تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
منہاج القرآن شعبہ خواتین کی جانب سے 2 جنوری بروزہفتہ ”امن” کے موضوع پر PC لاہور میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میںمجھے بھی شرکت کادعوت نامہ موصول ہوا ۔عام طورپر میںایسی تقاریب سے پرہیز ہی کرتی ہوںلیکن منہاج القرآن شعبہ خواتین کی طرف سے اصرارہی اتناتھا کہ جاتے ہی بَن پڑی۔ تقریب کے اختتام پرمیرا ذاتی خیال تھاکہ اگرمیں تقریب میںنہ جاتی توبہت سی مفید معلومات سے محروم رہتی۔ میں جب لگ بھگ 2 بجے PC کے پرل ہال میں پہنچی توہال کوخواتین سے کھچاکھچ بھرادیکھ کرخوشگوار حیرت ہوئی ۔تقریب کے مہمانِ خصوصی محترم پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری تھے جن کی پُرمغز گفتگونے سامعین پرگہرا اثرچھوڑا۔ تقریب کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ یہ سیاسی الائشوں سے پاک تھی اوراِس تقریب میںسیاست کے کسی پہلو پربھی بحث ہوئی نہ تنقید۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے خطاب میں دھیمے لہجے میںاسلام میںخواتین کے کردارکا ذکرکرتے ہوئے عورت کی خودمختاری اور سوسائٹی میںباعزت مقام کو قُرآن وحدیث کی روشنی میںاجاگر کیا اور تاریخی حوالوںسے ثابت کیاکہ دینِ مبیںمیں خواتین ہمیشہ علم وامن کے لیے کوشاں رہی ہیں ۔اُنہوںنے دہشت گردی پر بھی سیرحاصل گفتگو کی اوردہشت گردی کے خاتمے کے لیے افواجِ پاکستان کی کاوشوں اورقربانیوں کوسراہا۔اُنہوں نے نئے ابھرنے والے ”داعش” نامی فتنے کا بھی ذکر کیا جو تیزی سے عالمِ اسلام میںپھیل رہاہے اورجس کے تدارک کے لیے تاحال ٹھوس اقدامات سامنے نہیں آئے ۔
دراصل یہ تقریب ڈاکٹر صاحب کے پچیس کتابوںپر مشتمل ”امن نصاب” کی تعارفی تقریب تھی ۔ ڈاکٹر صاحب نے نسلِ نَو کے لیے دِلی درد کے ساتھ سیاسی آلائشوں سے پاک ایسا ” امن نصاب ” مرتب کیا جوارضِ وطن میںامن کی فضاء قائم کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوسکتا ہے ۔ڈاکٹر صاحب کی سیاست اوراندازِسیاست سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن اُنہوںنے جس محنت اورعرق ریزی سے یہ نصاب مرتب کیاہے ،اُس سے اختلاف کی گنجائش نہیں ۔اگر ہمارے حکمران سیاسی مصلحتوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ملک و قوم کی بہتری کی خاطر ”امن نصاب ” کونافذ کر دیں تو ہمارے خیال میں ملک نہ صرف امن کا گَہوارہ بن سکتا ہے بلکہ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹکارا مِل سکتا ہے۔مگرسلگتا ہواسوال تو یہ کہ اِس ” امن نصاب ” کا نفاذ ممکن کیسے ہو گاجبکہ ہمارے ہاں تولبرل اورسیکولر دانشوروں کا”دبستاں” کھلا ہوا ہے اورنصابِ امن دینِ مبیںکے تابع۔
