حسینہ معین پہلی پاکستانی رائیٹر ہے جنہیں بولی وڈ کے لئے بھی اپنی قلمی خدمات پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہوا
اپنی ذات میں انجمن شخصیت۔۔ حسینہ آپا ۔۔اصل نام حسینہ معین ۔۔بھارت کے شہر کانپور میں ۱۹۴۱ میں پیدا ہوئیں۔کراچی یونیورسٹی سے ماسٹر کیا۔قلمی سفر کا آغاز ریڈیوپاکستان سے کیا اور پھر ٹی وی کے لئے بھی بے شمار ڈرامے لکھے۔ا ن کے ڈرامے حقیقت نگاری سے وابستہ ہیں،انہوں نے عام انسانوں اور انسانی زندگی کے متعلقہ مسائل کوہمیشہ اپنا موضوع بنایا ۔تہذیب ، سماج، رسم و رواج اور تلخ حقیقتوں کو اپنے ڈراموں میں بڑی سادگی مگر منفرد انداز میں قلم بند کیا او رڈراموں کو نئی سمت عطا کی ۔ٹیلیویژن کے لئے انکے لکھے ہوئے ’’کرن کہانی‘‘، ’’بندش، تنہایاں‘‘، ’’دھوپ کنارے‘‘،’’ زیر زبر پیش‘‘،’’ میرے درد‘‘،’’ کیسا یہ جنون‘‘،’’ تم سے مل کر‘‘،’’ دھندلے راستے‘‘،’’آہٹ‘‘،’’ پڑوسی‘‘،’’ ان کہی‘‘،’’ انکل عرفی‘‘،’’ آنسو‘‘،’’ شہزوری‘‘ اور’’ دھند‘‘ سمیت کئی مقبول ترین ڈرامے شامل ہیں۔سرحد پار بھی حسینہ معین کے ڈرامے ’’دھوپ کنارے‘‘ کی ایسی خوب دھوم مچی کہ بعدازاں اسکی ’’کچھ تو لوگ کہیں گے‘‘ کو نام سے دوبارہ پروڈیکشن ہوئی۔دُور درشن کے لئے ’’کشمکش‘‘ تحریر کیا۔فلم انڈسٹری میں طبع آزمائی کی اور ’۱۹۹۸ میں’کہیں پیار نہ ہو جائے‘‘ لکھی جبکہ’’یہاں سے وہاں تک‘‘ اور ’’نزدیکیاں‘‘ کے لئے ڈائیلاگ لکھے اور انڈین فلم حنا کے لئے بھی ڈائیلاگ تحریر کئے جو بے حد پسند کئے گئے یار رہے کہ حسینہ معین پہلی پاکستانی رائیٹر ہے جنہوں نے بولی وڈ کے لئے اپنی قلمی خدمات پیش کی۔بے شمار افسانے بھی قلم بند کئے۔انہیں انکی قلمی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا چکا ہے جبکہ وومن آف دی یئر ایوارڈ، لکس سٹائل ایوارڈ، پی ٹی وی ایوارڈ سمیت بے شمار اعزازات انکا مقدر بنے ہیں، اِسی مایہ ناز ادبی شخصیت حسینہ معین کی قلمی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے یو ایم ٹی پریس فورم کے زیرِاہتمام یو ایم ٹی میں’’لاہوری ناشتہ اور ادبی بیٹھک‘‘کے موقع پر ایک شاندار و پرتپاک تقریب ’’حسینہ معین۔۔شخصیت و فن‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔سٹیج پر حسینہ معین کے ہمراہ جمال شاہ، منو بھائی، نعیم طاہر اور عمرانہ مشتاق جلوہ افروز تھے۔نظامت کے فرائض آمنہ مفتی نے منتخب خوشبودار الفاظ میں جکڑی گفتگو سے نہایت احسن انداز میں سر انجام دیئے کہ مہمانان بھی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے۔ادب و صحافت کے بڑی شخصیات کی شرکت تقریب کی زینت و وقار میں بھرپور اضافہ کر رہی تھی۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جسکی سعادت محمد عرفان کے حصہ میں آئی۔معروف گائیک طاہر پرویز مہدی نے اِس عقیدت مندانہ پرسوز آواز میں حمد ونعت پیش کی ،کہ سامعین حب الہی اور عشق محمدﷺ کے سمندر میں ڈوب گئے،زبانوں سے بے ساختہ وردِ سبحان اللہ طاری رہا۔اظہار خیال کا سلسلہِ آغاز یو ایم ٹی پریس فورم کے نگراں مرزا محمد الیاس سے ہوا ،انہوں پاکستان کے پُرانے اور نئے ڈراموں کا موزانہ پیش کیا اورمستقبل میں اِس شعبے کو درپیش چیلنجز کا بھی ذکر کیا،انہوں پرانے پاکستانی ڈراموں کی کتابی شکل میں پبلیش کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں نئی روایات کو جنم دینا ہو گا تاکہ ادب محفوظ رہے اور نئی نسلیں بھی اس سے مستفید ہوں،اس موقع پر انہوں نے آمنہ اجمل ایڈوکیٹ، رفیع اللہ، سید بدر سعید ،وسیم عباس اور حسیب اعجازسے تنظیمی معاملات پر تعاون پر اظہار تشکر بھی کیا۔ڈاکٹر عمرانہ مشتاق کا کہنا تھا کہ ایسی تقریبات کا مقصد ادیبوں کے درمیان فاصلے کو کم کرنا ہے تا کہ جونیئرز اور سینئرز میں رابطے بڑھیں اور سیکھنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل ہو سکیں ۔