تحریر : شہزاد عمران رانا ایڈووکیٹ
مکرمی! پیشہِ وکالت سے منسلک ہونے کی وجہ سے میں روزانہ ایوانِ عدل کے اطراف میں پارکنگ مسائل سے دوچار ہوتا ہوں جس کی بڑی وجہ کار پارکنگ اسٹینڈ کی کمی یا پارکنگ پلازہ کا نہ ہونا ہے ۔ یہ مسئلہ صرف اور صرف وکلاء کے لئے نہیں بلکہ سائلین کے لئے بھی ہے جو کئی گھنٹوں پارکنگ کی تلاش کا کام کرتے ہیں۔
کچھ لوگوں کے خیال میں سیشن کورٹ فیز 2 بننے کے بعد پارکنگ مسائل ختم ہو چکے ہیں مگر ایسا نہیں ہے یہ پارکنگ ایوانِ عدل تک پیدل چلنے کچھ مجھ جیسے لوگوں کے لئے دور ہے کیونکہ میں جولائی 2012 میں ایک کار حادثہ کے نتیجے میں شدید زخمی ہو گیا تھا جس کے بعد اب تک اُن زخموں کا علاج کروا رہا ہوں۔
سیشن کورٹ فیز 2 کے افتتاح سے قبل وکلاء اور سائلین کے لئے ایوانِ عدل کے سامنے والی سڑک کے ایک سائیڈ پر باقاعدہ کار پارکنگ اسٹینڈتھامگر وہ بھی غلط تھا جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی میں خلل پڑتا تھا اور اُس کی وجہ سے ہم وکلاء مختلف لوگوں کی تنقید کا نشانہ بھی بنتے تھے مگر اس میں، میں نے کچھ ایسے لوگوں کو بھی ہم وکلاء پر تنقید کرتے سُنا ہے جو اپنے کاموں سے بے خبر ہیں۔
میری مراد پنجاب پولیس لاہور سے ہے کیونکہ ہمارے شہر میں جہاں بھی محکمہ پولیس کے دفاتر ہیں وہاں ایک سائیڈ کی مکمل سٹرک مستقل بنیادوںپربلاک کردی گئی اور آنے جانے والوں کے لئے ایک ہی سڑک ہے ہماری پولیس اس کو سیکورٹی کانام دیتی ہے مگر اُن ججوں اور وکلاء کی سیکورٹی سے سبھی اچھی طرح واقف ہیں جو پولیس کی ناقص تفتیش کے بعداللہ تعالیٰ کے سہارے گناہگار ملزمان کا سامنا کرتے ہیں۔
لاہور جیسے بڑے شہر میں دیگر عدالتوںکے علاوہ صرف دیوانی عدالتوں کی تعدادہی سو سے زیادہ ہے جن کو اور بھی مسائل درپیش ہیں مگر اُن کا ذکر آئندہ کسی تحریر میں کرنا مناسب ہوگا۔
آخر میں، میں اُمید کرتا ہوں کہ 9 جنوری کے لاہور بار کے الیکشن کے نتیجے میں کامیاب ہونے والے صدر ارشد جہانگیر جھوجہ جو ایک پروفشنل وکیل ہیں آئندہ الیکشن لاہور بار میں بائیو میٹرک نظام لانے کے ساتھ ساتھ حکومتِ وقت کی مدد سے وکلاء اور سائلین کے لئے پارکنگ مسائل کا حل بھی تلاش کرے گے۔
تحریر : شہزاد عمران رانا ایڈووکیٹ، لاہور