ہمارے لبرل اورسیکولر دانشور ”لبرل پاکستان” کی حمایت میں اپنی تمام توانائیاں صرف کرتے ہوئے دھڑادھڑ کالم لکھ رہے ہیں ۔وزیرِاعظم صاحب نے ”لبرل پاکستان” کاذکر کیاچھیڑا ،گویا دبستاں کھُل گیا اورسیکولر دانشوروں کی چاندی ہوگئی ۔وزیرِاعظم صاحب کی ”لبرل” سے مراد تو شاید اخوت ومحبت اوررواداری ہوگی جو عین اسلام ہے لیکن سیکولردانشور اسے کوئی اورہی معنی پہناتے ہوئے” شخصی آزادی” کے نام پرمادرپدر آزاد معاشرے کی تشکیل پرزور دیتے نظرآ رہے ہیں اوراب تواُن کے کالموںمیں کھلم کھلا شراب وشباب کی باتیں بھی لکھی جانے لگی ہیں ۔ہم شاید بھول چکے کہ حضرت قائدِاعظم نے زمین کا یہ ٹکڑا ”اسلام کی تجربہ گاہ ” کے طور پر حاصل کیا تھا اور آئینِ پاکستان کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نے سات سالوں میں تمام قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا تھا ۔ مگر آج 42 سال گزرنے کے باوجود بھی ہم وہیں کے وہیںکھڑے ہیں بلکہ پہلے سے بھی بدتر ،البتہ اتنی ترقی ضرورہوئی کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اورایک معزز رکن باہم دست وگریباں نظرآئے ۔میرادین تو اخوت ومحبت اوررواداری کادرس دیتاہے ،پھر پتہ نہیںہم نے اسلامی نظریاتی کونسل کی باگ ڈورکیوںاور کیسے ایسے لوگوںکے سپردکر دی جنہیںاسلام کے اِس بنیادی اصول کابھی ادراک نہیں ۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ پاکستان میں آج بھی ایک قابلِ ذکر طبقہ ایساہے جو طالبان نامی دہشت گردوں کا حامی ہے ۔ یہ الگ بات کہ فی الحال یہ لوگ مصلحتوں کی ”بُکل ” مارے بیٹھے ہیں لیکن اُن کے دِلوںکی دھڑکن اب بھی طالبان کا نام سنتے ہی تیزہو جاتی ہے ۔ اب یہ لوگ داعش نامی نئے فتنے کی طرف رجوع کر رہے ہیں اورشنید ہے کہ پاکستان میںداعش کے لیے دھڑادھڑ بھرتیاںبھی ہورہی ہیں لیکن حکمران تاحال پاکستان میں داعش کے وجود سے انکاری۔ جب حکمران طالبان نامی دہشت گردوں سے مذاکرات کی تگ و دَو میں تھے ، تب بھی میںنے مذاکرات کے خلاف کالم لکھے کیونکہ میراخیال تھا کہ
پکڑ کے زندہ ہی جس درندے کو تم سدھانے کی سوچتے ہو
بدل سکے گا نہ سیدھے ہاتھوں وہ اپنے انداز دیکھ لینا
لیکن نقارخانے میں طُوطی کی آواز بھلا کون سنتا ۔ جب دہشت گردوںنے مذاکرات کے باوجود حملے جاری رکھے تو حکمرانوں کو مجبوراََ آپریشن کی طرف آنا پڑا لیکن ہمارے کپتان صاحب تب بھی اِس آپریشن پر چیں بہ چیں ۔اللہ بھلا کرے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کا جنہوں نے کامیاب ترین ”آپریشن ضربِ عضب ” کی صورت میں زیادہ تر دہشت گردوں کو جہنم کی راہ دکھا دی اور بچے کھچے کونوں کھدروں میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں ۔اب ضرورت اِس امرکی ہے کہ پاکستان میںچھپے ہوئے نہ صرف طالبان نامی دہشت گردوںکا خاتمہ کیاجائے بلکہ اُن کوپناہ دینے والے” سہولت کاروں” کوبھی نشانِ عبرت بنایاجائے ۔اِس کے علاوہ طالبان پیداکرنے والی ”نرسریوں” کاخاتمہ بھی ضروری ہے اوریہ کام اُتنی دیرتک ممکن نہیں جب تک اِس محاذ پرپوری قوم ایک صفحے پرنہ ہولیکن یہاںتو یہ عالم کہ قوم کومتحد کرنے والے سیاسی رہنماء مسندِ اقتدار کے حصول کی خاطر باہم جوتم پیزار ۔ایسے میںامن کاادھورا خواب کیسے پوراہو سکتاہے؟ ۔عزمِ صمیم کے مالک جنرل راحیل شریف صاحب نے توکہہ دیاکہ 2016ء دہشت گردی کے خاتمے کاسال ہے ،پوری قوم کی دعائیں بھی اُن کے ساتھ لیکن اگر فرقوں ،گروہوں اورمسلکی ولسانی جھگڑوںمیں اُلجھی ہوئی قوم کو مدِنظر رکھاجائے تویہ کام اگرناممکن نہیںتو انتہائی مشکل ضرورہے۔
تحریر: پروفیسر رفعت مظہر