تحریر :رشید احمد نعیم
لاہور میں ظلم و بر بریت کی انتہا۔۔۔ تفریحی مقام پر دہشت گردی۔۔۔ درجنوں افراد کی شہادت ۔۔۔ سینکڑوں خاندان میں صفِ ما تم ۔۔۔ ستر کے قریب گھرانوں کے چراغ گل ۔۔۔ مائوں کی ہری بھری گودیں ا ناً فاناً ویران ۔۔۔ بچے باپ کی شفقت سے محروم۔۔۔ بوڑھے والدین کی کمریں ٹوٹ گئیں۔۔۔ ہنستے بستے گھروں کی زند گیاں لُٹ گئیں ۔۔۔ ہر طرف کہرام ۔۔۔ فضا سوگوار ۔۔۔ہر آنکھ اشکبار ۔۔۔ غم وغصے کے بادل چھا گئے۔۔۔ جی ہاں! گزشتہ شام لاہور کی معروف تفریح گاہ گلشنِ اقبال میں اس وقت قیامتِ صغریٰ برپا ہو گئی جب ہر طرف زندگی لہلا رہی تھی۔ چار سُو خوشیاں بکھری ہوئی تھیں۔ قہقے گونج رہے تھے ۔مسکراہٹوں کی خو شبو ہرطرف پھیلی ہوئی تھی۔پُرسکون لمحات نے ہر طرف خوشی و مسرت کی فضاء قائم کر رکھی تھی اور لاہور کے زندہ دل شہری چھُٹی کا دن انجوائے کرنے کے لیے پارک میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ننھی کلیا ں اُچھل کُود رہی تھیں۔ والدین کی آنکھوں کے تارے ”بچے من کے سچے” فرشتوں کے روپ میں خوشگوار لمحات سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ زوردار دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میںستر کے قریب افراد شہید اور تین سو کے قریب افراد زخمی ہو گئے۔دھماکہ جھولوں کے قریب ہوا ۔لاہور پولیس کے ڈی آئی جی آپریشن حیدر اشرف کے مطابق دھماکہ خود کش تھا۔اور حملہ آور نوجوان تھا جس نے بیلٹ باندہ رکھی تھی ۔
بعض عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ خودکش حملہ آور نے گلشنِ اقبال پارک کے مرکزی دروازے ک قریب جہاں لوگوں کی بڑی تعداد با ہر نکل رہی تھی اپنے آپ کو دھماکے سے اُڑا لیا۔جاں بحق افراد میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں ۔ہسپتالوں میں ایمر جنسی نا فذ کر دی گئی ہے ،صدرِ پاکستان ممنون حسین نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوے کہا کہ ایسی بذدلانہ کاررواہیوں سے دہشت گردی کے خلاف ہمارا عزم متذلزل نہیں ہو گا جبکہ وزیرِاعظم میاں نواز شریف نے دھماکے کی شدیدمذمت کرتے ہوے زخمیوں کو بہتر سے بہتر سہولیات کی فراہمی کا حکم دیا ۔وزیرِاعلیٰ میاں شہباز شریف نے صوبہ بھر میں تین روزہ سوگ کا علان کیا ہے لا ہور دھماکہ بھا رتی ایجنٹ کی گرفتاری کا ردِ عمل بھی ہو سکتا ہے تحقیقات کرتے وقت اس پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اور کبھی نہیں چا ہے گا کہ پاکستان ترقی و کامیابی کا سفر احسن طریقے سے طے کرے ،یہ تو ہماری حکومت کے ذاتی مفادات وابستہ ہیں جس کی وجہ سے صدائے احتجاج بلند نہیں کی جاتی اگر عوامی دبائو کے تحت کبھی بولنا پڑ جائے تو انتہائی نرم و نازک لب و لہجے میں بات کی جاتی ہے ۔بے گناہوں کا خون بہانے والے انسان نہیں وحشی درندے ہیں ۔
ان وحشیوں کو انسان کہنا انسانیت کی توہین ہے مگر افسوس صد افسوس کہ میاں برادران کو عوام کے جان و مال کی نسبت بھارت میں اپنا کاروبار زیادہ عزیز ہے جبکہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب خفیہ اداروں کی طرف سے حکومتِ پنجا ب کو اس قسم کے متوقع حملے کی پیشگی اطلاعات فراہم کر دی گئیں تھیں تو پھر سکیورٹی کے منا سب اقدامات کیوں نہ کیے گیے ؟؟؟فول پروف سکیورٹی کے دعوے زمین بوس کیوں ہو گیے ؟؟؟پولیس نا کوں پر عام اور شریف شہریوں کی زندگیوں کو عذاب بنانے والی پنجاب پولیس کو بیس کلو وزنی بارود اُٹھاے سڑکیں اور ناکے عبور کرتا دہشت گرد کیوں نظر نہیں آیا َ؟؟؟ لاہور دھماکہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے مگر اس کے باوجود ہمارے دشمنوں نے ہمارا جینا حرام کر
رکھا ہے سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ایٹمی طاقت اس لیے بنا تھا کہ دشمن جب چا ہے ہمارے پھول جیسے بچوں کو شہید کر دے اور جب چاہے جس طرح چاہے ہمارے شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا دے اور ہم بے بسی کی تصویربن کر لاشیں اُتھاتے اور آنسو بہاتے رہیں۔دہشت گردوں کو پکڑنے ،را کے ایجنٹ کی گرفتاری اور بھارت کی مداخلت کے ثبوتوں کے بعد بھی اگر ایٹم بم اور دیگر مزائلوں کا استعمال عمل نہیں لانا تو پھر ان کو کب استعمال کرنا ہے؟؟؟کیا یہ کھیلنے کے لیے کھلو نے بناے ہیں یا وطنِ عزیز کی حفاظت کے لیے ہتھیار بناے ہیں ؟؟؟ فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے ۔اب دوٹوک فیصلہ کرنا ہو گا صرف خالی احتجاج سے کام نہیں چلے گا
تحریر :رشید احمد نعیم