اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع لال مسجد نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے الگ ہونے والے گروپ جماعت الاحرار کی جانب سے عبدالرشید غازی کے نام پر شروع کیے گئے دہشت گرد حملوں کے بیان سے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔
واضح رہے کہ مذکورہ گروپ نے لاہور میں ہونے والے حالیہ خودکش حملے کے بعد اپنے بیان میں کہا تھا کہ یہ حملہ عبدالرشید غازی کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے ‘آپریشن غازی’ کا ایک حصہ ہے اور ‘غازی سیکیورٹی فورسز کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے’۔
ہفتہ (18 فروری کو) عبدالرشید غازی کے صاحبزادے ہارون رشید غازی نے اس حوالے سے ایک ویڈیو بیان جاری کیا، جس میں جماعت الاحرار کو مخاطب کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا، ‘ہمیں اس مسئلے کے سیاسی حل کی طرف جانا چاہیے، خون بہانا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے، ہمارا موقف انتہائی واضح ہے، ہم کسی بھی پر تشدد کارروائی کی توثیق نہیں کرتے’۔
ویڈیو میں مزید کہا گیا کہ 2007 میں ہونے والے لال مسجد آپریشن کے بعد سے بین الاقوامی طاقتوں کی وجہ سے ملک کو بد امنی کی لہر کا سامنا ہے، جبکہ دیگر مسلمان ممالک میں بھی عدم استحکام کی صورتحال درپیش ہے۔
انھوں نے پاکستان میں بدامنی کے لیے امریکا اور دیگر مقامی سیاستدانوں کو مورد الزام ٹھہرایا۔
مزید پڑھیں:لال مسجد آپریشن
دوسری جانب لال مسجد شہداء فاؤنڈیشن بھی جماعت الاحرار کو ان حملوں کے لیے عبدالرشید غازی کا نام استعمال کرنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنا چکی ہے۔
ہارون رشید غازی کا یہ ویڈیو بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب کالعدم تنظیم کی جانب سے جاری کیے گئے حالیہ بیان میں کہا گیا کہ وہ شہداء فاؤنڈیشن اور مولانا عبدالعزیز پر پڑنے والے دباؤ کو سمجھتے ہیں، گروپ نے عبدالرشید غازی کی ایک ویڈیو بھی جاری کی، جس میں وہ ریاستی اداروں کے خلاف مزاحمت کا کہتے نظر آئے۔
ایک سیکیورٹی عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ وفاقی پولیس کے حکام نے جی 7 میں واقع جامعہ حفصہ کا دورہ کیا اور مولانا عبدالعزیز سے جماعت الاحرار اور کالعدم گروپ کی ان کے بھائی عبدالرشید غازی کی حمایت سے متعلق امور پر بات چیت کی۔
عبدالرشید غازی 2007 میں لال مسجد آپریشن کے دوران جاں بحق ہوئے تھے۔
دوسری جانب شہداء فاؤنڈیشن کے ایک ترجمان نے اس بات کی تردید کردی کہ قانون نافذ کرنے والے کسی عہدیدار نے لال مسجد یا مولانا عبدالعزیز کے کسی رشتے دار سے رابطہ کیا تاہم سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیم کے اس اعلان کے بعد لال مسجد انتظامیہ، مولانا عبدالعزیز اور ان کے بھائی کے اہلخانہ پر بہت دباؤ ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا نے بتایا، ‘ہم پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے بنیادی طریقہ کار کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ انھوں نے عبدالرشید غازی کے اہلخانہ سے رابطہ نہیں کیا ہوگا’۔
یہ بھی پڑھیں:اسلام آباد: غازی عبدالرشید کے بیٹے گرفتار
ان کا کہنا تھا، ‘ان کے اہلخانہ پر پہلے سے ہی دباؤ ہے کیونکہ عبدالرشید غازی کے بیٹے کو باقاعدگی سے حکام کی جانب سے حراست میں لیا اور رہا کیا جاتا رہا ہے’۔
ان کا مزید کہنا تھا، ‘سب سے اہم دباؤ، جس کا لال مسجد اور حکومت کو خدشہ ہے، وہ لال مسجد کے خلاف سول سوسائٹی کا احتجاج ہے’۔
اپنے ایک دوسرے بیان میں لال مسجد نے سیہون خودکش حملے کے بعد 100 سے زائد ‘دہشت گردوں’ کی ہلاکت میں شفافیت پر بھی سوال اٹھایا۔
شہداء فاؤنڈیشن نے مطالبہ کیا کہ مرنے والوں کے نام اور تفصیلات کو عام کیا جائے۔
مزید کہا گیا، ‘قوم ان ہلاکتوں کی وجہ جاننا چاہتی ہے، پہلے تمام دہشت گرد معصوم لوگوں کو قتل کردیتے ہیں اور پھر سیکیورٹی فورسز ماوارئے عدالت قتل کرتی ہیں’۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ‘انسداد دہشت گردی کی ضرروت ہے لیکن اسے قانون کے دائرے میں ہونا چاہیے’۔