انہوں نے حسینہ معین کی شخصیت و فن کے حوالے اپنی گفتگو میں کہا کہ انکا پہلا حوالہ ’’ڈرامہ‘‘ ہے انہوں نے اپنی تحریروں میں عورت کو ایک مضبوط کردار میں پیش کیا ہے،انہوں نے سوسائٹی میں عورت کو درپیش مسائل، سوشل ایشوز، دکھ ، سکھ سمیت ہر موضوع کو ڈرامے کا حصہ بنایا ہے،کراچی کے حالات پر انکا ڈرامہ’’چپ دریا‘‘ بھی ایک شاہکار رہا۔یہ محفل اس ہستی کے اعترافِ کمال میں ہے۔نعیم طاہر نے اظہارِخیال کرتے ہوئے کہا کہ یو ایم ٹی میں اِس شاندرا تقریب میں شرکت میرے لئے قابلِ اعزاز ہے۔ جاوید اقبال، انتظار حسین ، کمال احمد کے وصال پرغم و رنج کا اظہار کیا اور انکی خدمات کو بھی خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ جب تک انکے نام لیوا زندہ ہیں یہ بھی زندہ رہے ہیں انشاء اللہ تعالی۔حسینہ معین کی تحریروں کو اچھا اور شگفتہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انکے ڈرامے یادوں سے نہیں جاتے ،ہماری تہذیب کے عین مطابق انکے ڈراموں میں خاندان کی اکائی مرکز نگاہ رہتی ہے ۔ہماری خواہش ہے کہ یہ اپنے شعبے میں واپس آئیں تا کہ انکے قلم سے ایک خوبصورت معاشرہ تشکیل پا سکے۔جمال شاہ نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انکے ہوتے ہوئے اپنا نامکمل لگتا ہے،انکی صحبت میں گزرا وقت کسی اثاثوں سے بڑھ کر اثاثہ ہے۔انکا لکھا ہوا ہر لفظ معتبر ہے جو ہمیشہ یاد رہے گا۔انکے ڈرامے پاکستانی تہذیب کی حقیقی ترجمان ہیں ،انہوں نے خوبصورت تقریب کے انعقاد پر یو ایم ٹی اور انکی انتظامیہ کی کاوشوں کو خوب سراہا۔
تقریب کا رنگ بدلا اور طاہر پرویز مہدی نے شاہ حسین کا پنجابی کلام ’’مائے نی کہینوں آکھاں،درد وچھوڑے دا حال۔۔وہواں دھکھے میرے مرشد والا، جاں پھولاں تاں لال‘‘بڑے ترنم کے ساتھ پیش کر کے دلوں کو جیت لیا،حاضرین نے دل کھول کر داد لٹائی۔اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے منو بھائی نے کہا کہ حسینہ معین نے بہت خوبصورت اور منفرد انداز میں مشکل موضوعات پر لکھا ہے جو قابل قدر ہے۔پاکستانی فلم انڈسٹری سے زیادہ ڈرامے مقبول عام رہے جس میں حسینہ معین کا بہت اہم کردار ہے۔ایک وقت تھا کہ ادب سے وابستہ احباب نے ٹیلی ویژن کے رخ کیا اور اپنے تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہ چھٹنے دیا مگر آج کل ایسا دیکھنے کو نہیں مل رہا،بلکہ عورت کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے ،جبکہ میں اکثر کہتا ہوں کہ اس ملک میں عورت ہی تبدیلی کی ایک کرن باقی ہے۔عورت ایک جسم ہی نہیں بلکہ ایک طاقت ہے،ایک سوچ ہے ،انہیں انکا اصل مقام کو پہچاننے کی اشد ضرورت ہے۔میری خواہش ہے کہ حسینہ معین دوبارہ لکھیں اور عورتوں کے معاشرے پر مثبت کردار کوپھر سے موضوع بنائیں ۔ناظمِ محفل آمنہ مفتی نے منو بھائی کی بے تکلفانہ گفتگو کو سراہاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے میلہ ہی لوٹ لیا۔حسینہ معین نے اظہارخیال کرتے ہوئے اپنے قلمی سفر کے ابتدائی دلچسپ واقعات کو سماعتوں کی نذر کیا ،انہوں نے کہا کام وہ اچھا ہوتا ہے جو دلجمعی اور خوشی سے کیا جائے اور مایوس نہ ہوا جائے۔اب ہمیں وقت کی رفتار کے ساتھ چلنا ہو گا،سوچ میں تبدیلی لانی ہو گی لیکن اپنی تہذیب کا دامن نہیں چھوڑ سکتے۔نئے موضوعات پر ڈرامے بننے چاہیے،حاضرین حسینہ معین کی پُرمغز اور سیر حاصل گفتگو سے بہت لطف اندوز ہوئے۔آمنہ مفتی نے اختتامیہ کلمات میں تمام شرکاء کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا ۔اختتام تک شرکاء کی دلجمعی نے تقریب کی دلکشی کو برقرار رکھا۔اِس موقع پر حسینہ معین نے حاضرین کے تندو تیزبامقصد سوالات کے تحمل کے ساتھ بڑے مدلل جوابات بھی دیئے ۔