تحریر: محمد علی
ہمارے ملک کا دستور ہے ہی نرالا مگر باوا آدم بھی نرالا ہے۔ یہاں ملزم کو جزا اور مظلوم کو سزا ملتی ہے، یہاں ایک عام آدمی کو اپنا حق اور انصاف لینے کیلئے طویل جدو جہد کرنی پڑتی ہے، میرے ملک میں اگر کسی عام آدمی کو اپنا حق حاصل کرنا ہو یاپھر وہ انصاف کا طلب گار ہو تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ احتجاج کرے، سڑکیں بلا ک کرے یا پھر بھوک ہڑتال کرے اگر ان سب سے بھی بات نہ بنے تو پھر آخری اقدام یہ ہے کہ وہ خودکشی کر لے، خود تو وہ اللہ کے پاس پہنچ جاتا ہے مگراس کی فریاد صاحب اقتدار تک پہنچ جاتی ہے، یہ سارے پاپڑ بیلنے کے بعد بھی اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ اسے انصاف مل پائے گا یہ پھر اس کا حق اس کو دے دیا جائے گا۔
دوسری طرف اگر اس ملک کے کسی بڑے کو انصاف یا اپنا حق لینا ہو تو ،پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی کسی بڑے کا حق مارنے اور اس سے نا انصافی کی جسارت کرے گا ہی نہیں اور اگر ایسا کوئی سانحہ ہو بھی جائے تو اس بڑے کو کسی احتجاج کرنے ،سڑک بلاک کرنے،یا پھر بھوک ہڑتال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، بلکہ صرف ایک فون کا ل پر اس کا حق اس کی دہلیزپر مہیا کر دیا جاتا ہے،اور یہاں تک کے بعض کو تو وہ حق بھی دے دیا جاتا جو دراصل ان کا ہوتا ہی نہیں اور حق لینے والا خود حیران ہو کر اپنے آپ سے سوال کرتا ہے کہ اچھا اس چیز پر بھی میرا حق تھا؟قارئین کرام !آج میں جو قصہ آپ کے گوش گزار کرنے جارہا ہوں اس قصے کا تعلق تخت لاہور میں واقع پنجاب کے سب سے بڑے سرکاری ہیڈ کوارٹر پنجاب سول سیکرٹریٹ سے ہے یہ قصہ کچھ یوں ہے کہ 2010میں سیکرٹریٹ کے ادارے ایس اینڈ جی اے ڈی میں سکیل 07اور سکیل 01 ملازمین کو اخبارات میں اشتہار دے کر بھرتی کیا گیا یقینا یہ بھرتی تمام قواعد و ضوابط کو مد نظر رکھتے ہوئے کی گئی ہو گی، کیو نکہ جس صوبے میں شہباز شریف جیسا دبنگ وزیراعلی ہو وہا ں بھلا کس ادارے کی مجال ہے کہ وہ قواعد ضوابط سے ہٹ کر کوئی کام کر جائے اور پھر اس ادارے میں جو پنجاب کے تما م سرکاری اداروں کا ہیڈ کوارٹر ہو اور براہ راست وزیر اعلی کی نگرانی میں ہو۔
قارئین ان ملازمین کی بھرتی 5سالہ کنٹریکٹ کی بنیاد پر کی گئی اور بھرتی کے بعد تمام ملازمین کی پوسٹنگ مختلف سرکاری محکموں میں کر دی گئی ،یہ ملازمین اس وقت کی حکومت جو موجودہ حکومت بھی ہے کو دعائیں دیتے ہوئے اپنے اپنے محکموں میں اپنے فرائض سرانجام دینے لگے اور بھلا یہ لوگ حکومت کو دعائیں دیتے بھی کیوں نہ ،ان ملازمین کو روٹی روزی کمانے کا باعزت طریقہ میسر آگیا تھا ۔اس کے بعد 2012 میں اسی محکمے ایس اینڈ جی اے ڈی نے مزید 50سے55 نائب قاصدملازمین کو بھرتی کیا اب قانونی اور سنیارٹی کے لحاظ سے 2012میں بھرتی ہونے والے ملازمین 2010 میں بھرتی ہونے والے ملازمین سے جونیئر ہوئے۔
