3 اپریل 2010ء کو جناب مجید نظامی اپنے دوستوں اور عقیدت مندوں کے اصرار پر پہلی بار سادگی سے اپنی 82 ویں سالگرہ منانے پر آمادہ ہُوئے۔ بہت کم مہمانوں کو مدّعو کِیا گیا تھا۔ مَیں نے جنابِ نظامی کی قومی خدمات پر نظم پڑھی اور اُن کی سالگرہ کو ۔
’’ چُپ چپیتے سالگرہ!‘‘
کا نام دِیا تھا ۔ 3 اپریل 2014ء کو ’’وائیں ہال ‘‘ میںجنابِ مجید نظامی کی 86 ویں سالگرہ منائی گئی۔ ہال حاضرین سے بھرپور تھا ۔ اِس روز بھی مَیں نے نظم پڑھی ۔ نظم کے آخری دو شعر تھے … ؎
خُوشا! مجید نظامی کی برکتیں ہر سُو
ہے فکرِ قائِد و اقبال کی نگر نگر، خُوشبو
اثرؔ دُعا ہے کہ ہو ، ارضِِ پاک بھی ، شاداب چمک رہا ہے ، صحافت کا ، مہرِ عالم تاب‘‘
26 جولائی 2014ء کو جنابِ مجید نظامی انتقال کر گئے ۔ 3 اپریل 2015ء کو اُن کی 87 ویں سالگرہ سوگوار ماحول میں منائی گئی۔ 31 جنوری 2012ء کو ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید کی سادگی سے منائی جانے والی سالگرہ میں جناب مجید نظامی بھی موجود تھے ۔ مَیں نے شاہد رشید صاحب کے لئے بھی نظم پڑھی۔ دو روز پہلے (31 جنوری کو ) شاہد صاحب کی 55 ویں سالگرہ تھی ۔ مَیں نے اپنے طور پر ’’ نوائے وقت‘‘ کے اپنے ساتھی برادرم سعید آسیؔ کو مدّعو کِیا تو اُنہوں نے مجھے کسی شاعر کا یہ شعر سُنا دِیا کہ … ؎
’’ تیرا پیغام بھی ضروری ہے
اور مجھے کام بھی ضروری ہے‘‘
شاہد صاحب کی سالگرہ پر میری پُرانی (مرمت شدہ ) نظم ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے ڈائریکٹر پروگرامز حافظ محمد عثمان نے پڑھ کر سُنائی۔ جِس میں مَیں نے ’’ فاتح سلہٹ ‘‘ تحریکِ پاکستان کے نامور کارکن جناب محمود علی، فرزندِ اقبال جسٹس جاوید اقبال اور ڈاکٹر مجید نظامی کو بھی یاد کِیا ہے۔ نظم کا مطلع اور ایک بند ملاحظہ فرمائیں…
’’شاہد رشید ہوگئے پچوّنجا سال کے
لے جائے اِن کو ، کوئی نہ یا ربّ اُدھال کے‘‘
…O…
شاہد رشید فاتحِ سلہٹ ؔکی یادگار
اقبال کے سپُوت ؔکے ، بے مِثل شاہکار
دراصل ہیں مجید نظامی کے بالکے
لے جائے اِن کو کوئی نہ یا ربّ اُدھال کے‘‘
لال حویلی‘ شیخ رشید احمد اور صِدّیق اُلفاروق؟
راولپنڈی کی لال حویلی کا تنازع چل رہا ہے ۔ متروکہ وقف املاک بورڈ کے چیئرمین جناب صدیق اُلفاروق وارننگ دے چُکے ہیں کہ ’’شیخ رشید احمد لال حویلی کا کرایہ ادا کردیں ورنہ اُن کے خلاف “گرینڈ آپریشن” ہوگا‘‘۔ جواباً شیخ صاحب نے بھی کہا ہے کہ ’’ مَیں خُود کُش حملہ آور ہُوں ، مر جائوں گا لیکن لال حویلی خالی نہیں کروں گا ‘‘۔ مَیں نے اپنے 26 جنوری کے کالم میں شیخ صاحب کی ایک ہم عُمر اور “فین” راولپنڈی کی ایک خاتون کے جذبات کی ترجمانی کے لئے ’’شاعرِ سیاست ‘‘ کے یہ دو شعر لِکھے تھے … ؎
’’ تَینوں ٹی وی تے ویکھاں تے نچّاں وانگ مَلنگاں!
مَیں نئیں ڈردی صدِیق فارق توں جَد چھنکاواں وَنگاں!
خُود کُش حملہ آور نہ بن ! کہندَیاں تَینوں سَنگاں!
