counter easy hit

’’ لال حویلی والڑیا ، مَیں تیریاں خَیراں مَنگاں!‘‘

اگرچہ مَیں اب پاکستان کے کسی بھی سیاستدان کو اپنا ہیرو نہیں سمجھتا لیکن مَیں اور میرے ’’ لاکھوں ساتھی‘‘ قومی اسمبلی میں ’’ یک تارا پارٹی‘‘ پاکستان عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کے فَین ہیں ۔ مَیں اِس لئے کہ خواہ شیخ صاحب سے میری سال میں دو تین بار اچانک ملاقات کیوں نہ ہو ، وہ مجھ سے ایک پُر جوش جپھّی ضرور ڈالتے ہیں ۔ مَیں بھی اُن کی سیاسی صحت کا خیال رکھتا ہُوں ۔ یہاں تک کہ میری دِلی کیفیت ۔ پنجابی اکھان کے مطابق ’’ تَینوں تاپ چڑھے ، مَیں ہُونگاں‘‘ کی سی ہو جاتی ہے ۔ اگر مجھے کسی نیوز چینل پر کسی کلاسیکی موسیقار کا پروگرام نہ دیکھنا ہو تو مَیں ریموٹ کنٹرول سے چینل بدل لیتا ہُوں ، کسی نہ کسی نیوز چینل پر شیخ رشید احمد ہاتھ میں بجھا ہُوا سگار پکڑے مخالف سیاستدان ( خاص طور پر وزیراعظم نواز شریف) اور اُن کے وزراء کے لتّے لے رہے ہوتے ہیں ۔
معزز قارئین و قاریات جانتے ہی ہوں گے کہ ’’ لتے لینا ‘‘ کا مطلب ہے ’’ دھجیاں اُڑانا، آڑے ہاتھوں لینا یا فضیحت کرنا ۔ اُستاد شاعر حیدر علی آتشؔ نے اپنا جنون اور پوشاک کے بارے میں کہا تھا کہ ؎
آفرِیں صد آفرِیں، دستِ جنُوں
خُوب ہی لتّے لئے ، پوشاک کے ‘‘
شیخ رشید احمد اپنے ہر سیاسی پروگرام کو ’’ ہلکی پھلکی موسیقی‘‘ قرار دیتے ہیں لیکن اُن کے سیاسی مخالف اُسے  ( ہندی اور اردو ) میں ’’ پاپؔ موسیقی‘‘ کہتے ہیں!۔ اِس کے باوجود مَیں اور میرے ساتھی “مائنڈ” نہیں کرتے ۔ 24 جنوری کو مختلف چینلوں پر مَیں نے متروکہ وقف املاک بورڈ کے چیئرمین جناب صدیق اُلفاروق کا بیان (اُن کی تصویر) کے ساتھ سُنا۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’ شیخ رشید احمد لال حویلی اور اُس سے ملحقہ پراپرٹی خالی کردیں یا محکمہ (متروکہ وقف املاک بورڈ) کے واجبات ادا کردیں ورنہ قبضہ چھڑانے کے لئے اُن کے خلاف “گرینڈ آپریشن” کیا جائے گا‘‘۔
مَیں تو گھبرا ہی گیا تھا اور میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ سمیت میرے لاکھوں ساتھی بھی ۔ مَیں خوفزدہ تھا کہ نہ جانے صدیق اُلفاروق کی کمان میں قانون نافذ کرنے والا کونسا ادارہ شیخ رشید احمد کے خلاف کِس طرح کا “گرینڈ آپریشن” کرے گا۔ مَیں اردو نہیں بلکہ ’’ پنجابی میڈیم‘‘ ہُوں۔ مَیں نے اوکسفورڈ انگلش اردو ڈکشنری دیکھنے سے پہلے سوچا تھا کہ کیا یہ گرینڈ آپریشن کوئی آپریشن ’’ ضرب اُلعضب‘‘کی طرح کا ہوگا؟ لیکن مَیں ڈکشنری میں “گرینڈ” کے معنی دیکھے تو مَیں مطمئن ہوگیا۔ لفظ “گرینڈ” کے تو بہت سے معنی ہیں ۔ مثلاً عالی شان ، اعلیٰ ارفع ، معزز ، محترم ، امیرانہ، رئیسانہ وغیرہ ۔ ’’ اونچی حویلی کے اونچے لوگوں ‘‘ کو بھی کہتے ہیں ۔
شیخ رشید احمد ’’ جوابِ آں غزل‘‘ میں جناب صدیق اُلفاروق صاحب کو خاطر میں نہیں لا رہے تھے ۔ اُنہوں نے اعلان کردِیا کہ ’’ اگر مجھے قتل کردِیا گیا تو اُس کے ذمہ دار وزیراعظم نواز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو ٹھہرایا جائے!‘‘۔ میرا خیال ہے کہ بے حد مشکلات میں پھنسے ہُوئے وزیراعظم نواز شریف ، اُن کے برادرِ خورد میاں شہباز شریف اور ایک وفاقی اور ایک صوبائی وزیر شیخ صاحب کو قتل کرانے کا خطرہ مول نہیں لیں گے۔
