لاہور ہائی کورٹ نے غیر قانونی طور پر حراست میں لیے گئے افراد کو دوپہر 2 بجے تک رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس انوارالحق نے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کے خلاف درخواست پر سماعت کی، اس دوران عدالتی حکم پر سیکریٹری داخلہ اور انسپکٹر جنرل (آئی جی ) پنجاب عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت جسٹس انوالحق نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے پاس کوئی فہرست ہے، جن کو آپنے حراست میں لیاہے؟ اس پر سیکریٹری داخلہ پنجاب نے بتایا کہ 141 افراد کو حراست میں لیا گیا۔
اس پر عدالت کی جانب سے پوچھا گیا کہ جن افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ان کی فہرست فوری عدالت میں دیں، ایسی کوئی حرکت نہیں ہونی چاہیے جس سے نظام خراب ہو۔
جس پر آئی جی پنجاب نے بتایا کہ دہشت گردی کے پیش نظر گرفتاریاں کی گئی ہیں، لاہور اور پورے پنجاب میں دہشت گردی کا خطرہ ہے، اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ قابل قدر بات ہے کہ آپ بہت محتاط ہیں لیکن عدالت کو بتایا جائے کہ کس الزام میں لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ اگر فہرستیں غلط فراہم کی گئیں تو توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی، جو لوگ خطرے کا باعث ہیں ان کو ضرور پکڑیں لیکن کسی بھی شخص کو غیر قانونی طور پر حراست میں نہیں رکھنا۔
اس دوران درخواست گزار نصیر بھٹہ کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ احتجاج کرنا سب کا آئینی و قانونی حق ہے لیکن غیر قانونی طور پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور ورکرز کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، عدالت تمام لیگی رہنماؤں اور کارکنوں کو رہا کرنے کا حکم جاری کرے۔
بعد ازاں عدالت نے غیر قانونی طور پر حراست میں لیے گئے افراد کو دوپہر 2 بجے تک رہا کرنے اور سیکریٹری داخلہ اور آئی جی پنجاب کو حراست میں لیے گئے افراد کی فہرست پیش کرنے کا بھی حکم دے دیا۔
خیال رہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا پانے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز جمعہ کی شام کو پاکستان واپس پہنچیں گے، اس سلسلے میں لیگی کارکنوں کی جانب سے ان کے استقبال کے لیے تیاریاں کی گئی ہیں۔
تاہم گزشتہ 2 روز سے لاہور پولیس نے نواز شریف اور مریم نواز کے استقبال کی تیاریاں کرنے والے مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار کرلیا تھا، گرفتار افراد میں یونین کونسل کے چیئرمین، وائس چیئرمین اور کونسلرز بھی شامل تھے۔
واضح رہے کہ 6 جولائی کو شریف خاندان کے خلاف نیب کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال جبکہ داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