بہرحال 2013میں وزیراعلی پنجاب کی جانب سے تمام کنٹریکٹ سرکاری ملازمین کو ریگولر کرنے کا اعلان کردیا گیا جس کا بعد میں باقاعدہ نوٹیفیکیشن بھی جاری کیا گیا ،یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ وزیراعلی کے اعلان کے باوجود ابھی تک بھی بہت سے سر کاری اداروں نے اس پر عمل درآمد نہیں کیا ۔بہرحال بات ہو رہی تھی پنجاب سول سیکرٹریٹ کے ملازمین کی تو ان کو بھی وزیراعلی کے حکم کی بجاآوری کرتے ہو ئے ریگولر کر دیا گیا۔قارئین آپ یقینا سوچ رہے ہو ں گے کہ اس میں حیرت والی بھلا کون سی بات ہے؟ تو جناب یہ بات حیرت والی نہیں لیکن یہ جان کر آپ کو ضرور حیرت ہوگی کہ 2010 میں بھرتی ہونے والے ملازمین میں سے تقریباً 55 ملازمین کو چھوڑ کر با قیوں کو ریگولر کر دیا گیایہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ 2012 میں بھرتی ہونے والے تمام ملازمین کو بھی ریگولر کر دیا گیا، بیور کریسی کے اس اقدام نے تمام سرکاری ملازمین کو اور بالخصوص 2010 میں بھرتی ہونے والے ان 55 ملازمین کوورطئہ حیرت میں ڈال دیا کہ آخر یہ کیا منطق ہوئی کہ ساتھ بھرتی ہونے والوں کو بھی اور ان کو بھی جو ان سے جونیئر تھے کو بھی ریگولر کردیاگیا ۔جب یہ 55ملازمین حیرت میں ڈوبے ہوئے اپنے آفسیران بالا کے پاس پہنچے تو ان کو اس منظق کا جواب یہ ملا کہ 2010میں جب ان کی بھرتی کی گئی تھی تو اس وقت یہ 55لوگ زائدبھرتی ہوگئے تھے اس لئے ان کو ریگولر نہیں کیا گیا ۔ جب ان ملازمین نے آفسیران بالا سے یہ پو چھا کے آپ نے یہ کس طرح فیصلہ کیا ہے کہ ہم ہی زائد بھرتی ہوئے ہیں،اور اس کیلئے آپ نے کون ساپیمانہ اور کس کسوٹی پر رکھ کر جانچ پڑتال کی ہے ، ہمیں وہ پس پردہ حقا ئق بتائے جائیں کیونکہ یہ ہمارے ساتھ نا انصافی ہے ،چونکہ جو ملازمین ریگولر ہوئے ہیں ان میں اکثرنے تو ہم سے بعد میں جوائنگ دی تھی اور بہت سے تو ہم سے بعد میں بھرتی ہوئے اور اگر ہم زائد بھرتی ہو گئے تھے تو پھر ہمارے بعد مزید بھرتی کیسے عمل میں لائی گئی؟ اور ہمیں تنخوائیں کہاں سے ادا کی جاتی رہیں؟ ۔لیکن ان کو آفسیران بالا کی جانب سے کسی سوال کا جواب نہیں دیا گیا یا شاید ان کے پاس ان ملازمین کے سوالوں کا جواب تھا ہی نہیں۔
بہرحال مشکل کی اس گھڑی میں اس وقت کی برسر اقتدار ایسوسی ایشن ان ملازمین کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی اور ملازمین کو ان کا حق دلانے کیلئے چیف سیکرٹری پنجاب سے لے کر سیکشن آفیسر تک ہر دروازہ کھٹکھٹایالیکن جب ملازمین کو ایسوسی ایشن کی بھرپور کوششیں پوری طرح سے بار آور ثابت ہوتی نظر نہ آئیں تو ان ملازمین نے احتجاج ریکارڈ کرانے کا فیصلہ کیا اور جب ان کا احتجاج الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنا تو آفسیران بالا نے ملازمین کو بلا کر ان کو بھی ریگولر کرنے کی یقین دہانی کروائی اور ان کو اپنے اپنے محکموں میں کا م جاری رکھنے کی تلقین کی ،لیکن حقیقت میں ان آفیسر ان بالاکا ملازمین کو ریگولر کرنے