تحریر : سالار سلیمان
زندہ قومیں اپنے قومی ہیروز کی قدر کرتی ہیں،اُن کے ناموں کو زندہ رکھتی ہیں اور انہیں اپنی سر آنکھوں پر بٹھاتی ہیں لیکن ہم عجیب قوم ہیں کہ ہم اپنے ہیروز کو جیتے جی مار دیتے ہیںاور اُنکے مرنے کے بعد فاتحہ بھی شاید نہیں پڑھتے اور بھولنے میں چند سیکنڈرز کا وقفہ لیتے ہیں۔ کل حمید گل کی برسی تھی’ وہی حمید گل کہ جس کی ریٹائرمنٹ پر دہلی، واشنگٹن، تل ابیب اور ماسکو میں خوشیاں منائی گئی تھیںاور جس کی طبعی موت نے مغرب کے تھنک ٹینکس میں خوشیاں بکھیر دیں۔ حمید گل آخری وقت تک فوجی ہی تھے اور انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی محاذ نہیں چھوڑا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ دفاع پاکستان کی بات کی اور انہوں نے آخری وقت تک پاکستان کا ہر لحاظ سے دفاع بھی کیاوہ چاہے عسکری میدانوں میں ہو یا پھر فکری میدانوں میں ہو، حمید گل کا کوئی ثانی نہیں تھا میں نے ٹیلی ویژن پر متعدد مرتبہ اُن کو سنا تھا ۔ بل مشافہ ملاقات کا موقعہ زیادہ ملا نہیں لیکن جب بھی لاہور میں کسی پروگرام میں ملاقات ہوئی تو ان کو انتہائی شفیق ہی پایا۔ اُن کے فرزند عبداللہ گل اب تحریک نوجوانان پاکستان کیپلیٹ فارم سے حمید گل مرحوم کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
جس دور میں جنرل حمید گل نے آئی ایس آئی کی قیادت سنبھالی تھی و ہ پاکستان کی عسکری تاریخ لے لحاظ سے ایک مشکل دور تھا۔ پاکستان کے پڑوس میں جنگ جاری تھی اورجنگ بھی ایسی تھی کہ سرخ ایشیاء کا خواب یا تو پورا ہونا تھا اور یا ں اُس نے مٹ جانا تھا۔ روس نے افغانستان کی فضاء کو بارو د میں نہلا دیا تھا اور یہ صاف ظاہر تھا کہ اس کا اگلا ٹارگٹ پاکستان ہوگا۔ 1987 ء سے 1989ء کا دور پاکستان کیلئے افغانستان کے حوالے سے مشکل ترین ادوار میں سے ایک تھا۔ روس ٹوٹنے کے بعد واپس جا رہا تھا لیکن اس کی کوشش تھی کہ وہ اپنی باقیات کو اسی خطے میں چھوڑ جائے تاکہ کل کو وہ اس کے کام آ سکیں۔ یہ بات کسی بھی محب وطن پاکستانی کو قبول نہیں تھی اور جنرل حمید گل نے بھی یہی فیصلہ کیا کہ چونکہ روس پر ہزیمت اٹھا چکا ہے تو وہ اس خطے سے اپنی باقیات کے سمیت ہی جائیگا۔
یوں ‘سرخ ایشیاء ‘ کا خواب بھی جنرل حمید گل نے توڑ دیا۔ دوسری جانب بھارت کا خواب تھا کہ پاکستان جب اپنے مغرب سے کمزور ہو جائے تو اس کو مشرق سے چھیڑا جائے تاکہ وہ او ر کمزور ہوکر مزید ٹکروں میں بٹ جائے ۔ 1989ء میں بھارت نے بڑے پیمانے پر سرحد کے ساتھ ساتھ جنگی مشقیں شروع کی تھیں اور جواب میں جب پاکستان کی جانب سے ضرب مومن کے نام سے جنگی مشقیں شروع ہوئیں تو بھارت کی توپیں خاموشی کے ساتھ جس راستے سے آئی تھیں ‘ اُسی راستے سے واپس چلی گئیں۔ ا س سازش کا سدباب بھی جنرل حمید گل ہی نے کیا تھا۔ بھارت نے اسی دور میں کشمیر میں مظالم کی نئی داستان رقم کی تھی اور جنرل حمید گل نے اخلاقی لحاظ سمیت ہر لحاظ سے کشمیریوں کی مدد بھی کی تھی ۔ تاہم بعد میں اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہ کر سکنے کی صلاحیت کی وجہ سے جنرل حمید گل نے 1991ء میں آرمی سے باعزت ریٹائرمنٹ لے لی۔ وہ آرمی سے ریٹائر ہونے کے باوجود مرتے دم تک ایک فوجی ہی تھے۔
