تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
پاکستانی حکمرانوں کو آج کوئی یہ شعور دینے والا نہیں ہے کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی کو ری وزٹ کریں ۔کیونکہ ہندوستان اپنے جا رحانہ حربوں سے یورپ کے ساتھ مل کر ہمیں ہر ہر لمحہ تنہائی کے گڑھے کی جانب دھکیل رہا ہے۔چانکیہ کی ذہنیت کی حامل ہندو بیورو کریسی کوئی ایسا موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دے رہی ہے جس سے پاکستان کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔امریکہ ہندوستان اور اسرائیل مل کر ہمیں ہر لمحہ بین الاقوامی تنہائی کی جانب بڑی تیزی کے ساتھ دھکیلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس میں ہمارے خارجہ امور کے کرتا دھرتا بھی کسی نہ کسی شکل میں شامل ہیں۔آج دنیا کے ممالک میں ہماری چار عشروں قبل کی قدر و منزلت کا عشر و عشیر بھی نہیں ہے۔مسلم دنیا میں پاکستان کی طوطی بولتی تھی۔
اُس دور میں ہر ملک ہم سے دوستی کا خوہا ں ہوا کرتا تھا۔ہماری لیبر فورس ساری دنیا میں اہمیت کا مقام رکھتی تھی ۔عرب دنیا میں خاص طور پر پاکستان کے لوگ ہی خدمات فراہم کر رہے تھے۔ مگر آج ہمین کوئی پوچھتا تک نہیں ہے کبھی ہمارے پالیسی میکرز نے اس بات پر توجہ دی ہے ؟ہماری معیشت کا گراف ہندوستان کی معیشت سے کہیں اونچا تھا ہماری کرنسی ہندوستان سے دوگنی ما لیت کی حامل تھی مگر آج سب کچھ ماضی کے بر عکس اُلٹ ہو چکی ہے۔اس پر کسی نے کیا کبھی غورکیا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ان باتوں کی کئی وجوہات ہیں ۔ جن میں سب سے بڑی وجہ فوجی ٹولے کا اقتدار پربار بار شب خوون مارنااور دوسری بڑی وجہ نا اہل حکمرانوں کا اقتدار میں آنا تیسری وجہ حُب الالوطنی کا فقدان اور مملکت کے مال پر دیدے لال رکھنا۔
نااہل فوجی حکمرانوں نے امریکہ کے ساتھ مل کر ہمیں دہشت گردی کے عذاب میں مبتلا کیا تو ہم ترقی کے راستے بھول کر دہشت گردی کی ڈگر پر لوگوں کو لے گئے ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا پورا معاشرہ دنیا کی نظروں میں دہشت گرد گردانا جانے لگا۔امریکہ نے روس کی تخریب کے ساتھ اپنا الو سیدھا کیا اور ہمیں دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ہم پر ہر قسم کی دہشت گردی کے الزامات لگانا شروع کر دیئے۔
امریکہ کی یاری پاکستان پر سب سے بھاری کے مصداق آج ہم دنیا میں تذلیل کے ساتھ زندہ ہیں ۔ اس کھیل میں ہمارا ازلی دشمن ہندوستاں اسرائیل کے ساتھ مل کر ہماری تخریب میں بیک ڈور سے اور جب موقعہ ملتا ہے سامنے سے ہم پر وار کرنے سے چوکتا نہیں ہے۔جو مسلسل ہماری تخریب پر عمل پیرا ہے اور ہماری بد نصیبی یہ ہے کہ ہم آدھا ملک گنوانے کے باوجود اپنا کشمیر ہندوستا ن کے چُنگل سے نہ نکال سکے بلکہ ہماری فوجی جنتا نے تو ایک کارنامہ یہ بھی کیا کہ ایک جانب مشرقی پاکستان گنویا تو بعد کے دور میں سیاچن کا برف پوش خطہ بھی اپنے دشمن کو ہتھیانے کا کھلا موقع فراہم کر دیا۔اس میں روس و امریکہ دونوں ہی ہندو ذہنیت کو سلیوٹ کرتے دیکھے گئے ہیں۔