’’ لال حویلی والڑیا ، مَیں تیریاں خَیراں مَنگاں!‘‘
میرا خیال تھا کہ شیخ رشید احمد اور صدیق اُلفاروق صاحب دونوں ’’ پنڈی وال‘‘ ہیں اور کوئی نہ کوئی اُن میں ’’مُک مُکا‘‘ کرا دے گا۔ ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے مجھے یہ ماہِیا بھی لِکھ کر بھجوا یا تھا کہ … ؎
’’ نہ گلِّیں باتِیں ٹال ماہِیا
چھیتی مُک مُکا کرئیے
اسِیں دویں ، پنڈی وال ماہِیا‘‘
جناب صدیق اُلفاروق نے میرا کالم “لُطف” کِیا اور 31 جنوری کو دِن کے ایک بجے اُنہوں نے مجھے ٹیلی فون پر کہا کہ ’’ اثر چوہان صاحب! ’’ لال حویلی ‘‘ کے بارے میں آپ میرا مؤقف بھی اپنے کالم میں لِکھ دیں ‘‘۔ اُنہوں نے مجھے اپنا مؤ قف بذریعہ ای میل بھجوایا ۔ جو قارئین و قاریات کی نذر ہے ۔ ’’ اثر چوہان صاحب! آپ کے حُکم کے مطابق تحریری طور پر میرا مؤقف پیشِ خدمت ہے ۔ لال حویلی چونکہ شیخ رشید احمد صاحب کی غالباً ملکیت ہے اس لئے وہ بار بار نعرے لگاتے ہیں کہ ’’حویلی کسی کا باپ بھی مجھ سے خالی نہیں کروا سکتا‘‘ ۔ گزارش ہے کہ میرے والد صاحب تو وفات پا چکے ہیں انہوں نے حویلی کیا خالی کروانی ہے !میں خود بھی خالی نہیں کروا سکتا کیونکہ یہ میرے ادارے کی ملکیت نہیں ہے۔ شیخ رشید کہتے ہیں کہ یہاں سے میری لاش ہی نکلے گی شیخ صاحب کو اُن کا ارادہ مبارک۔ اگر شیخ رشید صاحب وفات کے بعد اپنا جنازہ لال حویلی سے نکلوانا چاہتے ہیں تو متروکہ وقف املاک بورڈ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ۔البتہ اُن کی وفات پر ادارہ سوگوار ضرور ہو گا کہ لال حویلی کے نام پر للکارنے والا شیخ رشید جو اصل میں شیخ رشید بٹ ہے ، اللہ کو پیارا ہوگیا ۔ ہو سکتا ہے کہ ادارے کے لوگ اُن کے لئے فاتحہ خوانی کا اہتمام بھی کریں اور اگر جنازے میں نہیں تو اُن کے قل میں ضرور شرکت کریں ۔
میری دعا ہے کہ شیخ رشید صاحب کم از کم ایک سو سال تک زندہ رہیں ( کالم نویس کی طرف سے آمین ) تاکہ میدانِ سیاست میں ان کے دم قدم سے لوگوں کو تفریح کا سامان فراہم ہوتا اور جاری رہے۔ ماشا اللہ شیخ صاحب ! سیاسی میدان میں کامیڈین (مخولیا ) اور مسلسل ناکام سیاسی پیشگوئیاں کرنے والے سیاسی نجومی (طوطا فال فیم ) کا مرتبہ حاصل کر چکے ۔ ہیں اللہ اس سے انہیں کبھی محروم نہ کرے ۔ البتہ موصوف سے پُر زور گزارش ہے کہ لال حویلی سے جُڑا ہوا 5 مرلہ کا جو بڑا کمرہ (ہال) اور لال حویلی کے ساتھ جُڑے 5 مرلے کے 6 کمرے جو متروکہ وقف املاک بورڈ کی ملکیت ہیں۔ جن پر انہوں نے صدر جنرل پرویز مشرف کے وزیر کی حیثیت سے کرائے داروں کو جبراً نکال کر ان پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے ، انہیں خالی کر کے متروکہ وقف املاک بورڈ پاکستانی قوم ، ریاست پاکستان اور خاکسار صدیق اُلفاروق پر احسان عظیم فرمائیں۔
اگر شیخ رشید احمد اُس ہال اور اُس کے کمروں کے عشق میں مبتلا ہو گئے ہیں اور انہیں اُن کی جدائی گوارا نہیں تو پھراُن محبوبائوں کے لیے کچھ قربانی دیں ۔ یہ محبوبائیں اُن سے وصل کے لیے جان کی قربانی نہیں ، صِرف مال کی قربانی مانگتی ہیں ۔مال و دولت شیخ صاحب کے پاس بہت ہے ۔شادی بیاہ اور گھر داری کا جھنجٹ انہوں نے پالا نہیں ۔ اس لیے جو کچھ مال و دولت اکٹھی کی ہے ، اُس میں سے وہ 20 کروڑ روپے متروکہ وقف املاک بورڈ کے اکائونٹ میں جمع کرا دیں اور تاحیات اپنی محبوبائوں سے وصل کے مزے لُوٹیں‘‘ ۔
معزز قارئین و قاریات! معاملہ یہ ہے کہ مَیں اور میرے ’’ لاکھوں ساتھی‘‘ لال حویلی پر شیخ رشید احمد صاحب کی ملکیت ، قبضہ یا کرائے داری کو تسلیم کرتے ہُوئے اُن کی بے دخلی کے خلاف ہیں ۔ اب مَیں سوچتا ہُوں کہ کیا مَیں اپنے ’’لاکھوں ساتھیوں‘‘ سے 20 کروڑ روپے اِکٹھا کر کے متروکہ وقف املاک بورڈ کے اکائونٹ میں جمع کرا دوں؟لال حویلی سے متعلق ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کا تازہ کلام ہے … ؎
’’ چار چوفیرے ، بندے بگّے ، لال حویلی
لوڈ شیڈنگ ہووے ، تے جگّے لال حویلی
جدّھر جائو ویکھو، اَگّے لال حویلی
صدیق فاروق جی ویچن لگّے لال حویلی‘‘