جب افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا تو جنرل حمید گل نے اسی وقت کہا تھا کہ نائن الیون بہانہ ہے، افغانستان ٹھکانہ ہے اور پاکستان نشانہ ہے۔ اس وقت تک شاید یہ بات مذاق لگ رہی ہو تاہم بعد کے واقعات نے جنرل حمید گل کی بصیرت کو ایک مرتبہ پھر سے سچ ثابت کر دیا۔ ٹی وی پر جنرل حمید گل کبھی بھی پرسنل پروفائلنگ کیلئے نہیں آئے اور جب بھی آئے ‘ جس بھی پروگرام اور انٹرویو میں آئے انہوں نے پاکستان کے دفاع اور ملکی صورتحال پر ہی بات کی ۔ وہ اکثر ایک بات کہتے تھے کہ جب موت آنی ہے تو وہ چار انچ کی ایک گولی سے بھی آ جانی ہے اور سات پردے بھی کسی کام کے نہیں ہونگے تو میں پھر موت سے کیوں ڈروں؟ جنرل صاحب پاکستان میں کیوں متنازعہ تھے اُن کو پاکستان میں کیوں اور کس کے کہنے پر متنازعہ کیا گیا یہ ایک الگ با ت ہے اور ہم اس پر کسی اور نشست میں بات کریں گے تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ انہوں نے ہر دور میں کلمہ حق بلند کیا تھااور جب جہاد کو عالمی سطح پر متنازعہ کیا جا رہا تھا تو جنرل حمید گل نے جہاد اور دہشت گردی میں فرق کو بالکل واضح کیا تھا۔
امت کا درد دل رکھنے والاانسان آخری وقت تک امت کو یہی باور کرواتا رہا کہ ایٹمی پاکستان ہمارے دشمنوں کو قبول نہیں ہے ‘ خدارا اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرو۔ ہم بجائے جنرل حمید گل کی ذات کو ڈسکس کرنے کے ‘ اُن کے وہ کام کیوں نہیں یاد کرتے جو انہوں نے قوم کیلئے سر انجام دیے ہیں؟ کیا اس بات میں کوئی شک ہے کہ انہوں نے وطن دشمنوں کا ہر محاذ پر مقابلہ کیا ہے ؟ کیااس بات میں کوئی شک ہے کہ وہ آخری وقت تک محض ایک پاکستانی تھے؟ کیااس بات میں کوئی شک ہے کہ انہوں نے ہمیشہ پاکستان کی وحدت کی بات کی ہے اور ہمیشہ دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر منہ توڑ جواب دیا ہے ۔ اگر نہیں تو پھر اُن کی ذات پر کیچڑ کیوں اچھالا جا رہا ہے؟۔
میں آج جب قوم کی جانب دیکھتا ہوں تو حمید گل یاد آتے ہیں ‘ اُن کا خلا ابھی تک پر نہیں ہو سکا ہے ۔ اللہ اُن کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ۔ابھی 15اگست کو اُن کی برسی گزری ہے اور ایک عالم میں خاموشی طاری ہے۔ کسی نے اُن کی خدما ت کا ذکر نہیں کیا۔ کسی نے اُ ن کی زندگی کے روشن پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی زحمت نہیں کی۔اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم ہیروز کی قدر کر سکیں جنرل حمید گل میرے لئے ہیروہی تھے اور مجھے یقین ہے کہ اُن کے چاہنے والے آج بھی اُن کی قومی خدمات کا اعتراف کرتے ہونگے۔ میرا یقین ہے کہ جنرل حمید گل لوگوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں ۔اللہ اُن کی مغفرت کریں اور ان کو جنت میں اعلیٰ مقام دیں۔
تحریر : سالار سلیمان