ہمیں دہشت گرد اسٹیٹ کی شکل دینے کے بعد آج 20،جنوری 2015، کو امریکہ کے صدر مسٹر اوبامہ اسٹیٹس آف یونین سے خطاب میں فرماتے ہیں ک”جہاں بھی دہشت گردامریکہ اور اس کے اتحادیو ں کے خلاف خطرہ ہونگے ان ُکے خلاف کار وائی کی جائے گی۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ کی برائے راست تصادم کی پالیسی سے گریز کی حکمتِ عملی کے نتیجے میں روس عالمی برادری میں تنہا رہ گیا۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ چین تیز ترین اقتصادی طاقت بننے کی کوشش کر رہا ہے لیکن د نیاکس طرح ترقی کرے گی
اس کا تعین چین نہیں امریکہ کرے گا“ ابامہ کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے روس کے خلاف امریکہ خود نہیں لڑا بلکہ ہمیںاس بھٹی کے ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا اور مطلب براری کے بعد ہمیں دودھ کی مکھی طرح نکال باہر کیا گیا!!! جس کی سزا ہم نو گیارہ کے واقعے کے بعد سے آج تک بھگت رہے ہیں۔ دوسری جانب وہ چین کو بھی دھمکی آمیز انداز میں کہتے کہ دنیا کی ترقی ہماری مرضی سے ہوگی ترقی کے حوالے سے چین کس کھیت کی مولی ہے؟یہی وجہ ہے کہ چین کی قوت کو توڑنے کی غرض سے اوبامہ ہندوستان کی خوشامد میں لگے دکھائی دیتے ہیں اور اس کو اپنا قابلِ اعتماد اتحادی ،ہندوستان کے دورے کے دوران قرار دے چکے ہیں۔
روس کی جانب سے بھی اوبامہ کے بیاںن پر ردِ عمل آیا جس میں کہا گیا کہ ”امریکہ د نیا میں اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے۔اس کی روس کو تنہا کرنے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوگی امریکہ کی جارہانہ پالیسی ایک دن ماضی کا حصہ بن جائے گی“ امریکہ یہ سارے کھیل اپنے تحفظ اور چین کو آگے برھنے سے روکنے کے لئے کھیل رہا ہے۔اور ہندوستان امریکہ کی خوشامد پاکستان کو نیچا دکھانے کے لئے کر رہا ہے۔ان دونوں ممالک کے اسٹرٹیجک پارٹنر بننے میںان کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ دونوںہی اس گندے کھیل میں ناکام و نامراد رہیں گے۔ایک وقت آئے گا کہ دنیا کی ترقی میں چین ان سب کی رہنمائی کر رہا ہوگا۔کیونکہ کاغذ کی ناﺅ زیادہ عرصہ پانی پر نہیں رہتی ہے
ہندوستان اس بات کو اعزاز سمجھتا ہے کہ امریکہ کے صدر اوبامہ ایک نہیں بلکہ دوسری مرتبہ ہندوستان کا دورہ کر کے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کہ ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری جس کو دہشت گرد کہہ کر اپنے ملک میں نہیں گھسنے دیتے،اُسی نرندر مودی کی قدم بوسی پر لگ جاتے ہیں ۔گویا امریکہ سب سے بڑا دہشت گرد ملک ہونے کے ساتھ ہی دہشت گردوں کا حامی بھی ہے۔ یہ دنیا سے دہشت گردی کیا ختم کریں گے یہ تو خود ہی دہشت گردوں کے پروموٹر ہیں۔البتہ ہندوستان نے امریکہ کو اس اعزاز سے بہر حال نواز دیا ہے کہ امریکہ کے کسی صدرِ مملکت کو پہلی مرتبہ ہندوستان کے یومِ جمہوریہ پر اعلیٰ مہمان کے طور پر شمولیت کا شرف بخشا گیا۔
جس کے صلے میں امریکہ نے بھی اس کو سلامتی کونسل کا رکن بنوانے کی پیشکش کر کے اپنا مضبوط اتحادی بھی ڈکلیئر کر دیا ۔ اس اعلان کے بعد ہندو میڈیا نے تو بغلیں بجانا شروع کردیں گویا اب پاکستان کی خیر نہیں ہے۔دوسری جانب اوبامہ نے اپنے مشترکہ اعلامیئے میں ،اور اس موقع پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ہندوستانی اسٹابلشمنٹ نے بیک زبان لشکرِ طیبہ کے حافظ محمد سعید کے بارے میں وا ویلا شروع کر دیا ۔گویادہشت گرد ،دہشت گرد کے ساتھ مل کر خدمتِ انسانیت کے علمبرداروں کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں۔ بڑی عجیب بات یہ ہے
پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف امریکہ کو ہندوستانی دہشت گردی کی پوری فائل بمعہ ثبوتوں کے دے کر آئے تھے ۔ جس پر ہماری وزارت خارجہ کے کرتا دھرتاﺅں کی خوش فہمی یہ تھی کہ اوبامہ ہندوستانیوں کی خوب خبر لیں گے اور مسئلہ کشمیر پر ہندوستان کو بات چیت کرنے پر مجبور کریں گے ۔مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوابلکہ اوبامہ تو اپنے ڈکلیئرڈ کردہ دہشت گردنریندر مودی کی خوشامد کرتے دیکھے گئے۔
ہندوستان نے اوبامہ کے دورے سے قبل ایک اور کشتی ڈرامہ پلے کیا جس کو ہندوستانی (بھونپو) میڈیا نے جی بھر کر اچھالا اور دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ ممبئی طرز کا حملہ پاکستان کی جانب سے کئے جانے کے لئے ایک مچھیروں کی لانچ،جو اسلحہ اور گولہ برود سے بھری کمانڈو ٹائپ لشکرِطیبہ کے مجاہدین کو لیکر ممبئی کے ساحل پر پہنچا چاہتی تھی ۔ کہ گھنٹہ بھر کی جدوجہد کے بعد ہندوستانی کوسٹ گارڈ نے اُسے راکٹوں کا نشانہ بنا کر سمندر برد کر دیا۔ اگلے دنوں میں تحقیقات سے انکشاف ہوا کہ وہ ہندوستانی اسمگلروں کی لانچ تھی جو شراب اور دیگر اشیاءاسمگل کر کے ہندوستان لا رہے تھے۔
اس سازش کا پردہ ہنداستان کی اسمبل مین کانگریس نے چاک کر کے رکھ دیا۔جس سے پتہ چلا کہ یہ اسمگلرز کی کشتی تھی اس میں کوئی پاکستانی سوار نہیں تھا بلکہ مرنے والے تمام کے تمام ہندوستانی اسمگلر تھے۔جس پر بی جے پی کی جانب سے کانگرس پر الزام لگایا گیا کہ کانگرس پاکستان کی زبان بول رہی ہے۔اس پروپیگنڈے کا مقصد بھی امریکہ امریکہ کو پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کرنے والے ملک کے طور پر پیش کر کے اس کی مزید ہمدردیاں سمیٹنا تھا۔جس میں وہ بری طرح سے ناکام رہا۔ دوسری جانب ہندوستان کی خوش فہمی پر اس کا میڈیارقص میں ہے
تشویش ناک بات یہ ہے کہ بی جے پی اور امریکی وزیر خارجہ کے واویلا کرنے پر حکومت، پاکستان نے دباﺅ میں آکر ایک جانب لشکرِ طیبہ کے اثاثے منجمد کر دیئے تو دوسری جانب ذکی الرحمان لکھوی کو پابند سلاسل کر کے ان پر نئے مقدمات کی تیاریا ں شروع کر دی ہیں۔حکومتِ پاکستان اور اسٹابلشمنٹ ایک ایک کر کے ان لوگوں کو دباﺅ میں لارہی ہے ۔جو کشمیر کاذ پر کھل کر بولتے اور کشمیریوں کی حمایت کرتے رہے ہیں ۔وہ چاہے وزیرستان کے لوگ ہوں یا کشمیری مجاہدین کے اخلاقی مدد گار ہوں۔ہندوستان مسئلہِ کشمیر کے خوف کیوجہ سے ہی امریکیوں کی خوشامد میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔جبکہ امریکہ چین سے خائف ہے ۔، اور مہاشے جی پاکستان کے خوف کی وجہ سے کبھی روس کے قدموں میں گرتے ہیں کبھی امریکہ کے ، اور کوشش ان کی یہ ہے کہ کشمیر پر پاکستان زبان نہ کھولے اور ہندوستان کشمیریوں کو ہمیشہ کےلئے اپنا غلام بنائے رکھے جو کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے۔
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir4khurshid@gmail.com