معزول وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو جیل میں تھے ۔ اُنہیں تصّور میں صدر جنرل ضیاء اُلحق اور دُور کہیں پھانسی کا پھندا بھی نظر آ رہا تھا ۔ اِس خوف میں مُبتلا جنابِ بھٹو نے جیل میں کتاب لِکھی جِس کا نام تھا۔  ( یعنی اگر مجھے قتل کردِیا گیا) لیکن بھٹو صاحب کو نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش میں ’’بڑے ملزم کی حیثیت سے ‘‘ پھانسی دے دی گئی۔ صدر جنرل ضیاء اُلحق نے صِرف یہ کِیا کہ اُنہوں نے بھٹو صاحب کی طرف سے کی گئی ’’ رحم کی اپیل‘‘ مسترد کردی تھی۔ بعض سیاستدانوں کا خیال تھا کہ ’’ اگر بھٹو صاحب زندہ رہتے تو کسی بھی وقت اقتدار میں آ کر جنرل صاحب کو موت کی سزا ضرور دِلوا دیتے ! ‘‘۔
شیخ رشید احمد تو کئی بار یہ اعلان کر چکے ہیں کہ ’’ مَیں وزارت عظمیٰ کا امیدوار نہیں ہوں‘‘ ۔ پھر وزیراعظم نواز شریف، اُن کے چھوٹے بھائی اور دونوں وزراء اُنہیں کیوں قتل کرائیں گے؟۔ 20 فروری 2016ء کو دو تین اخبارات میں یہ خبر شائع ہُوئی تھی کہ ’’ شیخ رشید احمد نے حلف اٹھایا ہے کہ وہ اپنی ’’ اگلی کتاب‘‘ میں حکمرانوں اور سیاستدانوں کے بارے میں سچ لکھیں گے‘‘۔ مَیں نے 22 فروری کے ’’ نوائے وقت‘‘ میں شیخ رشید احمد کی ’’ اگلی کتاب‘‘ کے عنوان سے کالم بھی لِکھا تھا اور یہ بھی لِکھا تھا کہ ’’ شیخ صاحب کی آئندہ کتاب کا نام ’’ اگلی کتاب‘‘ کیوں کہا گیا ہے؟۔ اِس لئے کہ  ’’ بدصورت‘‘ ہیں ۔
خبر میں شیخ صاحب کی ’’ اگلی کتاب‘‘ کا نام نہیں بتایا گیا تھا ۔ اُن کے بہت بڑے فَین کی حیثیت سے میرا مُفت مشورہ ہے کہ ’’ شیخ صاحب اپنی ’’ اگلی کتاب‘‘ کا نام “اگر میں قتل نہ ہوں تو ” ۔ہونا چاہیے۔ لال حویلی خالی کرائے جانے کے اعلان کے جواب میں شیخ صاحب کا یہ اعلان تو خُوش کُن ہے کہ ۔ ’’ مَیں ملک اور قوم کے لئے قربانی دینے کے لئے تیار ہُوں‘‘ لیکن اُن کا یہ کہنا کہ ’’ مَیں اپنا تابوت اپنے کندھوں پر اُٹھائے پھرتا ہُوں اور یہ کہ ’’ مَیں خُود کُش سیاستدان ہُوں‘‘۔ اُن کے چاہنے والوں (خاص طور پر) ’’ شاعرِ سیاست‘‘ سمیت میرے اور میرے لاکھوں ساتھیوں کے لئے بہت تکلیف دہ ہے ۔ اِس لئے پاکستان میں جب کوئی خُود کُش حملہ آور پکڑا جاتاہے ، عوام کو اُس سے ہمدردی نہیں ہوتی۔ خدانخواستہ جب شیخ صاحب ( ایک خاص قِسم کی جیکٹ پہن کر ) وزیراعظم ہائوس یا رائے ونڈ میں شریف برادران کے محل میں داخل ہُوئے اور ( ایک بار پھر خدانخواستہ) اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو گئے تو بہت سے بے گناہ لوگ بھی تو مارے جاسکتے ہیں؟۔ خُود کش حملوںمیں مرنے والے بے گناہ لوگوں کو کیا مِلتا ہے؟۔ صِرف پانچ لاکھ  ہاف ملین روپے نہ جانے ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے زندگی سے تنگ آئے ہُوئے کِس پاکستانی کی ترجمانی کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ؎
“ملین ہاف” کا خواب سُہانا ، اچھا لگتا ہے
خُود کُش حملے میں مر جانا ، اچھا لگتا ہے!‘‘
لال حویلی خالی کرائے جانے کی خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’’ قیامِ پاکستان سے قبل لال حویلی ایک ہندو عورت کی ملکیت تھی اور اب اُس میں 1980ء سے شیخ رشید احمد کی رہائش اور سیاست کا مرکز ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اگر شیخ صاحب نے صدیق اُلفاروق کے حکم سے لال حویلی خالی نہ کی گئی تو کیا وہ اُن کے خلاف “گرینڈ آپریشن ” کر کے اپنے قائدین کے انتقام کی آگ بجھا سکیں گے؟۔ ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے راولپنڈی کے قریب رہائش پذیر شیخ رشید احمد صاحب کی ہم عُمر اور بہت بڑی فَین خاتون کے شیخ صاحب کے لئے مُخلصانہ جذبات کا اظہار کرتے ہُوئے کہا کہ ؎
’’ تَینوں ٹی وی تے ویکھاں تے نچّاں وانگ مَلنگاں!
مَیں نئیں ڈردی صدِیق فارق توں ، جَد چھنکاواں وَنگاں
خُود کُش حملہ آور نہ بن ! کہندَیاں تَینوں سَنگاں!
’’ لال حویلی والڑیا ، مَیں تیریاں خَیراں مَنگاں!‘‘

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website