعا کر ڈالی کہ خدارَا سیاست میں بہن، بیٹیوں کو مَت لائیں۔ اِن کی اِس بات کا اثر مَحض وقتی طور پر رہا۔ اب حالات نے ایسا پلٹا کھایا گویا کہ مُلک میں دریدہ دہنی کا مقابلہ ہی شروع ہوگیا ہو اور اب تک جاری ہے۔ ایسا کوئی دن نہیں جاتا کہ ایک دوسرے پر لفاظی حملے نہ کیے جاتے ہوں، طعن و تشنیع کی تو جیسے عادت سی ہوگئی ہو۔ ملک کے دانشور طبقے نے ان کی اصلاح اور سیاستدانوں کو اِس چلن سے دُور رکھنے کی کوشش تو کی ہے، مگر خدانخواستہ حالات قابو سے باہر ہوگئے تو حالات کو بہتری کی جانب لانا مشکل ہوجاۓ گا۔
افسوس کہ جمہوریت کے کئی سال کے تسلسل کے بعد حالات پہلے سے زیادہ ابتر ہیں۔ بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے لیے جمہوریت مُوزوں نظام نہیں ہے۔ لیکن اِسی جمہوریت کے خاطر کئی قربانیاں دی گئی ہیں۔ جب آمریت کا ملک پر سایہ تھا تو لوگ جمہوریت کے متلاشی تھے لیکن جب جمہوری نِظام رائج ہے تو ہم نے اس کے تقدُس کو پامال کیا ہے۔ اخلاقیات کا جو جنازہ نکالا ہے اس کے بارے میں سوچنا چاہئیے۔ آمریت میں کم از کم یہ تو معلوم ہوتا تھاکہ کس سے خوف کھانا ہے اور کس سے بچ نکلنا ہے۔ جمہوریت میں تو یہ آگاہی بھی چھین لی ہے۔ اگر سیاسی جماعت کے لیڈرز ایک دوسرے کو دھمکیاں دیں گے تو ان کے کارکن باہم دست و گریباں تو ہوں گے۔ خدا نخواستہ یہ سلسلہ آگے انتشار کی جانب گامزن ہو جاتا ہے تو سیاستدان ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
سیاستدانوں کو چاہئیے کہ سیاست کو شائستگی، صبر و تحمل، برداشت اور رَواداری کے ساتھ کریں، نہیں تو دوسرے ممالک کی سیاست کے اصول اِن کے سامنے ہیں۔ ان سے ہی کچھ اوصاف مُستعار لے لیں۔ انتخابات کی آمد آمد ہے، شائد اسی لیے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے عُیوب تلاش کرنے میں لگ گئی ہیں جن سے انتخابی فِضا مسموم ہونے کا خدشہ ہے۔ اس وقت سیاستدانوں کو غور و فکر کے ساتھ کام لینا ہوگا کیونکہ عوام حکمرانوں سے براہ راست متاثر ہوتی ہے۔ اس لیے حکمرانوں کو چاہئیے کہ وہ عوام کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان پر اپنا مثبت تاثُر پیدا کریں۔ عوام کے سامنے اپنے آپ کو ایک مثالی نمونہ بن کے دکھائیں۔ یہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کا کَڑا امتحان ہے۔v