تحریر: ایم سرور صدیقی
نبی رحمت کہیں سے تشریف لارہے تھے راستے میں عمر بن ہشام ( ابو جہل) مل گئے آپ ۖ نے اسے پھر اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔۔اس نے کہا بھتیجے اگر تم مجھے یہ بتادو کہ میری مٹھی میں کیا ہے تو میں مسلمان ہو جائوں گا۔۔۔آپ ۖنے تبسم فرماکرکہا میں بتائوں یا جو چیز تمہاری مٹھی میں ہے وہ خودبتا دے۔۔۔ یہ تو زیادہ بہترہے ابو جہل بولا ۔۔۔۔نبی ٔ رحمت ۖنے اشارہ کیا ابو جہل کی مٹھی میں بند کنکریاں پکار اٹھیں لاالہ الا اللہ محمدالرسول اللہ۔ عمر بن ہشام کی جہالت دیکھئے اس نے ڈھٹائی سے کہا اب مجھے یقین ہوگیاہے کہ (معاذاللہ) تم واقعی جادوگرہو۔۔۔آپ ۖنے مسکرا کر جواب دیا تم واقعی ابوجہل ہو۔۔۔اس دن سے پوری دنیا عمر بن ہشام کو ابو جہل کہنے لگی۔۔۔اکثر سوچتارہتاہوں نبی ٔ رحمت ۖ کے بغیر دنیا میں کتنی جہالت ہوتی اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔۔
آپ کی واضح تعلیمات،احکامات اورارشادات کے باوجود اس دنیا میں کتنا ظلم۔۔کتنی بربریت اور کس قدر بے رحمی ہے دنیا بھر کے مسلمانوںکے قول و فعل میں کتنا تضادہے کہیںفرقہ واریت،لسانی جھگڑے معمول بن گئے ہیں بیشتر اسلامی ممالک میں کہیں جمہوریت۔۔۔کہیں خلافت۔۔۔کہیں بادشاہت اور کہیں اسلام کے نام پرقتل وغارت، منافقت، سازشیں اور ظلم کا دور دورہ ہے۔۔۔ نبی ٔ رحمت ۖ نے مسلمانوں کو ایک ہونے کا حکم دیا ہے ہم گروہ در گروہ اور تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جارہے ہیں اور کسی کو مطلق احساس تک نہیں کہ یہ سب اسلامی تعلیمات کے منافی کام ہیں۔۔جو نبی پوری دنیا کیلئے رحمت بن کر آیاجس نے واضح حکم دیا کہ کافروںسے جنگ کے دوران بھی ان کی عورتوں اور بچوں کو قتل مت کرنا۔۔۔جسۖ نے فرمایا دوسروں کیلئے بھی وہی چیز پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو۔۔۔ ان کا ۖ کا ارشادِ گرامی ہِے مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہ سکیں۔۔۔
جس ۖنے کہا میانہ روی اختیار کرو یہی تمہارے لئے بہترہے۔۔۔وہ نبی ۖ جس نے فتح مکہ کے دوران اپنے بدترین دشمنوںکو بھی معاف کردیا۔۔وہ نبی ۖ جس نے فرمایا مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ہم بھائی بھائی تو کیا انسا ن کے درجہ سے بھی گرگئے احیف صد حیف ہم نے ان ۖ کی تعلیمات کو بھلا ڈالا۔ آپ ۖ کی تلقین کو فراموش کردیا ہمارے قول و فعل نے لوگوںکو اسلام سے متنفرکرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔۔ موقع جان کر اسلام دشمنوں نے نبی ٔ رحمت ۖ کے دین کو دہشت گردی سے منسوب کردیا ہم نے پھر بھی کوئی سبق یا عبرت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔۔آپ ۖ نے تو حکم دیا کمزورسے درگذرکرو اور ہم ہیں کہ کمزوروںپر غصہ ہی بہت آتاہے اور ہمیںاپنے سے طاقتورپر ترس اس سے بھی زیادہ۔۔۔۔نبی ٔ رحمت ۖ کی تعلیمات کو بھلادینے کے نتیجہ میں دنیا بھرکے مسلمان ایک ایسے دوراہے پر جا کھڑے ہوئے ہیں جہاں انہیں کہیں بھی پناہ نہیں مل رہی عراق، مقبوضہ کشمیر، شام ، فلسطین،افعانستان،پاکستان اور دیگر کئی اسلامی ممالک سال ہا سال سے جنگ کا میدان بنے ہوئے ہیں پوری دینا میں ہر طرف مسلمانوںکے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے
مسلمان اس جنگ کا ایندھن بنے ہوئے ہیں ہمیں تو اللہ نے حکم دیا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ بازی میں نہ پڑو۔۔۔ لیکن ہم مسلمانوںنے تفرقہ بازی کو ہی دین سمجھ لیاہے ۔۔۔ دین کی اساس بھی ۔۔۔ کوئی غور کرنا پسند ہی نہیں کرتامسلم ممالک میں سیاسی بے چینی، معاشی عدم استحکام،دھماکے، خودکش حملے، انتہا پسندی،اشرافیہ کا ا نتہائی طا قتور نیٹ ورک اور حکمرانوںکی ہر قیمت پر اقتدار میں رہنے کی خواہش نے انہیں اغیارکا دست ِ نگربناکررکھ دیاہے۔پاکستان میں تو اربوں ڈالر قرضے لینے کے باوجودعوام کی حالت بہترہوئی نہ ملک اقتصادی طورپر مضبوط بلکہ ملکی معیشت کی حالت دن بہ دن پتلی ہوتی جارہی ہے عراق،فلسطین، لیبا،شام،افعانستان اور دیگرکئی مسلمان ملک اب اتنے کمزورکردئیے گئے ہیں کہ اپنا دفاع کرنے کے بھی قابل نہیں رہے لیکن مسلمان حکمران خواب ِ غفلت میں اتنے مدہوش ہیں کہ انہیں مستقبل کی کوئی فکرہے نہ عوام کی خبر۔۔۔اکثر سوچتارہتاہوں
نبی ٔ رحمت ۖ کے بغیر دنیا میں کتنی جہالت ہوتی اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ آج بھی ہم نبی ٔ رحمت ۖ کی تعلیمات پر عمل کریں تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں ہم ایک بار پھر دین و دنیا میں سرخرو ہو سکتے ہیں دنیا کی حکمرانی ہمارا مقدر بن سکتاہے۔۔۔ یوں تو اب ماشاء اللہ پورا سال ہی محافل ِ نعت اورمیلاد النبی ۖ کی تقاریب ہوتی رہتی ہیں۔ہر سال ربیع الاول کے مہینے میں یہ جوش و خروش عروج پر پہنچ جاتاہے۔۔۔ہر مسلمان کو آقا ۖ کی ولادت کا دن انتہائی ذوق و شوق سے منانا چاہیے کہ کائنات میں اس سے زیادہ مبارک،محترم اور مقدس دن آیا ہے نہ آئے گا یہ دن ہم سے اس عہدکا بھی متقاضی ہے کہ ہم اپنی شخصیت کو لالچ، جھوٹ، مکرو فریب سے پاک کرنے کیلئے خود احتسابی کو اپنائیں۔۔۔کرپشن،ظلم ، ناانصافی کے خاتمہ کیلئے آواز بلند کریں۔۔ تعلیم کے فروغ ،جہالت ،غربت،افلاس ختم کرنے کیلئے بھی جو ہو سکے ضرورکریں اس کے تقاضے یہ بھی ہیں کہ ہم معاشرے کے کمزور،کم وسائل،کچلے اور سسکتے طبقات کو طاقت بخشیں۔۔۔ جھنڈیاں لگانا ،چراغاں کرنا، میلاد ۖ کی محافل کا انعقاد بھی اہم ہے اس سے دلوں کو نیا ولولہ نیا جوش ملتاہے۔۔۔ لیکن اصراف کو ترک کرکے کچھ وسائل غریبوں، بیوائوں کی کفالت کیلئے بھی خرچ کریں ۔۔۔
کسی بیروزگار کی چھوٹا کاروبار کروانے کیلئے معاونت کریں۔۔ صدقات و خیرات بھی کریں۔کسی یتیم بچی کی شادی ۔۔کسی مجبور طالبعلم کی سکول کالج کی فیس دیدیں، کتابیں یا یونیفارم لے دیں ۔۔کسی بیمارکا علاج کروادیںالغرض جس میں جتنی استطاعت ہے اس کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور کرے۔۔۔۔ ان طریقوں کو اپنے محبوب نبی ۖ کی خوشنودی کیلئے مروج کریں۔۔ دوسروں کو ترغیب دیں ۔۔ عشق ِ مصطفے ٰ ۖ کو اپنی طاقت ،قوت اور جرأت بنائیں حالات بدل جائیں گے بدنصیبی کے اندھیرے چھٹ جائیں گے مقدر کا رونا رونے والوں پر مقدر ناز کرے گا آزمائش شرط ہے ۔ یقین کریں صدق ِ دل سے بے لوث کام آنا ایسی نیکی ہے
جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔۔۔کسی مجبور کی مدد، کفالت، قرض ِ حسنہ،کسی یتیم بچی کی شادی ،کسی کو باعزت روزگار کی فراہمی سے اللہ اور اس کے حبیب پاک ۖ کو راضی کرنا ہے۔۔چراغ سے چراغ جلانے کی روایت ہے صدقہ ٔ جاریہ ہے اسی میں ہمارے نبی ۖکی خوشی ہے یہی اطاعت ِرسول ۖ کا اصل مفہوم ہے۔ خوشیوں کے فروغ کا ذریعہ بھی ۔۔۔جہالت ،غربت ،افلاس ختم کرنے کی کوشش بھی۔عشق ِ مصطفےٰ ۖ کا یہ بھی تقاضا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائیں۔۔۔ بہتر تربیت دیں حرام اور حلال کی تمیز سکھائیں خود رزق ِ حلال کمائیں اور اپنی اولادکی پرورش کی بنیاد بھی لقمہ ٔ حلال پر رکھیںاکثر سوچتارہتاہوں نبی ٔ رحمت ۖ کے بغیر دنیا میں کتنی جہالت ہوتی اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا جہالت دورکرنے کا سب سے بڑا نسخہ ٔ کیمیا اطاعت رسول ۖ ہے اسی لئے تو اقبال نے کہا تھا
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہرمیں اسم ِ محمد ۖسے اجالا کردے
تحریر: ایم سرور صدیقی