کا کو ئی ارادہ نہ تھا اس لئے اس معاملہ کو لٹکانے کیلئے تاخیری حربے استعمال کئے جانے لگے اور روایتی سرخ فیتہ ہاتھوں میں پکڑ لیا گیا، اس میں سب سے اہم کردار سابقہ ڈپٹی سیکرٹری پر سانل کا تھا جنہوں نے کمال ہوشیاری سے متاثرہ ملازمین کو (ٹرک کی بتی کے پیچھے )لگا دیا اس دوران سابقہ ڈپٹی سیکرٹری پرسانل نے ان متاثرہ ملازمین اور ایسوسی ایشن کو کئی بار یقین دہانی کروائی کہ ان ملازمین کو ریگولر کر دیا جائے گا بلکہ موصوف نے تو ایک بار کلمہ پڑھ کر ان ملازمین کو یقین دلایا کہ میں آئندہ چند روز میں ریٹائر ہونے والا ہوں اور اپنی ریٹائر منٹ سے پہلے ان ملازمین کو ریگولر کر کے جائوں گا اور آخر کار موصوف کی ریٹائرمنٹ کا دن بھی قریب آ گیا اور ایسوسی ایشن کی جانب سے ان کیلئے الوداعی پارٹی بھی رکھ دی گئی ،اور طے یہ پایا کہ اس تقریب میں ڈپٹی سیکرٹری پر سانل متاثرہ ملازمین میں ریگولر کرنے کے آرڈر تقسیم کریں گے ۔حالانکہ موصوف کی الوادعی پا رٹی رکھنے پر ایسوسی ایشن کو پنجاب سول سیکرٹریٹ کے تقریباً تمام ملازمین کی جانب سے کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ موصوف کے ماضی کو پیش نظر رکھتے ہو ئے ملازمین توموصوف ڈپٹی سیکرٹری کی ریٹائر منٹ پر یوم نجات منانے کا ارادہ رکھتے تھے ۔بہر حال موصوف نے عین موقع پر الوادعی تقریب میں شرکت سے معذرت کر لی ۔کیونکہ مصوف یہ تہہ کر چکے تھے کہ وہ یہ بھلائی کا کام کسی صورت نہیں کریں گے۔
موصوف جاتے جاتے خود تو 19واں سکیل لے اڑے یا پھر شاید ان کو 55خاندانوں کی روٹی روزی پر لات مارنے کا انعام دیا گیا۔اب صورت حال یہ ہے کہ ان ملازمین کا کنٹریکٹ ختم ہو چکا ہے اور ان کی تنخوائیں بند ہو چکی ہیں ،ان کے بچوں کے سکولوںکی فیسوں کی ادائیگی رک گئی ہے، یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی رک گئی ہے، گھر کا راشن لانا تو دور کی با ت اپنے بوڑھے والدین کیلئے دوائی لانا محال ہو چکا ہے، لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں اب ان کے پاس واحد راستہ یہی ہے کہ وہ احتجاج کرتے ہو ئے سڑکوں پر آجائیں اور پولیس سے ڈنڈے سوٹے کھائیں یا پھر ان میں سے دو تین اپنی جان سے جائیں تو ہو سکتا ہے ان کی آواز صاحب اقتدار تک پہنچ جائے ۔قارئین کرام پاکستان کے دل ،پنجاب کے شہر اقتدار اور تخت لاہور میں 50سے زائد ملازمین کا اپنے حق کیلئے یوں در بدر بھٹکنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یا تو اس صوبے کا وزیراعلی شہباز شریف نہیں یا پھر خادم اعلی کی گرفت دن بدن اس صوبے پر کمزورہوتی چلی جارہی ہے یا پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سول سیکرٹریٹ کے سابقہ ڈپٹی سیکرٹری پرسانل جیسے لوگ پنجاب میں وزیر اعلی کے گڈگورننس کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے نہیں دے رہے۔اور ملازمین کے بارے حکومت کے ویلفیئر کے وژن کے سامنے روڑے اٹکاتے ہیں۔
تحریر: محمد علی